Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں پانی کا بحران..آخری حدوں تک

آصف شاہ کا تعلق دادو کے ایک سید خاندان سے ہے۔ انھوں نے کراچی اور یورپ
سے تعلیم حاصل کی اور سول سروسز آف پاکستان میں ملازمت کی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ایماندار افسر کی حیثیت سے جانے گئے۔ اس سال کے شروع میں ان کا حیدرآباد سے تبادلہ کر کے کراچی کا کمشنر مقرر کیا گیا۔ اردو بولنے والوں کی نمایندہ تنظیم ایم کیو ایم کو آصف شاہ کی کراچی کے کمشنر کی حیثیت سے تقرری پر اعتراض تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو اندیشہ تھا کہ آصف شاہ کا تعلق اندرونِ سندھ سے ہے، اس بناء پر وہ اپنے پیش رو کمشنر کی طرح کراچی شہر کے مسائل پر توجہ نہیں دیں گے مگر آصف شاہ کے تبادلے پر ایم کیو ایم بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل ہے۔ سید ممتاز شاہ کا شمار بھی ایماندار افسروں میں ہوتا ہے۔

وہ سندھ کے انٹی کرپشن ڈائریکٹریٹ کے نگراں تھے۔ انھوں نے اپنے محکمے کو میرٹ کے مطابق چلانے کی کوشش کی اور ان کا بھی تبادلہ ہوا۔ جب 2008ء میں قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے تو ان کی صاحبزادی ناہید شاہ کو سیکریٹری تعلیم مقرر کیا گیا۔ پیر مظہر الحق نے وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالا۔ ناہید شاہ نے قواعد و ضوابط کے تحت وزارت تعلیم کو چلانے کی کوشش کی۔ ہمیشہ احتجاج کرنے والی اساتذہ کی تنظیمیں ان کی حمایت کرنے لگیں۔ ناہید شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ایم کیو ایم کے کراچی میں پانی کی قلت کے خلاف وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھرنے پر سخت بیان دیا۔ کہنے لگے کہ اگر میرے گھر کے سامنے دھرنا دیا جا سکتا ہے تو کل کراچی کے میئر کے گھر پر بھی دھرنا  ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ نئے صوبے کی باتیں کرنے والے ملک دشمن ہیں۔ سندھ کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کا اپنا آزادانہ تشخص ہے، یہ ناقابلِ تقسیم وحدت ہے، اس کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی میں پانی کا بحران آخری حدوں تک پہنچ گیا ہے۔ کراچی کی بعض بستیوں میں گزشتہ 3 ماہ سے پانی نہیں ہے۔ سمندر سے متصل قدیم بستی کیماڑی کے ایک مکین کا کہنا ہے کہ 15 دن بعد نلکوں سے پانی ملا۔ پانی کا بحران خاصا قدیم ہے۔

واٹر بورڈ کے حکام کہتے ہیں کہ بلوچستان کے ضلع حب میں تعمیر ہونے والا حب ڈیم خشک ہو چکا ہے، کراچی ویسٹ اور ساؤتھ کے بعض علاقوں جن میں اورنگی جیسا چھوٹا سا شہر شامل ہے کو حب ڈیم سے پانی کی فراہمی بند ہے۔ ملیر کے قریب ڈملوٹی کے کنویں خشک ہو چکے ہیں۔ دریائے سندھ سے نکلنے والی نہر سے کم پانی ملتا ہے۔ کراچی میں پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے K4 منصوبہ شروع ہونا تھا۔ پہلے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت اس منصوبے کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم نہیں کر سکی،  2013ء میں برسرِ اقتدار آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس منصوبے میں دلچسپی نہیں دکھائی، یوں یہ منصوبہ وقت پر شروع نہیں ہو سکا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت پانی کی قلت کی ایک وجہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ قرار دیتی ہے۔
وزیر بلدیات کا کہنا ہے کہ دھابے جی سے پانی کھینچنے والے پمپ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی بناء پر خاموش ہو جاتے ہیں،  تو کراچی کو پانی کی فراہمی میں خلل پڑتا ہے۔ واٹربورڈ نے شہر بھر میں پمپنگ اسٹیشن قائم کیے ہوئے ہیں۔ یہ پمپنگ اسٹیشن شہر میں بڑی پائپ لائنوں سے آنے والے پانی کو کھینچ کر گھروں تک پہنچاتے ہیں مگر یہ پمپ بھی لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہوتے ہیں۔ جو پانی بڑی پائپ لائنوں کے ذریعے شہر بھر میں پہنچتا ہے وہ ان پمپنگ اسٹیشنوں میں بجلی کی بندش سے گھروں کو   فراہمی نہیں کر پاتا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کا معاملہ گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں سے شروع ہوا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے لیے ہیوی جنریٹر خریدے اور ان جنریٹروں کو توانائی دینے کے لیے پیٹرول، ڈیزل اور گیس کے لیے ہر سال بجٹ میں فنڈز مختص کر دیے گئے، اگر لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاؤس سیکریٹریٹ، کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں سمیت کسی سرکاری دفتر جایا جائے تو وہاں جنریٹروں سے پیدا ہونے والی بجلی سے ایئر کنڈیشن تک چلائے جاتے ہیں مگر کراچی شہر کو پانی فراہم کرنے والے پمپوں کو متحرک رکھنے کے لیے کبھی جنریٹروں کی خریداری کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔

بدقسمتی سے جب ایم کیو ایم سندھ حکومت میں راج کر رہی تھی اور اب 8 برسوں سے غریبوں کی زندگی تبدیل کرنے کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار ہے تو شہری بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ پانی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ کراچی میں پانی کی قلت کی اور بھی وجوہات ہیں۔ پانی فراہم کرنے والے ٹینکروں کی بڑی مافیاز موجود ہیں۔ یہ مافیاز شہر کے مختلف علاقوں میں ہائیڈرنٹ چلاتی ہیں۔ ان ہائیڈرنٹ سے ٹینکروں کے ذریعے پانی شہر میں مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ یہ ہائیڈرنٹ بااثر سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور بلڈر مافیاز حتیٰ کہ شہر میں امن و امان کو برقرار رکھنے والی  ایجنسیوں کے بھی ہیں۔ واٹر بورڈ حکام ان ہائیڈرنٹ کو بند کرنے یا ریگلولیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو شہر میں پانی کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔

شہری امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی میں پوش آبادیاں بڑھ رہی ہیں‘ یہ آبادیاں نہیں بلکہ نئے شہر کہے جا سکتے ہیں۔ ان آبادیوں کے لیے پانی کے نئے ذخائر کو تلاش کرنے کے بجائے کراچی کی غریب بستیوں کو دیا جانے والا پانی لیا جا رہا ہے۔  واٹر بورڈ بھی انتظامی بحران کا شکار ہے۔ واٹر بورڈ میں غیر حاضر ملازمین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ’’والو مین‘‘ ایک ایسی مافیا ہے جو پانی کی تقسیم میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ کنڈی مین مافیا سیوریج نظام پر قابض ہے، کراچی واٹر بورڈ میں ریسرچ کا کوئی یونٹ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر کے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اب بھی فلش کی صفائی، گاڑیوں کو دھونے اور پودوں کے لیے پینے کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر واٹر بورڈ میں کرپشن کی بناء پر لائنوں کی مرمت اور خراب لائنوں کی تبدیلی پر خود کار طریقہ سے عمل نہیں ہوتا۔ لائنوں سے پانی رسنے سے خاصا پانی ضایع ہو جاتا ہے اور ہر مہینے دو مہینے بڑی پائپ لائنوں میں شگاف پڑنے سے پانی کی سپلائی معطل ہو جاتی ہے۔

بعض ماہرین اس بات پر اتفاق نہیں کرتے کہ پانی کے بحران کی وجہ پانی کی قلت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ پانی کے نظام میں غیر منصفانہ تقسیم کا ہے۔
اگر شفافیت کے اصول پر سختی سے عمل کیا جائے تو ہر گھر میں پانی مناسب مقدار میں فراہم ہو سکتا ہے۔ یہ معاملہ اچھی طرزِ حکومت سے منسلک ہوتا ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں میں منتخب بلدیاتی ادارے پانی کی تقسیم کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی حکومت منتخب بلدیاتی نظام پر یقین نہیں رکھتی۔ شہر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے 6 ماہ ہو گئے مگر منتخب نمایندوں کو اقتدار نہیں مل سکا۔ قائم علی شاہ اگر منتخب نمایندوں کو اقتدار دے دیتے تو پھر یقیناً دھرنا میئر کے دفتر کے سامنے ہوتا۔ قائم علی شاہ کی اس بات میں وزن ہے کہ سندھ ایک وحدت ہے۔

اس کو توڑنے یا نیا صوبہ بنانے سے ایسا بحران پیدا ہو گا جس کے اثرات اگلی صدی تک محسوس ہونگے، مگر ایماندار افسروں کو ہٹانے، بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہ دینے، کراچی کی ترقی کے لیے بجٹ میں فنڈ مختص نہ کرنے اور کراچی کو کوڑے دان میں تبدیل کرنے سے منفی قوتوں کو تقویت ملے گی، اگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے اب بھی اس حقیقت کو محسوس نہیں کیا تو پھر پانی پر خوفناک فسادات ہونگے اور طالع آزما قوتوں کو بالادستی حاصل ہو گی۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

Post a Comment

0 Comments