Ticker

6/recent/ticker-posts

پراپرٹی ڈویلپرز کی ہوس

یوں تو یہ کہانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مگر جب تفصیلات واضح طور پر دیکھی جائیں تو یہ کہانی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا دیتی ہے۔ طاقتور بلڈرز اور ڈویلپرز اپنے پسندیدہ علاقوں میں نسلوں سے رہائش پذیر غریب لوگوں کو ان زمینوں سے زبردستی بے دخل کر دیتے ہیں۔ پھر خالی کروائی گئی ان زمینوں پر اعلیٰ درجے کی قلعہ بند ہاؤسنگ اسکیمیں تعمیر کی جاتی ہیں جن کو پانی اور سیوریج جیسی میونسپل سہولیات تک خصوصی رسائی دی جاتی ہے۔ کچھ جگہوں پر تو بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔

ان امتیازی کالونیوں کو عوام کے سامنے 'ترقیاتی منصوبے' کہہ کر متعارف کروایا جاتا ہے، اور ان 'ترقیاتی منصوبوں' کے اندر متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے گھرانوں کو رہائش کے لیے تمام سہولیات سے آراستہ جگہیں فراہم کی جاتی ہیں۔
قوانین کو توڑا مروڑا جاتا ہے تاکہ ڈویلپرز کو سرکاری زمین کوڑیوں کے مول عنایت کی جا سکے، جبکہ ان منصوبوں کا اندرونی انفراسٹرکچر بھی سرکاری اداروں کے اخراجات سے تعمیر کروایا جاتا ہے۔ یہاں سے بے دخل کیے گئے ہر مقامی شخص کو احتجاج کرنے پر پولیس گرفتار کر لیتی ہے، اور دھمکاتی ہے کہ اگر منہ بند نہ رکھا گیا تو سنگین مقدمات میں پھنسا دیا جائے گا۔

یہ کہانی اتنی باقاعدگی سے دہرائی جاتی ہے کہ اب یہ ایک معمول ہی بن گیا ہے۔ اس اخبار کے ایک تحقیقی مضمون نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے بارے میں ایک ایسے ہی معاملے کی تفصیلات سے پردہ چاک کیا ہے، مگر اسی طرح کی ناانصافیوں کی کہانیاں ملک کے تمام بڑے پراپرٹی ڈویلپرز کے بارے میں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ اسلام آباد میں ڈی ایچ اے ویلی فراڈ، اور الائیسیئم ہولڈنگز کیس، جو ایک شہر سے زیادہ پر پھیلا ہوا ہے اور جس میں سابق آرمی چیف کے بھائی کا نام بھی موجود ہے، کی تحقیقات مکمل نہیں کروائی گئیں اور نہ ہی ملزمان کے خلاف الزامات کا تعین کیا گیا۔
امراء اور طاقتور افراد کو ان اسکینڈلز سے بچ نکلنے کا ہنر بخوبی آتا ہے، اور قانون کے ہاتھ شاید ہی کبھی ان کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل ہوئے ہوں۔
کراچی کی بات کی جائے تو زمینوں کو برابر کرکے ان پر مہنگے ترین رہائشی منصوبوں کی تعمیر اس شہر میں ہو رہی ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی اس کی 8 فیصد سے بھی کم زمین پر ان کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہے جہاں بنیادی سہولیات جیسے کہ پانی، سیوریج اور کچرا اٹھانا وغیرہ کا کوئی تصور موجود نہیں۔

دوسری جانب ریاست کی توانائی ان ڈویلپرز کو زمین کے حصول میں مدد دینے میں صرف ہو رہی ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض نے کئی مواقع پر فخریہ انداز میں بتایا ہے کہ وہ اعلیٰ سرکاری افسران کو رشوتیں دے چکے ہیں۔ ان کا یہ جملہ تو بہت ہی مشہور ہے کہ اگر وہ اپنی دی ہوئی سب سے بڑی رشوت کی رقم ظاہر کر دیں تو عوام کو 'ہارٹ اٹیک' ہوجائے۔

ان منصوبوں کو نکیل ڈالی جانی چاہیے۔ ریاست کی توجہ اپنے اصل مقصد کی جانب ہونی چاہیے، یعنی غریبوں کو چھت فراہم کرنا، نہ کہ ان کی چھت چھیننا۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے طاقتور افراد کا جو گٹھ جوڑ یہ پراپرٹی ڈویلپمنٹ منصوبے پیدا کرتے ہیں، وہ ہماری سیاست کا ایک زہریلا عنصر ہے۔ اس سے تباہ کن طاقتوں کو اپنے مفادات حاصل کرنے اور حکمرانوں اور عوام کی ترجیحات تبدیل کرنے کی کھلی چھوٹ ملتی ہے۔

ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں کو یہ بات سمجھائی جانی چاہیے کہ رشوت دینا بھی اتنا ہی غلط کام ہے جتنا کہ رشوت لینا۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 20 اپریل 2016 کو شائع ہوا۔

Post a Comment

0 Comments