سنا ہے یہاں گینگ وار ہوتی ہے، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور، قبضہ مافیا کے Don
یہیں رہائش پذیر ہیں، گلی گلی میں عقوبت خانے، شراب، جوئے کے اڈے، افیم کے کاروبار۔ کوئی کہتا ہے لوگ یہاں جیتے نہیں، مرتے ہیں۔ جینے نہیں دیتے، مار دیتے ہیں۔ لیکن ہم تو سنتے تھے وہ ایک بستی ہے۔ غریب لوگوں کی۔ جہاں تمام دن کے تھکے ہارے مزدور سر شام گھر لوٹتے ہیں تو ریڑھی سے ایک کیلا، دو امرود، 3 ٹماٹر، ½ کلو آٹا، چھوٹی سی تھیلی میں گھی لیے خوشی خوشی لوٹتے ہیں اور اگر مالک نے ڈیلی ویجز بونس دیا تو کبھی کبھار ایک انڈا بھی خرید لاتے ہیں۔ یہ ان کا Dinner ہے۔ رات بھر فٹ پاتھ پر سو کر بہت محدود سے خواب دیکھنا، اور صبح ہو جاتی ہے۔ جلدی جلدی اپنی رلی سمیٹ کر چٹنی سے رات کی بچی ہوئی روٹی کھا کر اور اسی مزدوری پر یہ جا وہ جا۔ کسی تہوار پر زندگی یہاں بھی کچھ گھنٹے قیام فرماتی ہے۔ تب یہ سارے مزدور یک روزہ چھٹی پر ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ کہیں کہیں چنے اور چاول کی دیگ پکتی ہے، ساتھ میں سوجی کا حلوہ۔ کمر کے گرد رنگ دار رومال باندھ کر یہ رقص کرتے ہیں۔ دھرتی کا سب سے خوبصورت رقص، اس دن تمام عورتیں مل کر گیت گاتی ہیں۔
اپنے مردوں، بیٹوں، بیٹیوں کی ترقی کے گیت، محبت کے گیت، سپیدہ صبح سے لے کر رات ڈھلنے تک۔ اگلے دن سے وہی ڈگر، وہی راستہ۔ یہ لیاری ہے؟ یا وہ لیاری۔ سمجھ میں نہیں آ رہا لیاری کسے قرار دیا جائے۔ عزیر بلوچ، بابا لاڈلہ گروپ، گینگ وار، منشیات، آپریشن، چھاپے، گرفتاریاں، بڑے بڑے انکشافات۔ میں سن سن کر تنگ آ گیا، پڑھ پڑھ کر حیران ہوتا رہا۔ آخر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں کسی بلوچ دوست کے ہمراہ خاموشی سے لیاری Visit کروں گا۔ وہاں لوگوں سے مل کر ان کے حالاتِ زندگی، روزگار اور معمولات کے بارے میں چھان پھٹک کروں کہ آخر سچ کیا ہے۔ لہٰذا ایک دن میں نے اپنے اس ارادے سے اپنے یارِ غار ولی مکرانی کو آگاہ کیا۔ جو وہاں کا مستقل رہائشی تو نہیں لیکن اس نے ایک دور میں کئی برس وہاں قیام کیا۔
اس نے مجھے کچھ خطرات سے یہ کہہ کر آگاہ کیا کہ وہاں کچھ مخصوص علاقوں پر دادا ٹائپ لوگوں کا قبضہ ہے، جو عام آدمی کو بڑی مشکل میں ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ انھیں چین سے جینے نہیں دیتے۔ لیکن لیاری کا ایک وسیع علاقہ غربا کی بستی پر ہی مشتمل ہے، جسے جرم و جرائم تو دور کی بات عام طور پر سوچنا بھی میسر نہیں۔ وہ سر جھکا کر کولہو کے بیل کی طرح محنت کیے جاتے ہیں۔ بہرحال ہم طے شدہ دن لیاری پہنچ گئے۔ جب ہم ’’چیل چوک‘‘ پر تھے تو ولی نے اپنے کچھ احباب کو میری موجودگی سے آگاہ کرتے ہوئے اور مہمان قرار دیتے ہوئے ملاقات کی خواہش کی، جسے انھوں نے بصد خلوص قبول کیا۔ میں نے ایک جگہ اپنی گاڑی پارک کی اور پیدل ولی کے ہمراہ ادھر ادھر جھانکتا اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگا۔ وہاں کچھ گھریلو عورتیں بلوچوں کے مقامی لباس میں چلتی پھرتی دکھائی دیں، ان کے چہروں سے سادگی مترشح تھی۔ صاف لگتا تھا کہ دنیا ان کے لیے یہی چند گلیاں ہیں۔ البتہ فکر معاش کا سایہ ضرور آتا جاتا دکھائی دیا۔ کچھ کم سن بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ پیر چپل سے بے نیاز، بال گھنگھریالے، جو قومی خصوصیت ہے۔
کپڑے پھٹے، سلے، اور کچھ اسی عمر کے بچے وہاں مختلف دکانوں پر سخت محنت میں مصروف دکھائی دیے۔ وہ اس کام سے اتنے واقف نہیں لگتے تھے جتنی تندہی سے اسے انجام دے رہے تھے۔ کئی جگہ ایسے عمر رسیدہ بڑے بوڑھے تاش کھیلتے ملے جن کی کام کرنے کی عمر شاید نہیں رہی تھی۔ بیڑی منہ میں دبائے وہ انہماک سے مصروف تھے۔ ولی مجھے لیے چلا جا رہا تھا۔ میں بھی اپنے کھوج میں ایک ایک چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن مجھے 20 منٹ کی مسافت میں وہاں کچھ دکھائی نہ دیا۔ کسی نے مشورہ دیا تھا کہ سوچ سمجھ کر جانا۔ وہاں حالات اچانک کشیدہ ہو جاتے ہیں، لیکن میں تو وہاں محنت ہی محنت دیکھ رہا تھا۔
حالات کی کڑی دھوپ میں جھلسے ہوئے چہرے، غربت سے شکن آلود پیشانیاں۔ کچھ مزید آگے بڑھنے پر ہماری پہلی منزل آ گئی، جہاں ولی کے دوست چارو اور دل بخش ہمارا انتظار ایک چھوٹی سی آئل شاپ پر کر رہے تھے، جہاں وہ دونوں کام کرتے تھے۔ وہ دونوں بڑے تپاک سے مجھ سے ملے اور ہمیں چائے کے ہوٹل پر لے گئے۔ چائے آرڈر کی اور ولی سے بلوچی میں بات کرنے لگے۔ غالباً میرے متعلق پوچھ رہے تھے۔ ولی نے انھیں مدعا سمجھایا۔ جس پر وہ خوف زدہ دکھائی دینے لگے۔ میں نے ولی کو مخاطب کیا اور کہا کہ انھیں بتائے میں کوئی اخباری رپورٹر نہیں بلکہ صرف ان سے ملنے آیا ہوں۔ ولی نے دوبارہ وضاحت کی تب وہ کہیں مطمئن ہوئے۔ چائے پینے کے بعد میں نے ان سے علاقے کے بارے میں پوچھنا شروع کیا جو کچھ مجھے ان کی زبانی معلوم ہوا وہ درج ذیل ہے۔ انھی کی زبانی سنیے۔آپ کے علاقے کے حالات اب کیسے ہیں چارو؟
علاقہ…!! گزارا ہے، باقی اِدر ابی بھوت ایجنسی کا لوگ، رینجر والا آتا ہے۔ صبح شام اس کو اُٹا اُس کو اُٹا،۔ نی، کیا کون، بھرے کون۔ ام تو مزدور آدمی اے، آپ کسی پڑا لکھا آدمی سے ملو۔ نہیں چارو مجھے آپ ہی سے ملنا تھا۔ اچھا یہ بتاؤ کیا یہ سارا علاقہ عزیر بلوچ کو اپنا رہنما مانتا ہے؟ اڑے نئی بابا، سارا اخباری لوگ جوٹ بولتا ہے۔ ام لوگوں کو پھراگت ہی نئی۔ اپنا بچوں کا پیٹ پالے یا سیاست میں پڑے۔ یہ سارا لیاری کو استعمال کرتے گریب لوگوں کا کھون چوستے، کوئی بولتا میرا لیاری، کوئی بولتا میرا، ابی ادر کا حال دیکھو نی اور اندر گلی میں جائے گا تو سب بتائے گا۔ علاقہ اس کا ہوئے گا جو ادر کام کرائے گا۔ عزیر، گینگ وار ، موالی لوگ، امارا کیا کام اس سے۔ دل وشک ۔ یہ بابا لاڈلہ کون ہے؟ بائی ام بتاتا اے۔ یہ حکومت لوگ ان کو پالتا اے، انوں سے کام لیتا ہے۔ قبضہ کرانا، چوری، اگوا، مخالف کو اٹوانا، پر انوں کو پولیس کا حوالے کرنا۔ ام بھوت دنوں سے دیکتا اے۔ اور کا عام لوگ کو کیا پتہ۔ عزیر کون، بابا لاڈلہ کون۔ امارے بچے کا پاس نہ تعلیم، نہ ادر کوئی اچا اسپتال، ام سارا دن مزدوری کرے تو یہ دادا لوگ کا معلومات کیسے کرے۔
اچھا آپ دونوں کے کتنے بچے ہیں؟ اور ان میں سے کتنے پڑھتے ہیں؟
چارو۔ امارا 3 بچہ ہے، دو لڑکا ایک بیٹی۔ دل وشک۔ امارا تینوں لڑکی ہے باقی پڑتا کوئی بھی نئی۔ آں آپ کو بتاؤں ادر روز کوئی نا کوئی پارٹی کا لیڈر آتا ہے۔ بولتا ام تمارے کو روڈ دیںگا، اسپتال کھولے گا، نوکری دے گا، بائی سب جوٹ مارا (دھوکہ) دوکا۔ امارا ماں باپ ادری کام کرتا کرتا مر گیا، ام بھی مر جاؤںگا، سارا لیڈر جوٹ بولتا ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے لیاری میں رہا، بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ساری تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی لیکن مختصراً لب لباب یہ کہ یہ ایسے شرفا کی بستی ہے جہاں مالدار نہ سہی لیکن بہت شرافت سے جیتے ہیں، نامور فنکار ، فٹبالر ، باکسر ہیں، ملک سے محبت کرتے ہیں اور بہت سیدھے سادھے ہیں۔
راؤ سیف الزماں
یہیں رہائش پذیر ہیں، گلی گلی میں عقوبت خانے، شراب، جوئے کے اڈے، افیم کے کاروبار۔ کوئی کہتا ہے لوگ یہاں جیتے نہیں، مرتے ہیں۔ جینے نہیں دیتے، مار دیتے ہیں۔ لیکن ہم تو سنتے تھے وہ ایک بستی ہے۔ غریب لوگوں کی۔ جہاں تمام دن کے تھکے ہارے مزدور سر شام گھر لوٹتے ہیں تو ریڑھی سے ایک کیلا، دو امرود، 3 ٹماٹر، ½ کلو آٹا، چھوٹی سی تھیلی میں گھی لیے خوشی خوشی لوٹتے ہیں اور اگر مالک نے ڈیلی ویجز بونس دیا تو کبھی کبھار ایک انڈا بھی خرید لاتے ہیں۔ یہ ان کا Dinner ہے۔ رات بھر فٹ پاتھ پر سو کر بہت محدود سے خواب دیکھنا، اور صبح ہو جاتی ہے۔ جلدی جلدی اپنی رلی سمیٹ کر چٹنی سے رات کی بچی ہوئی روٹی کھا کر اور اسی مزدوری پر یہ جا وہ جا۔ کسی تہوار پر زندگی یہاں بھی کچھ گھنٹے قیام فرماتی ہے۔ تب یہ سارے مزدور یک روزہ چھٹی پر ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ کہیں کہیں چنے اور چاول کی دیگ پکتی ہے، ساتھ میں سوجی کا حلوہ۔ کمر کے گرد رنگ دار رومال باندھ کر یہ رقص کرتے ہیں۔ دھرتی کا سب سے خوبصورت رقص، اس دن تمام عورتیں مل کر گیت گاتی ہیں۔
0 Comments