وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا سکینڈل سامنے آنے
کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی پیش کش کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف الزامات لگانے والے وہاں ثبوت لے کر جائیں، انہوں نے ایک ایسے باونسر کو کامیابی سے کھیلنے کی کوشش کی ہے جسے سیاست کے میدان میں موجود کھلاڑیوں کی طرف سے پھینکا ہی نہیں گیا تھا۔ ہماری سیاست پوائنٹ سکورنگ کے گرد گھومتی ہے اور مخالفو ں کے پروپیگنڈے کے جواب میں حکمران خاندان نے اپنے حامیوں کو دلیل فراہم کر دی ہے کہ وہ اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر رہے ہیں حالانکہ اس معاشرے میں ایک ریٹائرڈ جج سے بمشکل ہی کسی غیر جانبدارانہ منصفی کی توقع کی جا سکتی ہے جہاں ہر ریٹائرڈ شخص حکومت سے عہدے اور مراعات کے ساتھ اکاموڈیٹ ہونے کا خواہاں نظر آتا ہو۔
نواز شریف اس سے بہتر پیش کش کرسکتے تھے مگر انہوں نے بھی گونگلووں سے اسی طرح مٹی جھاڑی جس طرح اپوزیشن ہاتھ آئے اس گونگلو کوجھاڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپوزیشن کے ایک رہنما نے پنجاب اسمبلی میں ایک تحریک جمع کروائی ہے جس میں وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں آئس لینڈ کے وزیراعظم کی مثال دی گئی ہے ۔ اپوزیشن رہنماوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا آپ چھوٹی سی ریاست آئس لینڈ کے عوام کی نصف یا چوتھائی تعداد بھی اپنے ساتھ لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس کا حقیقت پسندانہ جواب نفی میں ہے۔ حکمران ،عوامی دباو پر استعفے دیتے ہیں لیکن اگر عوامی دباو گنتی کے چند ہزار لوگوں پر مشتمل ہو جو لاہور سے اسلام آباد ایک تاریخی دھرنا دینے جا رہے ہوں تو پھر اسے مذاق ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری اپوزیشن بھی صرف اس فیصلے کو مانتی ہے جو اس کے حق میں آیا ہو۔
اگر آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ کسی بھی کمزور یا طاقتور کمیشن کے فیصلے کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کو بے گناہ تصور کر لیا جائے گا تو آپ غلطی پر ہیں ،ایسا تصورکرتے ہوئے آپ ماضی قریب میں جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو بھول رہے ہیں جس نے عام انتخابات کو درست قرار دیا تھا مگر اس کے باوجود گذشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات دہرانے میں کسی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ اپوزیشن کے پیش نظر بھی آف شور کمپنیوں کے سکینڈل کو صرف اور صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے جسے وہ بہرصورت کرتی رہے گی۔
نواز شریف نے چالاکی کے ساتھ گیند اپوزیشن کے کورٹ میں پھینکنے کی کوشش کی جب انہوں نے یہ کہا کہ ان کے خاندان کے خلاف ثبوت الزام لگانے والے پیش کریں۔ کیا اپوزیشن اس سیدھے سادھے مقدمے کو کامیابی کے ساتھ لڑ پائے گی، مجھے تو اس کی امید نظر نہیں آتی ، ہماری اپوزیشن صرف باتیں کرتی ہے، ثبوت وغیرہ پیش کرنا اس کی ہمت اور صلاحیت سے باہر کا کام ہے۔ اپوزیشن نے بار بار الزامات عائد کئے کہ لاہور کی میٹرو پرتیس نہیں، ستر سے نوے ارب روپوں تک خرچ کئے گئے ہیں، پنجاب کی حکومت نے یہ معاملہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کو بھیج دیا، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے حقائق تک پہنچنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی او رعمران خان کے بیانات پر انہیں خطوط لکھے اور ثبوت مانگے، ان دونوں رہنماوں نے خطوط کا جواب دینے تک کی زحمت نہیں کی۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منی لانڈرنگ جیسے مشکل الزامات پر یہ رہنما ثبوت کہاں سے لائیں گے لہذا انہوں نے اپنے تئیں عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے اعلان کو مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے وہی روایتی رویہ اختیار کیا، جج کے نام کا اعلان بھی نہیں ہوا اور اس پر عدم اعتماد پہلے ہی کر دیا گیا۔ایک خیال یہ ہے کہ ایک زندہ اور فعال معاشرے میں یہ تحقیقاتی کام ایف آئی اے اور نیب جیسے اداروں کو از خود شروع کر دینا چاہئے تھا مگر دوسری طرف یہ امر بھی حقیقت ہے کہ نیب جیسا بااختیار اور باوسائل ادارہ بیس برسوں سے جاتی امرا کو جانے والی چند کلومیٹر کی ایک سڑک بننے کی انکوائری کر رہا ہے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ اس ادارے کی بڑی کامیابیوں میں اب تک میرے سامنے پلی بارگننگ جیسے غیر اخلاقی فیصلے ہی آتے ہیں، یہ ادارہ کسی حکمران کے خلاف کیا تحقیقات کرے گا۔
معاملہ صرف سیاست کا ہے اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، کیا یہ دلچسپ سوال نہیں کہ آف شور کمپنیوں کے سکینڈل میں صرف شریف خاندان نہیں بلکہ دو سو کے قریب کچھ اور افراد بھی ہیں۔ اگر میڈیا اور سیاستدان واقعی کرپشن کو ختم کرنا چاہتے اور کرپٹ لوگوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں کیفرکردار تک پہنچانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں دیگر صنعتکاروں، ارکان اسمبلی اور عدلیہ کے سابق اور موجودہ لوگوں کے نام بھی لینے چاہئیں مگر وہ نام کوئی نہیں لے رہا کیونکہ ان سب کا ٹارگٹ کرپشن نہیں، سیاست ہے۔ یہاں نواز شریف کو ایک پلس پوائنٹ ملتا ہے کہ کرپشن کے الزامات تو تمام پارٹیوں پر لگتے تھے، پیپلزپارٹی نے تو مقدمات کا سامنا بھی کیا مگر از خود کسی نے اپنے آپ کو اس طرح کے کمزور ترین احتساب کے لئے بھی پیش نہیں کیا۔
کیا پیپلزپارٹی کی قیاد ت پر سرے محل سمیت دیگر الزامات نہیں لگے، کیا مسلم لیگ ق کے رہنماوں پربینک آف پنجاب سمیت بہت سارے اداروں میں کرپشن کرنے کے الزامات موجود نہیں ہیں، کیا تحریک انصاف کے قائدپر ان کے بنی گالہ کی عظیم الشان رہائش گاہ کی خریداری ہی نہیں بلکہ ان کی اپنی پارٹی کے بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے رہنماوں کی طرف سے پارٹی فنڈز ہڑپ کرجانے کے الزامات نہیں لگے، کیا جماعت اسلامی کی قیادت سے نہیں پوچھا جا رہا کہ برس ہا برس سے پیسے لے کر وہ جو قرطبہ سٹی بنانے جا رہے تھے وہ پیسے اور وہ قرطبہ سٹی کہاں ہے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ ہماری پوری سیاسی قیادت کو ان تمام سوالوں کے جواب دینے چاہئیں مگر ضمنی سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عوام اپنے رہنماوں سے واقعی ان سوالوں کے جواب چاہتے ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔
ہم دھڑے باز لوگ ہیں۔ نواز شریف کے حامی اسی طرح ان الزامات کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں جس طرح باقی جماعتوں کے رہنماا ور کارکن اپنی اپنی قیادت پر الزامات کونہایت آسانی سے مسترد کر دیتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ بہت سارے دیگر الزامات کی طرح آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا الزام بھی موجود رہے گا ۔ ابھی کچھ عرصے کے بعد یہ معاملہ اتنا گرم نہیں رہے گا اور جب انتخابی مہم شروع ہو گی تو ماڈل ٹاون میں ہونے والے قتلوں سمیت یہ الزام بھی انتخابی مہم کا حصہ بن جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت تک حکومتی جماعت دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اور بے روزگاری جیسے عوامی مسائل حل کرنے میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتی ہے، اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سی پیک منصوبے ، اورنج لائن ٹرین اورموٹرویز کی تعمیر کے بڑے بڑے کریڈٹ لیتے ہوئے ان الزامات کے نقصان پر قابو پا لیا جائے گا۔ یوں بھی میاں نواز شریف کی طرف سے ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیشن کے قیام کی پیش کش ان کے ڈانواں ڈول ووٹر کو قائل کرنے کے لئے کافی ہو گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ آف شور کمپنیاں قائم کرنے کے الزامات نے حکمران خاندان کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے لیکن اس نقصان کو اپوزیشن اپنے فائدے میں تبدیل کرلے مجھے فی الحال یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ وہ گونگلو ہیں جن سے حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی طرف سے مٹی جھاڑتی رہیں گی مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا، کچھ لوگ یہ گونگلو لے کر ہائی کورٹ بھی جا پہنچے ہیں۔ کچھ عرصے بعد کچھ نئے گونگلو زمین پر گرے مل جائیں گے اور پھرسب انہیں جھاڑنا شروع کر دیں گے، یہ بالکل ویسے گونگلو ہیں جیسے اس سے پہلے اتفاق کے سریے اورقرضوں کی معافی کے گونگلو جھاڑے جاتے رہے ہیں۔ نواز شریف اس معاملے میں کمزور وکٹ پر ہونے کے باوجود اس باونسرکو کھیل گئے ہیں، اپوزیشن اس پر آوٹ آوٹ کا شور مچا رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے کھلاڑیوں کی میدان میں اپنی کارکردگی کیا ہے؟
نجم ولی خان
کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی پیش کش کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف الزامات لگانے والے وہاں ثبوت لے کر جائیں، انہوں نے ایک ایسے باونسر کو کامیابی سے کھیلنے کی کوشش کی ہے جسے سیاست کے میدان میں موجود کھلاڑیوں کی طرف سے پھینکا ہی نہیں گیا تھا۔ ہماری سیاست پوائنٹ سکورنگ کے گرد گھومتی ہے اور مخالفو ں کے پروپیگنڈے کے جواب میں حکمران خاندان نے اپنے حامیوں کو دلیل فراہم کر دی ہے کہ وہ اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر رہے ہیں حالانکہ اس معاشرے میں ایک ریٹائرڈ جج سے بمشکل ہی کسی غیر جانبدارانہ منصفی کی توقع کی جا سکتی ہے جہاں ہر ریٹائرڈ شخص حکومت سے عہدے اور مراعات کے ساتھ اکاموڈیٹ ہونے کا خواہاں نظر آتا ہو۔
0 Comments