ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی جوں جوں بڑھ رہی ہے، اسی رفتار سے عوام کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور حکمرانوں نے تو عوام کے مسائل کم کرانے کے بجائے مسائل بڑھانے کا حتمی فیصلہ کر رکھا ہے اور جس ملک کے وزیراعظم اپنے ڈھائی سال کے عرصہ اقتدار میں 65 غیر ملکی دوروں میں چھ ماہ مصروف رہے ہوں ان سے کوئی کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ باقی دو سال میں انھیں اپنی سرکاری اور نجی مصروفیات میں عوام کے مسائل کا خیال آیا ہو۔
مغربی ممالک میں وہاں کی حکومتیں جس طرح اپنے عوام کے مسائل کو درپیش رکھ کر انھیں حل کراتی ہیں اس کا تو ہمارے یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمارے حکمران خود عوام کے مسائل میں مزید اضافہ کرتے جاتے ہیں اور بڑے فخر سے کہہ دیتے ہیں کہ عوام کو درپیش مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔
عوام کے مسائل حل کرانے کی ذمے داری حکومتوں کی ہوتی ہے مگر ہمارے یہاں عوام کے مسائل حل کرانے اور سہولتیں فراہم کرنے کے زیادہ کام سماجی ادارے کر رہے ہیں کیونکہ ہماری حکومتیں خواہ سیاسی ہوں یا فوجی، وہ فلاحی بہرحال نہیں ہوتیں اور اب تو ہر حکومت نے اپنا یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ مہنگائی اور دیگر معاملات میں عوام کو اتنا الجھا دیا جائے کہ وہ اپنے معاشی مسائل حل کرنے ہی میں لگے رہیں۔
اس ملک کو ایسے حکمران بھی ملے جن کے منشور میں عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا شامل تھا مگر عوام کو ملا کچھ نہیں، کیونکہ عوام کو دھوکا دینے کے لیے خوش نما بیانات دے کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ عوام ان کی باتوں میں آ گئے، اب عوام کے مسائل اقتدار میں آ کر کیوں حل کریں، عوام کے مسائل عوام جانیں ہم اپنے اقتدار کو مضبوط بنائیں اور طول دینے کی کوشش کریں۔
دوسرے ملکوں میں عوام کی فلاح و بہبود کے جو کام وہاں کی حکومتیں کرتی ہیں وہ کام ہمارے یہاں سماجی اور فلاحی ادارے انجام دے رہے ہیں۔ عوام کو صحت، تعلیم اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی منتخب حکومتوں کا فرض اولین ہونا چاہیے مگر یہاں ایسا نہیں ہے اور یہ کام بھی سماجی ادارے کر رہے ہیں۔
اب تو بلدیاتی مسائل حل کرانے کی ذمے داری سماجی رہنماؤں نے سنبھال لی ہے اور اپنے علاقوں کی نہایت بری حالت دیکھ کر عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرانے والے سماجی و فلاحی ادارے بھی وجود میں آ جائیں گے کیونکہ تمام صوبائی حکومتوں نے عوام کے بنیادی مسائل کو نظرانداز کر رکھا ہے اور انھیں عوام کے بنیادی مسائل سے نہیں بلکہ عوام سے جھوٹے وعدے کر کے ان سے ووٹ لینے سے دلچسپی رہ گئی ہے۔
حکومت تصور تو کرے کہ اگر ملک میں ایدھی فاؤنڈیشن، چھیپا سروس، سیلانی ویلفیئر، انجمن حمایت اسلام، عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ جیسے ملک گیر فلاحی ادارے اور سماجی رہنما اور بلاامتیاز خدمت کے بھی بڑے سماجی اور فلاحی خدمات انجام دینے والے ادارے نہ ہوتے تو عوام کا کیا حال ہوتا اور حکومت پر کس قدر مالی بوجھ ہوتا۔ جو یہ ادارے حکومتوں کی طرح اپنے سیاسی مفاد کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف عوام کو سہولتوں کی فراہمی اور اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دے رہے ہیں بعض سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے فلاحی ادارے، اسپتال و ڈسپنسریاں، میت بس سروس اور ایمبولینس سروسز بنا رکھی ہیں اور جہاں جہاں سرکاری اسپتالوں میں ایمبولنسیں تک نہیں ہیں وہاں بھی نجی ادارے یہ سروس فراہم کر رہے ہیں۔
غیر سیاسی مقاصد کے لیے عوام کی حقیقی خدمت کے لیے سماجی اداروں کے علاوہ ملک میں ایسے مخیر حضرات بھی موجود ہیں جو شہرت اور نام کے لیے ادارے نہیں بناتے بلکہ ذاتی حیثیت میں یہ خدمات انجام دیتے ہیں اور انھیں بدلے میں کسی صلے اور ستائش کی تمنا بھی نہیں ہوتی۔ خاص کر مذہبی تہواروں پر یہ لوگ کروڑوں روپے کا راشن، کپڑے غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
غریبوں کو دوائیں، مفت آپریشن اور مختلف امراض خصوصاً آنکھوں کے علاج کی سہولتیں فراہم کرتے آ رہے ہیں۔ ملک کے عظیم رہنما عبدالستار ایدھی بھی اس ملک میں محفوظ نہیں تھے اور عارضی طور پر ملک چھوڑ گئے مگر پھر وطن واپس آ گئے۔ حکومت سماجی رہنماؤں کی اگر حفاظت کرتی تو بہت سی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
اس ملک میں سیاسی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر لوگ قتل ہوتے رہے ہیں مگر سماجی رہنماؤں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک سماجی رہنما سبین محمود اس لیے قتل کر دی گئیں کہ انھوں نے سیاست میں پڑے بغیر بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ یہاں اورنگی پروجیکٹ کی غیر سیاسی ڈائریکٹر ڈاکٹر پروین رحمن کو دن دہاڑے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
بلدیہ عظمیٰ کے ایک معذور ڈپٹی ڈائریکٹر اور معذوروں کا ایک ادارہ چلانے والے سید جعفر شاہ کو بھی نہیں بخشا گیا جو خود چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھے اور وہیل چیئر پر اپنے جیسے معذوروں کی خدمت کے سوا انھیں ان کے حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد کرتے آ رہے تھے اور سرعام قتل کر دیے گئے۔
اولڈ گہلیمار میں ایشیا کے سب سے بڑے گٹر باغیچہ کو قبضہ مافیا سے بچانے کے لیے سرگرم سماجی رہنما نثار حسین بلوچ قتل کر دیے گئے۔ ناظم آباد گول مارکیٹ کے قریب دو سال قبل جمعہ کی نماز ادا کر کے جانے والے مشہور سماجی رہنما حامد علی خان اپنے ساتھی سمیت شہید کیے گئے تھے جنھیں لوگ حامد بھائی کے نام سے اب بھی یاد کرتے ہیں اور روتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے بعد ہم بے سہارا ہو چکے ہیں اور ہمارا کوئی پرسان حال نہیں رہا ہے۔
حامد بھائی کی خدمات صرف ناظم آباد والے ہی نہیں بلکہ ان کی مدد حاصل کرنے والا ہر شخص حامد بھائی جیسے مخیر حضرات کی تلاش میں ہے جنھوں نے کوئی سماجی ادارہ بنایا ہوا نہیں تھا، وہ اپنے ذاتی وسائل اور اپنے جاننے والوں کی مدد سے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرتے تھے اور ان کے پاس آ کر کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔
رمضان المبارک میں جب پھل غریبوں کی پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں حامد بھائی ہی تھے جو نہایت مناسب داموں پر غریبوں کو پھل فراہم کراتے۔ راشن اور کپڑوں کے علاوہ دواؤں کی فراہمی، ملازمتوں کے حصول میں بھرپور تعاون اپنا فرض سمجھتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی ان کے پاس آ کر مایوس نہ لوٹے۔ متحدہ کے حامی مگر ہر سیاسی جماعت میں عزت سے دیکھے جانے والے حامد بھائی کے تمام بھائی امریکا منتقل ہو چکے تھے اور انھیں بھی کہتے تھے کہ امریکا آ جائیں مگر اپنے وطن میں ہزاروں افراد کے کام آنے والے حامد بھائی نے امریکا جانے سے انکار کرتے وقت سوچا بھی نہ تھا کہ چند ماہ بعد ہی انھیں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد قتل کر دیا جائے گا۔ یہ حامد بھائی سے لوگوں کی محبت تھی کہ اہم مارکیٹ سوگ میں تین روز بند رہی اور ہزاروں سوگواروں نے ان کی نماز جنازہ میں بلاامتیاز شرکت کی تھی۔
حامد بھائی کو مارنے والوں کو اگر ان کی بلاامتیاز سماجی خدمات کا علم ہوتا تو وہ شاید باز رہتے اور عوام کے حقیقی مسیحاؤں کو قتل نہ کرتے۔ دو سال گزر گئے مگر حامد بھائی کے قاتل ملے نہ دیگر سماجی رہنماؤں کے۔ قاتلوں کو آسمان کھا گیا ہو یا زمین نگل گئی ہو مگر لوگ یہ ضرور کہتے ہیں کہ سیاسی لوگوں کے قاتل کبھی تو پکڑے جاتے ہیں مگر سماجی رہنماؤں کے قاتل کیوں نہیں پکڑے جاتے؟
محمد سعید آرائیں
غریبوں کو دوائیں، مفت آپریشن اور مختلف امراض خصوصاً آنکھوں کے علاج کی سہولتیں فراہم کرتے آ رہے ہیں۔ ملک کے عظیم رہنما عبدالستار ایدھی بھی اس ملک میں محفوظ نہیں تھے اور عارضی طور پر ملک چھوڑ گئے مگر پھر وطن واپس آ گئے۔ حکومت سماجی رہنماؤں کی اگر حفاظت کرتی تو بہت سی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
0 Comments