کراچی ڈویژن میں واقع ضلع ملیر دو حصوں پر مشتمل ہے، شہری اور دیہی، جن
میں شہری حدود میں 13 یونین کمیٹیز اور دیہی میں 32 یونین کونسلیں ہیں۔ ضلع ملیر کی سرکاری آبادی کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، البتہ ضلع ملیر میں 5 لاکھ 47 ہزار 207 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ ضلع ملیر دیہی اور شہری زندگی کا خوبصورت امتزاج رکھتا ہے، اس کے مشرقی علاقوں میں باغات واقع ہیں جہاں سبزیوں، ترکاریوں کے علاوہ پھل بھی اگا ئے جاتے ہیں اور کھیتی باڑی یہاں کی بیشتر آبادی کا ذریعہ معاش رہا ہے ۔ تاہم اب خدمات اور کاروباری شعبوں کی جانب دھیان دیا جارہا ہے۔ ملیر کی یہ زرخیزی ملیر ندی کی مرہون منت ہے جو عموماً بارش کے ایام میں ہی بہتی ہے۔ گرمی میں پانی کی قلت کے باعث یہاں کے مکینوں نے اپنے گھروں میں بورنگ کرالی ہے تاکہ پانی کی کمی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ میٹھے پانی کی قلت کے باعث مکین پینے کا پانی خریدتے ہیں جب کہ غریب طبقہ کھارا پانی ہی پینے پر مجبور ہے، جس سے وبائی امراض جنم لیتے ہیں۔
ضلع ملیر کے دیہی علاقوں میں 32 یونین کونسلوں میں موڈن، گڈاپ، کاٹھور، چھوہر، اللہ پھائی، شاہ مرید، کوغکر، خاکھرو، درسانوچانو، ملھ، مراد میمن، جام مراد علی، تھانو، صالح محمد، ولی محمد، کوٹیرو، گھگھر، چاندپرو، پپری، اسٹیل ٹاؤن، جوروجی، گلشن حدید فیز ون، گلشن حدید فیز ٹو، چوکنڈی، رزاق آباد، ابراہیم حیدری، حیدر شاہ، مورے رو، علی اکبر شاہ، چشمہ، ریڑھی اور جمعہ حمیاتی شامل ہیں۔ یوں تو اس وقت پورا کراچی مسائلستان بنا ہوا ہے جہاں عوام کے بنیادی مسائل نے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنایا ہوا ہے۔ لیکن گڈاپ مسائل کا وہ علاقہ ہے جہاں انسانیت سسک رہی ہے۔ گڈاپ کے رہائشی نے گڈاپ کے بنیادی مسائل پر مشتمل مجھے طویل ای میل بھیجی ہے، اس امید پر کہ میں ان مسائل کو اپنے مضمون میں جگہ دوں تاکہ ارباب اختیار گڈاپ کے انسانی مسائل سے آگاہ ہوسکیں اور ان کے حل کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائیں۔ وہ لکھتے ہیں:
کراچی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر نئی سبزی منڈی اور ٹول پلازہ سے آگے ایک ایسا جہاں آباد ہے جو کراچی میں ہوتے ہوئے بھی کراچی سے کوسوں دور ہے، جسے گڈاپ کہا جاتا ہے۔ گڈاپ کا علاقہ قدرتی معدنیات سے مالامال ہے، جہاں ماربل، سنگ مرمر، سیسہ، ریتی بجری موجود ہیں۔ گڈاپ کے نمایاں مقامات میں نیشنل کیتھر پارک، مہرجبل، موئیندان، گنڈھ جھنگ، وارگھنڈ، کارسینٹر، تھڈوڈیم، لٹھ ڈیم، مورو، چوکنڈی اور دیگر شامل ہیں۔ کہنے کو یہاں انسانوں کی بڑی تعداد آباد ہے، جنھیں انتخابات کے زمانے میں یاد کیا جاتا ہے، باقی دنوں میں انھیں فراموش کردیا جاتا ہے۔
پتھریلے دشوار گزار راستے آپ کو بتادیتے ہیں کہ یہاں کی زندگی کتنی سخت ہے، تباہی و بربادی کا دوسرا نام گڈاپ ہے، جہاں کے لوگ اکیسویں صدی میں بھی 17 ویں صدی میں جینے پر مجبور ہیں۔ کل تک گڈاپ کی وجہ شہرت سرسبز باغات، دلکش پہاڑی سلسلے، بہتی ندیاں، تازہ ہوا اور چاندنی راتیں تھیں، مگر آج اجڑی زمینیں، خشک ندیاں، قحط میں مبتلا لوگ تو دوسری طرف ان اجڑے ہوئے زمینوں اور پہاڑوں پر بنائی جانے والی غیر قانونی رہائشی اسکیموں کے نت نئے اعلانات، ستم ظریفی یہ کہ ریاستی چشم پوشی، اپنوں کی بے حسی، رہنماؤں کی خودغرضی نے مل کر گڈاپ کو گڈاپ نہ رہنے دیا۔ گڈاپ ایک درد ہے، ایک المیہ ہے۔
کہتے ہیں کہ پانی زندگی ہے، اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ ذرا سوچیں! گڈاپ کے انسان کس طرح زندگی بسر کررہے ہیں، یہاں پینے کے پانی کی کوئی پائپ لائن نہیں ہے، لوگ بورنگ کا پانی استعمال کرتے ہیں، مگر وہ بھی روٹھ سا گیا ہے۔ دن بدن یہ پانی بھی مزید زیر زمین جارہا ہے، پانی کی سطح نیچے چلے جانے سے یہ پانی پینے کے استعمال کا قابل نہیں رہا ہے، اس کے پینے سے کئی موذی بیماریاں عام ہیں، خاص طور پر ہیپاٹائٹس سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، گڈاپ کا ہر دوسرا شخص اس مرض میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے اب تک کئی اموات ہوچکی ہیں، بہت سے بیمار ہیں جو غربت کے باعث اپنا علاج نہیں کروا سکتے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔
اسی طرح یہاں چمڑے کی بیماریاں بھی عام ہیں۔ گٹکا، ماوا، مین پوری، چھالیہ کی خریدوفروخت سے یہاں منہ کے کینسر کے مریضوں میں بھی اضافہ دکھائی دیتا ہے۔ لاکھوں کی آبادی والے گڈاپ میں صرف 4 ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ہیں جن میں سے 3 سرکاری ملازم ہیں جو سارا وقت اپنے ذاتی کلینک کو دیتے ہیں اور ان تین میں سے ایک ریٹائر ہوکر اپنا کلینک چلا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ 21 اتائی ڈاکٹرز ہیں جو کسی ڈاکٹر کے یہاں کمپوڈر رہ چکے ہیں اور 2 ڈسپنسر حضرات اپنا کلینک چلا رہے ہیں۔ کہنے کو پورے گڈاپ میں 9 صحت کے مراکز قائم ہیں جن میں لیڈی ڈاکٹر سمیت 6 ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ہیں اور 5 لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں۔ ماسوائے کاٹھور مرکز کے باقی سب مراکز میں ڈاکٹرز اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز صرف کاغذی کارروائی کی حد تک موجود ہیں۔
گڈاپ میں کوئی سرکاری اسپتال نہیں ہے۔ کراچی ٹول پلازہ میں بقائی اسپتال اپنا وجود تو رکھتا ہے مگر یہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے، کیوں کہ یہاں ایمرجنسی کی صورت میں نہ کوئی ڈھنگ کا ڈاکٹر ملے گا اور نہ ہی وہ سہولیات میسر ہیں جو کسی بڑے نجی اسپتال میں ہونی چاہئیں۔ گڈاپ کے علاقے کاٹھور میں جہاں مول سے لے کر سری اور نوری آباد کے لوگ آتے ہیں، صرف ایک صحت کا مرکز ہے جہاں صرف ایک سند یافتہ ڈاکٹر ہے، باقی اتائی ڈاکٹرز مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں۔ یہاں 2 ایمبولینس ہیں، جو بڑھتی ہوئی مریضوں کی تعداد کے حساب سے کم ہیں، اکثر مریضوں کو نجی گاڑیوں سے دوسرے اسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
موئیدان، گنڈھ جھنگ، تھدو، کونکر، کارسینٹر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں تو ڈاکٹرز سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، نہ ہی ایمبولینس کی سہولت موجود ہے۔ گڈاپ سٹی اور گبول اسٹاپ مرکزی علاقے ہیں جہاں کلینک تو موجود ہیں لیکن وہاں ایک دو کے علاوہ باقی اتائی ڈاکٹرز بیٹھتے ہیں اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہ جعلی ڈاکٹرز ہیں لیکن ان کے پاس دوسرا کوئی چارہ بھی نہیں، اس لیے سادہ لوگ چھوٹی موٹی بیماریوں کے لیے ان سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔
ہم نے ایک دو دفعہ ان اتائی ڈاکٹروں کے خلاف مہم چلائی جس کے نتیجے میں انتظامیہ نے انھیں بند کردیا، لیکن لوگ خوش ہونے کے بجائے ہم پر بگڑ گئے کہ اسپتال ہمارے پاس نہیں، ڈاکٹر ہمارے پاس نہیں، لے دے کر یہی اتائی ڈاکٹرز ہیں جو ہماری چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں، انھیں بھی آپ بند کرا تے ہو، قابل ڈاکٹر ہمارے یہاں آتے نہیں، کراچی ہم سے دور ہے، ہم وہاں جا نہیں سکتے، یہ ظلم ہم پر مت کرو۔ ہم لوگوں کے سامنے لاجواب ہوکر چپ رہے اور اتائی ڈاکٹرز اپنے دھندے میں لگے ہوئے ہیں۔
شبیر احمد ارمان
میں شہری حدود میں 13 یونین کمیٹیز اور دیہی میں 32 یونین کونسلیں ہیں۔ ضلع ملیر کی سرکاری آبادی کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، البتہ ضلع ملیر میں 5 لاکھ 47 ہزار 207 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ ضلع ملیر دیہی اور شہری زندگی کا خوبصورت امتزاج رکھتا ہے، اس کے مشرقی علاقوں میں باغات واقع ہیں جہاں سبزیوں، ترکاریوں کے علاوہ پھل بھی اگا ئے جاتے ہیں اور کھیتی باڑی یہاں کی بیشتر آبادی کا ذریعہ معاش رہا ہے ۔ تاہم اب خدمات اور کاروباری شعبوں کی جانب دھیان دیا جارہا ہے۔ ملیر کی یہ زرخیزی ملیر ندی کی مرہون منت ہے جو عموماً بارش کے ایام میں ہی بہتی ہے۔ گرمی میں پانی کی قلت کے باعث یہاں کے مکینوں نے اپنے گھروں میں بورنگ کرالی ہے تاکہ پانی کی کمی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ میٹھے پانی کی قلت کے باعث مکین پینے کا پانی خریدتے ہیں جب کہ غریب طبقہ کھارا پانی ہی پینے پر مجبور ہے، جس سے وبائی امراض جنم لیتے ہیں۔
0 Comments