مجھے یقین ہے پرویزمشرف بیرون ملک جاتے ہی صحت یاب ہو جائیں گے، میں اس یقین کی وجہ نہیں بتا سکتا ، بس یوں سمجھئے کہ میری چھٹی حس میرے دماغ میں یہ گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ پرویز مشرف کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے اور بہت کچھ کہا جاتا رہے گا۔ ان کے لئے ’’ملبہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے، جو بقول عدلیہ اور اپوزیشن، حکومت عدلیہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر عدلیہ نے اس ملبے سے جان چھڑالی۔
اکثر جگہوں، خاص طور پر آج کل لاہور میں اورنج ٹرین کے راستوں پر گری ہوئی عمارتوں کے باہر ایسے بورڈ رکھے ہوئے ہیں، جن پر لکھا ہے، ’’ملبہ برائے فروخت‘‘۔۔۔ لیکن پرویز مشرف بقول شخصے وہ ملبہ ہیں، جسے کوئی مفت میں بھی لینے کو تیار نہیں ، بلکہ سب اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی جو سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے، پانچ سال اقتدار میں رہی، خود ہی پرویز مشرف کو بیرون ملک گارڈ آف آنر کے ساتھ بھیجا، ان کے خلاف کارروائی کا نام تک نہیں لیا، مگر اب سب سے زیادہ شور مچا رہی ہے کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟
آصف علی زرداری جب تک ملک کے صدررہے، پرویز مشرف کے بارے میں زبان نہ کھولی، تاہم جب عہدۂ صدارت سے ہٹ گئے اور پرویز مشرف ملک میں واپس آگئے تو لاڑکانہ کے جلسے میں بلے کو نہ چھوڑنے کا مشورہ دیتے رہے۔ پیپلزپارٹی نے تو پرویز مشرف کو کبھی اپنی جان سمجھا ہی نہیں تھا، مسلم لیگ (ن) نے غلطی سے اپنی جان ان کے ہاتھ میں دے دی تھی، جو اب سپریم کورٹ کے لطف و کرم سے چھوٹ گئی ہے تو پیپلزپارٹی کیوں واویلا کر رہی ہے؟
میں ملک کا صدر یا وزیر اعظم ہوتا تو بہت پہلے پرویز مشرف کی خدمت میں پھولوں کا گلدستہ لے کر پیش ہوتا اور دست بستہ عرض کرتا کہ حضور آپ ملک سے روانہ ہو جائیں، کیونکہ آپ کی وجہ سے ہمارے ملک کا عدالتی و حکومتی نظام بری طرح ایکسپوز ہو رہا ہے، ہمارے پراسیکیوشن نظام کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں اور ہم پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے ہیں، مگر برا ہو اس سیاست اور جھوٹی انا کا کہ جس نے ہمارے ارباب اختیار کو یہ احسن راستہ اختیار نہیں کرنے دیا۔
وہ پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 کا مجرم بنوانے کے لئے غیبی معجزے کے منتظر رہے، حالانکہ ایسے معجزے وادئ کوہ قاف میں تو رونما ہو سکتے ہیں، پاکستان میں نہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان جب اپوزیشن میں تھے تو نجانے کس ترنگ میں یہ کہہ گئے کہ ایک بار کسی جرنیل کو آئین شکنی پر نشان عبرت بنا دیں پھر کسی جرنیل کو جرأت نہیں ہو گی کہ وہ آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کرے۔ آج کی صورت حال پر وہ یقیناً چپ سادھ لیں گے۔ جس ملک کا قانون کچھوے کی چال چلتا ہو اور آئینی و قانونی موشگافیوں کے ستر ہزار راستے کھلے ہوں، وہاں ایسے کسی ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟
کتنے برس بیت گئے، عدالتوں کو اس کیس سے کھلواڑ کرتے، کتنے جج بدلے اور کتنی عدالتیں، مگر’’ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘۔۔۔ جب سب کو پتہ تھا کہ یہ صرف ایک تماشا ہے تو پھر اس تماشے کو اتنے عرصے تک جاری کیوں رکھا گیا؟ جس انتظامی و عدالتی نظام میں اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ وہ پرویز مشرف کو بطور ملزم عدالت ہی میں پیش کر سکے، اس نظام سے ہم یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ ایک سابق جرنیل کو غداری کے مقدمے میں سزا دے گا۔
وقت نے جس طرح ہمارے عدالتی و حکومتی نظام کے کس بل نکالے ہیں، اسی طرح پرویز مشرف کو بھی بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ وہ ویسے تو کمانڈر تھے لیکن اب واضح طور پر ایک بزدل اور کم ہمت شخص کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے نیلسن منڈیلا کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے مصلحت کوشی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ بڑے بڑے خواب لے کر وطن واپس لوٹے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قوم انہیں ہاتھوں ہاتھ لے گی۔ پورا نظام ان کے گرد گھومے گا، عوام انہیں نجات دہندہ کے طور پر قبول کر لیں گے۔
وہ اپنی وردی والی پوزیشن سے باہر نہیں نکل سکے، حالانکہ ان کے اردگرد کی فضا یکسر تبدیل ہو چکی تھی۔ عوامی حمایت سے محرومی کا دھچکا ابھی انہیں ہچکولے دے رہا تھا کہ ان پر مقدمات کی بھرمار ہو گئی۔ ان کا خیال تھا۔ ان مقدمات کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے، حکومت کو بے بس کر دیں گے ، لیکن ان کی حمایت میں تو ایک چڑی تک نہ نکلی، تب انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ فوج ان کی محافظ ہے، وہ ان کے خلاف کچھ نہیں ہونے دے گی۔
یہ ایک شکست خوردہ انسان کی آخری بڑھک تھی، جس سے انہوں نے فوج جیسے قومی ادارے کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ ایک ایسے موقع پر جب جنرل راحیل شریف فوج کو غیر سیاسی اور پیشہ ورانہ بنا چکے تھے، پرویز مشرف نے اپنے بچاؤ کے لئے ان کے سامنے دستِ سوال دراز کر دیا سب سے بدترین ڈرامہ وہ تھا جب آرٹیکل 6 کی فرد جرم عائد ہونے سے بچنے کے لئے پرویز مشرف آرمڈ فورسز کے امراض دل ہسپتال میں داخل ہو گئے اور اس وقت تک باہر نہ آئے، جب تک ’’خطرہ‘‘ ٹل نہ گیا۔ میرے خیال میں پرویز مشرف اپنی شخصیت کے سارے تاثر کا جس طرح بیڑہ غرق کر چکے تھے، اس کے بعد انہیں ویسے ہی ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دینی چاہئے تھی، کیونکہ یہ راز تو فاش ہو ہی چکا تھا کہ وردی میں بہادر کمانڈو بننے والا وردی کے بغیر کس طرح بھیگی بلی بن جاتا ہے۔
جو تاریخ آج رقم ہوئی ہے، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس نے کوئی سبق نہ دیا ہو۔ تاریخ تو بہت غضب ناک، شرمناک اور عبرتناک سبق دے کر آگے بڑھ گئی ہے، اگرچہ سپریم کورٹ کے آخری حکم میں صرف پرویز مشرف کو آئین شکنی کا مجرم قرار دے کر مقدمہ چلانے کی ہدایت دی گئی تھی، لیکن تاریخ تو کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔ آج کل سہولت کاروں کی اصطلاح بہت استعمال ہوتی ہے۔ کیا پرویز مشرف کے ساتھ سہولت کار موجود نہیں تھے۔ کیا عدلیہ، سیاست اور مقننہ میں موجود سہولت کاروں نے پرویز مشرف کو آئین شکنی میں پوری کی پوری حمایت فراہم نہیں کی؟
ایسے پیچیدہ کیس میں اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ معاملہ بالکل سیدھا سادہ ہے اور صرف پرویز مشرف کو مجرم قرار دے کر نئی تاریخ رقم کی جا سکے گی تو یہ خام خیالی ہی نہیں، بلکہ قوم کے ساتھ دھوکہ دہی کی واردات بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 6 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کیس کا کوئی ایک سرا بھی ہاتھ نہیں آیا، البتہ بڑے ملزم کو بیرون ملک جانے کے لئے اجازت کا پروانہ مل گیا۔
حالات تو ایسے نہیں، تاہم میں پھر بھی رجائیت کا اظہار کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ ہم نے آگے کا سفر کیا ہے۔ اگر ہم اس سارے معاملے کے تاریک پہلو نہ دیکھیں اور روشن پہلوؤں پر نظر رکھیں تو ہمیں کئی مثبت زاویئے بھی نظر آئیں گے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ پرویز مشرف کا اس طرح ایک ہارے ہوئے مایوس شخص کے طور پر بیرون ملک جانا، اس امر کی گواہی ہے کہ پاکستان میں کسی حاضر یا ریٹائرڈ ڈکٹیٹر کے لئے ساز گار فضا موجود نہیں۔ پاکستان آکر پرویز مشرف کا یہ زعم بھی دور ہو گیا کہ شاید یہاں کے عوام ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے میدان میں آ جائیں گے۔
پرویز مشرف نے اپنے دورِ حکمرانی میں کام بھی کئے، معاشی خوشحالی بھی دی، امن و امان بھی بہتر تھا، مگر اس کے باوجود ان کی سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ وہ ایک آمر اور غیر منتخب حکمران تھے۔ ان کی مثال سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ پاکستانی عوام سونے کا نوالہ کھلانے والے آمر کو بھی دل سے حکمران تسلیم کرنے کو تیار نہیں، وہ جمہوریت کو چاہے وہ اچھی ہو یا بُری، اپنی راہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے پرویز مشرف کو اسی لئے مسترد کیا کہ وہ جمہوریت پر شب خون مار کر حکمران بنے تھے۔ ان کا سب سے بڑا احتساب تو خود عوام نے کیا ہے کہ انہیں اپنی حمایت کے لائق نہیں سمجھا۔
رجائیت کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی اب اتنی جرأت رندانہ پیدا کر چکے ہیں کہ آمر کو آمر کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں رہا۔ یہ پہلی کامیابی ہے، ابھی اس آئیڈیل صورتِ حال کو چھونے کا لمحہ نہیں آیا کہ ہم ماضی کے کسی ڈکٹیٹر کو آئین شکنی پر سزا بھی دے سکیں۔ البتہ پرویز مشرف کے ساتھ اب تک جو ہو چکا ہے اور جس طرح کی ہزیمت اور بے چارگی کی علامت بن کر انہوں نے پاکستان میں وقت گزارا ہے، اسے دیکھتے ہوئے تھوڑا بہت اطمینان ضرور کیا جا سکتا ہے، وگرنہ پاکستان کی تاریخ تو یہ رہی ہے کہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے اور آمریت کی چھتری تلے ملک کودو لخت کروانے والے جرنیل اعزازات سے نوازے جاتے رہے ہیں۔
نسیم شاھد
0 Comments