Ticker

6/recent/ticker-posts

تعلیمی پسماندگی کے اسباب اورحل

پاکستان میں تقریباً 47 فیصد گریجویٹ روزگار کی اہلیت نہیں رکھتے۔ 35 فیصد گریجویٹ صرف کلرک کی نوکری کے قابل ہیں۔ 15 فیصد گریجویٹ ہی بہتر روزگار کے لائق ہیں۔ ورلڈ بینک کے تجزیے کے مطابق صرف دس سے پندرہ فیصد گریجویٹ ہی بہتر روزگار کی اہلیت رکھتے ہیں۔ پانچویں کا طالب علم دوسری کلاس کا حساب نہیں لگاسکتا. ہائر ایجوکیشن میں آتے آتے یہ نوجوان بے کار ہوجاتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن میں انرولمنٹ پاکستان میں18 فیصد ہے۔ یعنی ایک تو دنیا کے دیگر بڑے ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے اور اس میں بھی 47 فیصد بے کار ہیں۔ اپنی زندگی کا پندرہ سال تعلیم میں خرچ کرنے کے بعد بھی 55 فیصد گریجویٹ صرف 2ہزار کماپاتے ہیں۔

ابھی حالیہ دنوں میں دنیا کی دوہزار اعلی یونیورسٹیز میں ایک بھی پاکستانی یونیورسٹی کا نام نہ ہونے پر صدر جمہوریہ افسوس ظاہر کرچکے ہیں۔ ایک طرف بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور دوسری طرف بے روزگاری بھی بڑھتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے سماج کا توازن بگڑتا جارہا ہے۔ غریبی ومفلسی سماج کے لیے ناسور بنتے جارہے ہیں۔ کیونکہ اعلی تعلیم کی بنیاد پرائمری ایجوکیشن پر ہی ہوتی ہے۔ حالانکہ ہمارے یہاں صرف اپنا دستخط کرلینا ہی تعلیم میں شمار کیا جاتا ہے۔ صوبے اس پسماندگی سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں، آئیے اس کی وجوہات پر غور کرتے ہیں، اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 اسباب 

(۱) فنڈ کی کمی: فنڈ کی کمی ہونا ایک بہت بڑی حقیقت ہے، اور جو فنڈ الاٹ کیا جاتا ہے، اس کا صحیح استعمال نہ ہوپانا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ فنڈ کی کمی ہونے کے بعد بہت سارے دیہی علاقوں کے اسکولوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ بجٹ کا تقریبا 3 فیصد حصہ ہائر ایجوکیشن کے لیے مخصوص ہے۔

(۲) اساتذہ کی کمی:ٹیچرز کا تقررایک سیاسی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ فنڈ کی کمی ہونے کے سبب لاکھوں ٹیچرز کی جگہ خالی ہیں۔ تقریبا پچاس اسٹوڈنٹس پر ایک ٹیچر لگتا ہے، جس کی وجہ سے تعلیم متاثر ہورہی ہے۔

(۳) ایجوکیشن پالیسیز میں کمزوریاں: موجودہ تعلیمی پالیسی حقیقت میں برطانوی پالیسی ہے ، یہ پالیسی امیروں اور بااثر لوگوں کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے، حالانکہ صوبے معاشی اعتبار سے بہت زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں، یہاں پسماندہ اور اقلیتی طبقات کی تعداد زیادہ ہے۔

(۴) ایک رپورٹ کے مطابق ایک سے پانچ کلاس تک کا ڈراپ آؤٹ تناسب 75 فیصد اور ایک سے آٹھ کلاس تک58 فیصد ہے، یہ ڈراپ آؤٹ غریبی اور مہنگی فیس کی وجہ سے ہے، کیونکہ اس عمر میں گھر کی غربت کے سبب پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ تعلیم جاری نہیں رکھ پاتا۔

(۵) شہریوں کی عدم شمولیت: کیونکہ اکثریت غریبی اور جہالت کا سامنا کررہی ہے، اس کے سب وہ تعلیم کے میدان میں شامل نہیں ہوپاتے۔

(۶) خودغرض اور غیر مؤثر نگرانی: جو باڈی اس کی نگرانی کرتی ہے،وہ حقیقت میں خود غرض واقع ہوئی ہے، اس کے اندر سماج کی خدمت اور اپنے کام کے تئیں وہ خلوص، جذبہ اور لگن نہیں پائی جاتی جس کے نتیجے میں ایک بہترین تعلیمی ماحول پروان چڑھ سکے۔

(۷) سیاسی شخصیات اور بیوروکریٹس کی مداخلت: ان لوگوں کی مداخلت کے سبب پورا تعلیمی نظام سیاست بازی کا شکار ہوجاتا ہے،یہ سیاست اساتذہ اور طلبہ کے اندر بھی سرایت کرجاتی ہے، جس کے نتیجے میں اسکول ایک سیاسی اکھاڑہ بن کر رہ جاتا ہے۔

(۸) دیہی لوگوں کے ان ڈفرنٹ رویے: گاندھی جی کے مطابق بھارت گاؤں میں بستا ہے82 فیصدآبادی گاؤں میں بستی ہے، اس لیے گاؤں کے لوگوں کو جب تک تعلیم سے نہیں جوڑا جائے گا تعلیمی نظام کی اصلاح نہیں ہوسکے گی۔

مسائل کا حل :
(۱)ٹیچرز کو پروفیشنل انداز میں تربیت دی جائے اور ان کے اندراحساس ذمہ داری پیدا کیا جائے۔

(۲) پرائمری ایجوکیشن سسٹم پر نظرثانی کی جائے، اس میں غریبوں کا لحاظ رکھا جائے اور کوالٹی سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔

(۳) نصاب کو از سر نو ترتیب دیا جائے، جو سماج کے ہر طبقے کی رعایت کرتا ہو۔

(۴) ایک مانیٹرنگ باڈی تشکیل دی جائے،جو اس پورے تعلیمی نظام کا ہمہ وقت جائزہ لیتی رہے۔

(۵) بالخصوص دیہی علاقوں میں تعلیمی بیداری مہمات چلائی جائیں۔

(۶) تعلیم کو روزگار سے جوڑا جائے۔

(۷) پورے ایجوکیشن سسٹم کو ماہرین تعلیم کے حوالے کیا جائے ، نصاب، پالیسی، اور پورا سسٹم ماہرین تعلیم کے ذریعہ ترتیب دیا جائے، اس پورے سسٹم سے سیاسی اثرورسوخ ختم کیا جائے۔

(۸) یونیورسٹی اور کالج کیسٹوڈنٹس کو تعلیم کے سلسلہ میں حساس بنایا جائے۔ 

(۹) صوبوں کے لیے الگ سے تعلیمی پالیسی بنائی جائے۔ (۱۰) اقلیتوں کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کا صحیح نفاذ ہو، اور اس کا پروسیس آسان بنایا جائے۔

 فائزہ نذیر احمد

Post a Comment

0 Comments