پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر تاج حیدر نے مجھے
کراچی کے امن کے حوالے سے کہا کہ کراچی ایک سونے کی چڑیا ہے، اور کراچی سے ہر ایک کو اپنا حصہ چاہیے۔ جب تک کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھا جاتا رہے گا کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ان کی بات سولہ آنے درست ہے کیونکہ کراچی سے سب نے کچھ کچھ لیا، لیکن کراچی کو کسی نے کچھ دیا نہیں۔ پی پی پی کے ایک اور رہنما نے کہا کہ کراچی کی لیڈر شپ اسی کو ملے گی جس سے عوام پیار کرتے ہیں۔
کراچی ہمیشہ سیاسی حوالے سے گیم چینجر رہا ہے، پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کے کھیل میں کراچی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ماضی میں اٹھنے والی تحریکوں کی وجہ سے سے مرگلہ کی پہاڑیوں میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والے یہی سمجھتے ہی کہ خطرہ ابھی بہت دور ہے اس کو ہینڈل کر لیں گے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ ایسا بہت کم ہوا ہے اور ایک تیز اندھی نے سب کچھ آناًفاناً اڑا کر رکھ دیا تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے منحرف رہنماؤں کی الگ جماعت بنانے کے سلسلے نے کراچی کی سیاست کا مکمل رخ تبدیل کر دیا ہے۔
مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی و دیگر کے الزامات پر ہم بات نہیں کریں گے کیونکہ گزشتہ 20 سالوں سے ہم یہی تو سب کچھ سنتے آ رہے ہیں، لیکن اس پر بات ضرور کریں گے کہ مصطفیٰ کمال نے اپنی سابقہ جماعت پر جو الزامات لگائے اس پر حکومت کیا کر رہی ہے؟ غداری کے تمغے دینا تو خیر ہماری روایت بن چکی ہے، پاکستان کا کون سا ایسا سیاسی لیڈر ہے جیسے غدار نہیں کہا گیا۔ اہمیت اس بات کی بھی نہیں ہے کراچی کے عوام سے کتنا پیسہ وصول کیا گیا۔ کراچی کے عوام سے ٹیکس کی صورت میں 70 فیصد تو ویسے ہی وفاق لے رہا ہے لیکن کراچی کو حصہ کتنا دیا جاتا ہے یہ سوچنے کی بات ہے۔
تاج حیدر بتاتے ہیں کہ جب وفاق نے ایک بریفنگ ہمیں دی جس کے مطابق وفاق کی جانب سے جی ایس ٹی کلیکشن کے اعداد و شمار دیے گئے۔ جس میں 183 ارب روپوں میں سے 133 ارب روپے سندھ نے دیے۔ گیس لائن ڈالنے کے لیے،71% سندھ سے جا رہا ہے جس کی سندھ کو ضرورت نہیں ہے۔ سندھ اپنی ضرورت سے زیادہ گیس پیدا کر رہا ہے اس سے زیادہ بھی پیدا کر سکتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ ہم ملکی و غیر ملکی فرق برابر کرنے کے لیے آپ کو گیس کم پیسوں میں دے رہے ہیں جب کہ ہم کہتے ہیں کہ 133 ارب روپوں سے 25/30 ارب روپے ہی یہاں لگا دیں ساری گیس ہم دے سکتے ہیں۔
جب کراچی کو کوئی اون نہیں کرے گا تو صورتحال تو یہی ہو گی۔ آج مصطفیٰ کمال اور ان کے ہمنوا، متحدہ قومی موومنٹ پر جتنے الزامات لگا رہے ہیں، یہ بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ان باتوں و الزامات کا حکومت کو شروع سے علم تھا۔ میرے سامنے پاکستان کے ایک موقر اخبار کا 16 مارچ 1996ء کی خبر کا تراشا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’الطاف حسین کے خلاف دستاویزی ثبوت لے کر پاکستانی ٹیم لندن پہنچ گئی: نصیر اللہ بابر۔ رحمان ملک کاروائی مکمل ہونے تک لندن میں قیام کریں گے اور دستاویزات کی رسید لیں گے۔
ایف آئی اے کے ڈائریکڑ جنرل رحمان ملک پاکستان کے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ماہرین قانون کی ٹیم دستاویزی ثبوت لے کر لندن گئی تھی تا کہ ایم کیو ایم کے قائد کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے رحمان ملک کو خاص طور پر ہدایت کی تھی کہ وہ کارروائی مکمل ہونے تک لندن میں رکے رہیں۔ کیونکہ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان نہیں تھا۔
اس کے باوجود برطانیہ کے ہوم سیکریٹری مائیکل ہاروڈ نے کہا تھا کہ اگر معاہدہ نہ ہونے کے باوجود ایسا طریق کار موجود ہے جس میں الطاف حسین کو پاکستان حوالے کیا جا سکتا ہے، وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ سینیٹر اقبال حیدر نے کافی مواد الطاف حسین کے خلاف دیا ہے۔ آج 2016ء میں بھی الطاف حسین ہر طرح کے الزامات کے باوجود لندن میں مقیم ہیں، عمران خان، جارج گیلوے، حبیب جان بلوچ، بریف کیس بھر کر برطانیہ جانے والے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سب اس دعوے کے ساتھ گئے کہ الطاف حسین کو گرفتار کر کے پاکستان لائیں گے لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔
عوام کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ رحمان ملک صاحب آپ ناکام کیوں لوٹے، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا تو بریف کیس لے کر گئے تھے وہ بھی عوام کو نہیں بتا سکے کہ ان بریف کیسوں کو کس سمندر میں پھینک آئے۔ متحدہ تین حصوں میں تقسیم ہوئی، بعد میں عامر خان نے معافی مانگ لی اور دوبارہ متحدہ کا حصہ بن گئے۔
متحدہ میں دھڑے بازیوں اور اختلافات کی خبریں میڈیا میں آتی رہیں، لیکن بحث اس پر بھی نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں اتنے افراد دشمنوں نے خود کش دہماکوں میں شہید نہیں کیے جتنے کراچی میں لسانی فسادات میں بے گناہ انسانوں کو مارا گیا۔ چاہے ان کا نظریہ کچھ بھی ہو، لیکن بلوچ، پختون تو ان ٹارگٹ کلرز کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ مارے گئے۔ مصطفیٰ کمال کی تمام باتوں سے اتفاق کر بھی لیا جائے تو حماد صدیقی کو معصوم کارکن کیسے کہہ سکتے ہیں۔
اجمل پہاڑی، صولت مرزا کے وکیل صفائی کیونکر بن سکتے ہیں، نہیں یہ سب درست نہیں ہے، مصطفی کمال کی تمام تر باتوں کا حکومت اور عوام کو بخوبی علم تھا، یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، لیکن مصطفیٰ کمال ان سفاک قاتلوں کو معصوم کہہ کر ان کے لیے عام معافی کا اعلان کرنے کا وکیل صفائی کا کردار ادا نہیں کر سکتے، اس طرح تو خودکش دہماکے کرنے والے بھی یہی جواز دیتے ہیں کہ امریکا کے ڈرون حملے اور ان کی سر زمین پر قابض ملک کی حمایت اور تمام سپورٹ دینے والوں نے ہمارے ساتھ ظلم کیا، اس لیے تو پھر سب کو عام معافی دینے کا حق بنتا ہے۔
مصطفیٰ کمال صاحب آپ نے متحدہ کی اندرونی کہانی بہت اچھے لفظوں میں بیان کی لیکن جب ہر کوئی ماں کے پیٹ سے مجرم پیدا نہیں ہوتا، حالات و واقعات اور لالچ ہی ان کو مجرم بننے پر مجبور کرتے ہیں، آپ کو ان کے معاملات عدالتوں پر چھوڑ دینے چاہیئں، ان کے خلاف تیز تر عدالتوں میں جلد مقدمات چلانے کی سفارش کرنی چاہیے، ہر گواہ کی حفاظت کے لیے ان کے ساتھ آپ اور آپ کی ٹیم کو کھڑا ہونا چاہیے تا کہ جب وہ گواہی دینے آئے تو اسے کوئی واپسی میں قتل نہ کر دے، آپ کو چاہیے کہ ایسے لوگوں سے ہاتھ اٹھا لیں اور نئے نوجوانوں کو اجمل پہاڑی بننے سے روکیں۔ بھارتی را کے ایجنٹ یا بلیک واٹر کے ایجنٹ بننے سے روکیں، تمام قومیتوں کی بات کریں۔ مظلوم اردو بولنے والا نہیں بلکہ کراچی میں بسنے والی دیگر قومتیں بھی ہیں۔
وہ اقلیت میں ہیں ان کی حفاظت کے لیے انھیں اپنے پاس بلائیں۔ ان کو احساس تحفظ دیں۔ لیکن مجرموں کو معصوم قرار دیں گے تو کراچی کی عوام آپ کو کراچی کی لیڈر شپ دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہونگے۔ کراچی کی لیڈر شپ حاصل کرنی ہے تو لسانیت کے خول سے جتنی جلدی باہر نکل سکتے ہیں باہر نکل آئیں ورنہ جتنے بھی لوگ آپ کے پاس آ رہے ہیں آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے جائیں گے۔ آپ ہر سال تجدید عہد وفا کرتے رہے ہیں اس بار عوام سے عہد کریں کہ اپنے خاندان اپنے بچوں کو واپس پاکستان لائیں گے۔ یہاں عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے تو پھر اس پر خود بھی عمل کرنا ہو گا، لیاری بھی جانا ہو گا۔
کٹی پہاڑی بھی جانا ہو گا۔ ان سے معافی بھی مانگنی ہو گی کہ یہ پر امن ثقافتی علاقے پوری دنیا میں بد نام ہوئے۔ کراچی سونے کی چڑیا ہے، اس سے حق لینا ہے تو حق دینا بھی ہو گا۔ متحدہ کے منحرف اراکین با الفاظ دیگر باغیوں کو اکٹھے کرنا اہم نہیں ہے۔ بلکہ اہم یہ ہے کہ کراچی میں امن کے لیے آپ کو ٹارگٹ کلرز سے ہاتھ اٹھانا ہو گا، کراچی کے عوام تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں الطاف حسین کی جگہ مصطفی کمال آ گئے اور اسٹرکچر وہی رہا تو کوئی بھی موومنٹ بنا لیں، اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔ ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور اور اغوا برائے تاوان والوں کو بلوچستان کے عوام سے ملا کر این آر او لینے کے لیے کراچی کی مکمل حمایت آپ کے ساتھ نہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ برین واش سب کے ہوئے ہیں۔
ان کو سزا ہو یا رہائی یہ اگر آپ کے ساتھ ہونگے تو کراچی کی باشعور عوام آپ کے ساتھ نہیں ہوگی۔ فیصلہ کر لیں کراچی کی لیڈر شپ چاہیے یا ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور مجرموں کی لیڈرشپ۔
قادر خان
0 Comments