نجی بینک کے اے ٹی ایم سے ڈیوائس کے ذریعے ڈیٹا چرانے کے الزام میں چینی شہری کی گرفتاری کے بعد ایف آئی اے کو ایک منظم گروہ کی شکل میں کام کرنے والے مزید چینی شہریوں کی موجودگی کے ثبوت ملے ہیں جو شہر میں بہت متحرک ہیں۔ سائبر کرائم سیل سے منسلک ایف آئی اے آفیشل نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں موجود اسی گروہ کے ایک رکن نے اسی تکنیک کے ذریعے ایک اور نجی بینک سے ڈیٹا چرانے کے بعد ٹرانزیکشن بھی کرا لی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے کو متعدد اشارے اور مختلف بینکوں سے شکایات موصول ہوئی ہیں جس کے بعد یہ بات یقینی ہے کہ شہر میں مزید چینی آپریٹرز بھی کام کر رہے ہیں۔
آفیشل کے مطابق سب سے پریشان کن معلومات ایک نجی بینک سے ملیں جس کے مطابق چوری شدہ ڈیٹا کی مدد سے ان کی ڈیفنس سوسائٹی میں موجود برانچ سے ٹرانزیکشن کرائی گئی۔ تاہم انہوں نے اس ٹرانزیکشن کے ذریعے نکلوائی گئی رقم بتانے سے انکار کردیا۔ 'ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیٹا اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے چرایا گیا جس کا اس سے سراغ لگایا گیا تھا اور جس کے بعد ایک چینی شہری کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ ہمیں اسی خطرے سے تعلق رکھنے والے مزید افراد کے اس کام میں ملوث ہونے کی معلومات ملی ہیں'۔
چینی شہریوں کی شہر میں موجودگی اور اسکیمنگ ڈیوائسز کی مدد سے نجی بینکوں سے مبینہ طور پر ڈیٹا چرانے کی اطلاعات گزشتہ ماہ اس وقت منظر عام پر آئی تھیں جب ایف آئی اے نے ایک مشتبہ شخص کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے اس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ اور الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ مشتبہ شخص ژی یی کو گزشتہ ہفتے 14 روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا جبکہ اس کے ساتھیوں میں سے ایک ژی رونگ جنگ اب بھی آزاد گھوم رہا ہے۔ ایف آئی اے آفیشل کے مطابق دونوں مشتبہ افراد 18 جون کو پاکستان آئے اور انہوں نے 20 جون کو اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم کے کام سے پتہ چلا ہے کہ چینی شہری چند مقامی لوگوں کی مدد سے اس کام میں انتہائی مستعدی سے ملوث ہیں۔ وہ یہاں بزنس ویزا پر آئے جو انہیں مقامی آرگنائزیشن یا فرد کی تجویز پر دیا گیا۔ ہم نے اپنی تحقیقات کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے اور ان مشتبہ افراد کا پتہ چلانے کیلئے چینی حکام سے بھی رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے مستقبل میں بھی بینکوں سے اس طرح رقم نکلوائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا کیونکہ ایف آئی اے اس بارے میں اب تک لاعلم ہے کہ اس گروہ کی جانب سے مختلف بینکوں سے اب تک کتنا ڈیٹا چرایا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنی طرز کا پہلا کیس ہے اور اس سے قبل اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، یہ کیس اس لحاظ سے بھی انوکھا ہے کہ اس میں غیر ملکی شہری ملوث ہیں جو ممکنہ طور پر ایک منظیم گروپ کا حصہ ہیں۔
0 Comments