30 دسمبر سنہ 2014 کو پنجاب کے اس وقت کے وزیرِ داخلہ کرنل شجاع خانزادہ نے صوبائی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ صوبے میں اسلحے کے 18 لاکھ لائسنسوں میں سے 50 فیصد کا ریکارڈ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ آٹھ برس کے دوران وفاقی و صوبائی حکومتوں نے پانچ لاکھ سے زائد اسلحہ لائسنس جاری کیے۔ ان میں سے 90 فیصد ضروری چھان بین اور سیکورٹی چیک کے بغیر جاری ہوئے۔
سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے مارچ سنہ 2013 میں اعتراف کیا کہ انھوں نے ارکانِ پارلیمان و صوبائی اسمبلی کی سفارش پر تقریباً 70 ہزار اسلحہ لائسنس جاری کیے۔ کالعدم لشکرِ جھنگوی کے ہلاک ہونے والے رہنما ملک اسحاق کے پاس وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ ممنوع بور کے 11 لائسنس موجود تھے۔ چوہدری نثار علی خان نے وزیرِ داخلہ بننے کے چند ماہ بعد بتایا کہ لگ بھگ ساڑھے چار ہزار مشکوک اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیےگئے ہیں۔ان میں سے بہت سے غیر ملکی باشندوں (زیادہ تر افغان) کو جاری کیے گئے۔
چوہدری صاحب نے مئی 2015 میں تمام اسلحہ لائسنس یافتگان کو انتباہ کیا کہ 31 دسمبر تک اپنے لائسنسوں کی تجدید کروالیں ورنہ انھیں منسوخ کر دیا جائے گا۔
چوہدری نثار علی خان نے اغوا، ٹارگٹ کلنگز، تاوان اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کروڑوں موبائل فون سمز کی بائیو میٹرک تصدیق کا نظام بھی نافذ کیا۔ بے شمار مشکوک سمیں منسوخ ہوئیں لیکن آج بھی ہر حساس مذہبی و سیاسی موقع پر درجنوں شہروں میں دہشت گردی کے خدشات کے تحت موبائل فون سروس معطل کی جاتی ہے۔ اغوا، تاوان اور قتل کی دھمکیاں آج بھی سرحد پار یا قبائلی و غیر قبائلی علاقوں سے نامعلوم سموں کے ذریعے موصول ہوتی رہتی ہیں۔
چوہدری نثار علی خان نے وزیرِ داخلہ بنتے ہی سنہ 2002 سے 2013 کے درمیان جاری ہونے والے تقریباً ڈھائی ہزار ڈپلومیٹک بلیو پاسپورٹ بھی منسوخ کر دیے ۔ان میں سے اکثر پاسپورٹ غیر مستحق افراد نے تین سے چار لاکھ روپے میں خریدے تھے۔ جس 11 سالہ دور میں یہ پاسپورٹ تھوک کے حساب سے جاری ہوئے اس دوران وزارتِ داخلہ کا قلم دان آفتاب شیرپاؤ ، فیصل صالح حیات لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) حامد نواز خان اور رحمان ملک کے پاس رہا۔
چوہدری نثار علی خان نے اغوا، ٹارگٹ کلنگز، تاوان اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کروڑوں موبائل فون سمز کی بائیو میٹرک تصدیق کا نظام بھی نافذ کیا۔ بے شمار مشکوک سمیں منسوخ ہوئیں لیکن آج بھی ہر حساس مذہبی و سیاسی موقع پر درجنوں شہروں میں دہشت گردی کے خدشات کے تحت موبائل فون سروس معطل کی جاتی ہے۔ اغوا، تاوان اور قتل کی دھمکیاں آج بھی سرحد پار یا قبائلی و غیر قبائلی علاقوں سے نامعلوم سموں کے ذریعے موصول ہوتی رہتی ہیں۔
مگر آوے کا آوا بگڑنے کے باوجود ہمارے چوہدری نثار صاحب کو اس بات کا خاصا اطمینان تھا کہ نادرا کا جاری کردہ فول پروف کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ غلط ہاتھوں میں نہیں پہنچ سکتا، پہنچے گا تو فوراً پکڑا جائے گا جیسے کہ پچھلے تین برس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد شناختی کارڈ منسوخ کیے گئے۔
لیکن برا ہو ولی محمد کا کہ جس نے ڈرون حملے میں مرتے مرتے اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ گھما کے گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ تب کہیں جا کے چوہدری صاحب کو سنجیدگی سے اندازہ ہوا کہ نادرا میں کرپشن کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔
چنانچہ اسی کرپٹ نادرا کے اہلکاروں کو چوہدری صاحب نے یہ نادر شاہی حکم دیا کہ اگلے چھ ماہ کے دوران ان کروڑوں شناختی کارڈوں کی دوبارہ تصدیق کی جائے جنھیں پہلے بھی یہی نادرا مصدق قرار دے چکی ہے۔ ولی محمد اور ان جیسے سینکڑوں ’اثاثوں‘ کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دلانے والوں اور ان کی آمدورفت کو تحفظ دینے والوں سے باز پرس تو ممکن نہیں، نہ ہی سیاسی مصلحتیں یہ اجازت دیتی ہیں کہ سابق وزرائے داخلہ سے یہی پوچھ لیا جائے کہ ان کے دور میں لاکھوں اسلحہ لائسنس کیسے جاری ہوگئے اور بلیو پاسپورٹ کیوں نیلامی میں رکھ دیےگئے۔؟
اس کے مقابلے میں 12 کروڑ پاکستانیوں کے شناختی کارڈ دوبارہ چیک کرنا کہیں آسان ہے۔ یہ عمل اور آسان ہو سکتا ہے اگر ان 12 کروڑ کو پاکستان سے نکال دیا جائے اور پھر کہا جائے کہ قطار بنا کر اپنا اپنا شناختی کارڈ دکھاتے جاؤ اور اندر آتے جاؤ۔
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
0 Comments