Ticker

6/recent/ticker-posts

مژگاں تو کھول شہر کو بل بورڈ لے گئے : وسعت اللہ خان

پوری اشتہاری انڈسٹری کا محور ایک ہی جملہ ہے ’’ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے‘‘۔اس وقت عالمی اشتہاری صنعت کا حجم چھ کھرب ڈالر سالانہ ہے۔ اور چار عالمی اشتہاری گروپ (انٹر پبلک ، اومنی کوم ، پبلیسز ، ڈبلیو پی پی ) اس صنعت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ تاریخ تو بہت پرانی ہے البتہ جس اشتہاری صنعت کو آج ہم جانتے ہیں اس کی ابتدا انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہوئی جب پئیرس سوپ کمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک صاحب تھامس بیرٹ نے پہلی کمرشل اشتہاری مہم بنائی جس میں تصویر اور سلوگن کا استعمال ہوا۔ یہ سلوگن تھا ’’ صبح بخیر ! کیا آپ نے پئیرس صابن استعمال کیا ؟ ‘‘۔

پیرس کا روزنامہ ’’ لا پریس ’’ پہلا اخبار تھا جس نے اٹھارہ سو چھتیس میں مصنوعاتی اشتہارات اپنے صفحات پر قیمتاً چھاپنے شروع کیے۔ اٹھارہ سو بیالیس میں امریکی ریاست فلاڈیلفیا کے ایک جگاڑو سرمایہ کار وولنر پامر نے وہ کام کیا جو آج ہر اشتہاری کمپنی کرتی ہے۔ یعنی اخباری سپیس تھوک کے حساب سے خرید کر اشتہارات کے خواہش مند کاروباریوں کو نسبتاً مہنگے دام فروخت کرنے کا کام۔ البتہ ان اشتہارات کی تیاری کا کام خواہش مند کمپنیوں کو خود ہی کرنا پڑتا تھا۔ آئیر اینڈ سنز پہلی امریکی کمپنی تھی جس نے باقاعدہ اشتہاری مہم اول تا آخر بنانا شروع کی جو آج کل ایک معمول کی بات ہے۔

مگر اصل اشتہاری انقلاب تب برپا ہوا جب علمِ نفسیات کے باپ سگمنڈ فرائڈ کا ایک بھتیجا ایڈورڈ برنیز اس نتیجے پر پہنچا کہ شے بذاتِ خود نہیں بکتی جب تک کہ انسانی جبلت کو نہ چھیڑا جائے اور اسے مناسب صوتی ، بصری و لفظی انداز میں لاشعوری طور پر یہ باور نہ کرایا جائے کہ فلاں شے کی خریداری نہ صرف ایک ضرورت پوری کرے گی بلکہ اس شے کا حصول تسکین و خوشی بھی بخش سکتا ہے۔ اس نفسیاتی انقلاب سے فائدہ اٹھانے والوں میں سگریٹ ساز کمپنیاں پیش پیش رہیں اور انھوں نے اتنے دلکش انداز میں لوگوں کو تمباکو نوشی کا عادی بنایا کہ آج تک کروڑوں لوگ اسیر ہیں۔
پھر یہ خیال پیدا ہوا کہ اشتہارات کو اتنا پرکشش کیسے بنایا جائے کہ صارف بے ساختہ اس شے کی جانب ہاتھ بڑھا دے جس کی اسے فوری ضرورت نہ بھی ہو۔ایک خاتون ہیلن لینڈسڈاؤن نے امریکی اشتہاری ایجنسی جے والٹر تھامسن کے لیے صابن کا ایک اشتہار بنایا۔ اس میں ایک وجیہہ مرد نے ایک حسین عورت کا ہاتھ بڑی نرمی سے تھاما ہوا ہے اور سلوگن ہے ’’ وہ جلد جسے آپ چھونا چاہیں ’’۔ آئیڈیا ہٹ ہوگیا۔ خواتین جو آبادی کا نصف ہوتی ہیں کنزیومرازم کی دنیا میں جوق در جوق شامل ہونے لگیں اور کاروباریوں کے بزنس کو چار سے پانچ چاند لگتے چلے گئے۔

بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ریڈیو نشریات کا دروازہ کھلا اور چوتھے عشرے میں ٹیلی ویڑن گھروں میں داخل ہوگیا۔ اور پھر اشتہاری رسالے ، کافی ٹیبل میگزین ، بل بورڈز اور پھر انٹر نیٹ ، سوشل میڈیا اور پھر سلیبرٹیز برانڈ ایمبیسڈر بننے لگے۔ غرض اشتہار کو جہاں جگہ ملی وہاں فٹ ہوتا چلا گیا۔ نہیں بھی ملی تو زبردستی گھس گیا۔ مگر سب سے کامیاب اشتہاری میڈیم آج بھی ٹیلی ویژن ہی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ ڈبہ ایجاد ہی اشتہار بازی کے لیے ہوا مگر ناظر کو اس ڈبے سے جوڑے رکھنے کے لیے اشتہارات کے بیچ میں چند پروگرام اور خبریں بھی باامرِ مجبوری ٹانک دیے جاتے ہیں تاکہ کاروباری گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ ٹی وی اس قدر پرکشش اشتہاری میڈیم ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنی بھی ایڈورٹائزنگ ہو رہی ہے اس کا لگ بھگ اڑتیس فیصد ٹی وی اسکرین لے جاتی ہے۔ بیس فیصد اشتہار بازی اخبارات و رسائیل کے ذریعے ہوتی ہے اور آؤٹ ڈور اشتہارات یعنی بل بورڈز وغیرہ کا تناسب محض ساڑھے چھ فیصد کے لگ بھگ ہے۔

مگر لگتا یوں ہے کہ سب سے زیادہ اشتہاری آلودگی کا سبب آسمانی سائز کے بھانت بھانت کے لاکھوں بل بورڈز ہیں جنہوں نے ہمارے شہروں اور قصبوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ کراچی کی سب سے طویل شاہراہِ فیصل اور اس سے جڑنے والی سڑکوں اور ان پر ایستادہ عمارتوں پر شائد ہی کوئی انچ اشتہارات سے بچ سکا ہو۔ لیکن اب دنیا رفتہ رفتہ اس اشتہاری آلودگی سے اکتا رہی ہے اور غصب شدہ جگہ واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ثقافتی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ِخصوصی ایلچی فریدہ شہید کہتی ہیں کہ اشتہارات کی مسلسل بمباری ہمارے حواسوں اور ثقافت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ آوٹ ڈور اشتہارات اور بل بورڈز عوام کی سوشل سپیس پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔ بل بورڈز شہر کے اصل حقائق ، اچھائیوں اور برائیوں کو یکساں شدت سے ڈھانپ رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کوئی شہر اصل میں کتنا خوشنما یا بدنما ہے۔ 

شہری بلدیات اور کمرشل و نجی ادارے یہ دلیل دیتے ہیں کہ آؤٹ ڈور اشتہارات کی آمدنی سے شہری انتظام کا خرچہ نکالنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن اب دنیا کے بہت سے بڑے بڑے شہروں کا پیمانہِ صبر لبریز ہونا شروع ہوگیا ہے۔ مثلاً سن دو ہزار میں برازیل کی اشتہاری صنعت کو چھوٹ ملی تو ملک کے سب سے بڑے شہر ساؤپالو میں بل بورڈز کا ایسا طوفان آیا کہ شہر کا دم گھٹنے لگا۔ چنانچہ مئیر گلبرٹو کساب نے اس اشتہاری رجحان کو بصری آلودگی قرار دیتے ہوئے دو ہزار سات میں کلین سٹی قانون منظور کرایا اور ایک سال کے اندر پندرہ ہزار بڑے بل بورڈز اور بڑے اسٹورز کے فرنٹ پر لگے تقریباً تین لاکھ سائن بورڈز ہٹوا دیے۔ اس مہم کے نتیجے میں ساؤپالو پھر سے نارمل شہر لگنے لگا۔ دو ہزار بارہ میں بلدیہ ساؤ پالو نے آؤٹ ڈور اشتہار بازی پر سے پابندی جزوی طور پر اٹھا لی اور شہر میں جگہ جگہ ایک ہزار بڑی گھڑیاں نصب کیں جن کے نیچے سپانسرز کو اشتہارات لگانے کی اجازت دی گئی۔

امریکی ریاست ورمونٹ ، مین ، ہوائی اور الاسکا بل بورڈ فری ریاستیں ہیں۔نیویارک سب ویز میں ٹرپل لائف سائز اشتہارات کی جگہ آرٹ کے شہہ پارے چسپاں کرنے کی مہم مسلسل ہے۔ یہی کام اس سال کے شروع میں بلدیہ تہران نے کیا اور شہر کے ڈیڑھ ہزار کمرشل بل بورڈز کو ڈھانپ کر ان پر ایرانی مصوری کے نادر نمونے آویزاں کر دیے۔ شہریوں نے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا لہذا بلدیہ نے اگلے برس بل بورڈز پر ایرانی ثقافت اجاگر کرنے کے دورانئیے میں مزید اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ دو ہزار آٹھ میں برطانوی شہر برسٹل کے شہریوں نے آؤٹ ڈور اشتہارات کی بھرمار کے خلاف عدالت سے رجوع کیا مگر ہار گئے۔ اب شہری تنظیمیں دوبارہ مقدمہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ دو ہزار گیارہ میں برلن کی لوکل گورنمنٹ نے بل بورڈز کی تعداد ایک تہائی تک لانے کا فیصلہ کیا۔

البتہ فرانسیسی قصبہ گرینڈول گذشتہ برس پہلا یورپی قصبہ بن گیا جس نے آؤٹ ڈور کمرشل اشتہارات سے مکمل نجات پا لی۔ تین سو چھبیس بل بورڈز کی جگہ درخت اور کمیونٹی نوٹس بورڈ لگا دیے گئے۔ اس اقدام سے قصباتی بلدیہ کی آمدنی چار لاکھ ستر ہزار یورو سے گھٹ کے ایک لاکھ پانچ ہزار یورو سالانہ پر آ گئی۔ مگر بلدیہ پرعزم ہے کہ یہ مالی خسارہ کونسلروں کی تنخواہ میں رضاکارانہ کٹوتی اور تفریحی اخراجات میں بچت کے ذریعے پورا کر لیا جائے گا۔ جنوبی ایشیا میں بھوٹان واحد ملک ہے جہاں آؤٹ ڈور اشتہار بازی کی اجازت خاصی محدود ہے اور اس بابت ضابطہِ اخلاق و انتظام بھی کڑا ہے۔

بھارت میں مرکزی سطح پر تو بے مہار اشتہاری رجحان کو لگام دینے سے متعلق کوئی موثر قانون سازی نہیں ہو سکی البتہ ریاستی و شہری حکومتوں نے اپنے طور پر اقدامات کیے ہیں۔ مثلاً ریاست مہاراشٹر میں تاریخی نشانیوں ، آثارِ قدیمہ و قدیم ستونوں ، عبادت گاہوں کی دیواروں اور احاطوں ، مجسموں اور میناروں پر اشتہار نہیں لگایا جا سکتا۔ رات گیارہ بجے کے بعد تمام بڑی شاہراہوں پر نصب نیون سائنز کو سوئچ آف کرنا پڑتا ہے۔ ممبئی کی ساڑھے چار کلو میٹر طویل میرین ڈرائیو پر نصب پچاس چھوٹے بڑے بل بورڈز ہٹا دیے گئے ہیں۔ پونا شہر میں بل بورڈز گذشتہ ماہ صاف کر دیے گئے۔

ریاست کرناٹک کا شہر بنگلورو بھارت کا سائبر کیپٹل ہے۔ وہاں شہری حکومت کی جانب سے ’’ اشتہار سے پاک بنگلورو‘‘ مہم کے نتیجے میں سن دو ہزار آٹھ سے نئے بل بورڈز کے لیے لائسنس کا اجرا بند ہے۔ تاہم غیر قانونی بل بورڈز کے خلاف کاروائی اتنی موثر ثابت نہیں ہو سکی۔ جب کہ تامل ناڈو کے دارلحکومت چنئی میں دو ہزار نو کے بعد سے بل بورڈز کے لائسنسوں کا اجرا بند ہے۔ اور رہا ہمارا پیارا پاکستان تو آج کے پاکستان میں بل بورڈز اتارنے کے بابت سپریم کورٹ کے احکامات کوئی نہیں سنتا تو کمشنر کراچی سمیت دیگر حکام کس کھیت کی مولی ہیں جو بارہا بل بورڈ مافیا کو الٹی میٹم دیتے رہتے ہیں۔
آج میر صاحب زندہ ہوتے تو علاوہ اس کے اور کیا کہتے ،

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو بل بورڈ لے گئے

وسعت اللہ خان 

Post a Comment

0 Comments