Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی آپریشن، جرائم میں اضافہ

کراچی میں تین سال سے آپریشن جاری ہے۔ بڑے جرائم میں کمی ہوئی، مگر
اسٹریٹ کرائم کی شرح بڑھی۔ سی پی ایل سی شہریوں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے تعاون سے جرائم کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔ سی پی ایل سی کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال 17 ہزار سے زیادہ موٹر سائیکلیں چھین لی گئیں یا چوری ہوگئیں۔ اس طرح 21 ہزار سے زیادہ موبائل چھین لیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق موبائل سے محروم ہونے والے افراد میں سے صرف 30 فیصد نے تھانوں میں جاکر ایف آئی آر درج کرائی، جب کہ 70 فیصد اپنے موبائل چھیننے کو قسمت کا حال سمجھ کر خاموش ہوگئے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال 21 ہزار 1 سو 95 موبائل چھینے گئے تھے، جب کہ گزشتہ سے پیوستہ سال 18 ہزار 756 موبائل چھیننے کی رپورٹیں درج کرائی گئیں تھیں۔

اس طرح مختلف نوعیت کی چوری کی وارداتیں بڑھ گئیں، بینک لوٹنے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔ جب کہ اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں کمی ہوئی۔ اس کے ساتھ ہجوم کا ملزموں کو سزا دینے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ مہینے اورنگی ٹاؤن اور نیو کراچی میں دو ملزموں کو موقع واردات پر پکڑ کر بری طرح تشدد کیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ ملزمان ہلاک ہوگئے۔ بعض واقعات میں ہجوم نے مجرموں کو پٹرول چھڑک کر زندہ جلادیا۔ ایک شہری نے اپنے لائسنس والی پستول سے فائرنگ کرکے دو ملزمان کو ہلاک کیا، جو شہریوں کو لوٹنے کی کوشش کررہے تھے۔ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ نے ایک تقریب میں اس شہری کی بہادری کو سراہا اور اسے نقد انعام اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آئی جی نے اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر عوام اسی جذبے کے تحت ملزموں کے خلاف مدافعت کریں گے تو جرائم کی شرح کم ہوجائے گی۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اس کی آبادی دو کروڑ کے ہندسے کے قریب ہے یا اس سے تجاوز کرچکی ہے۔
اس سوال کا جواب ممکنہ طور پر ہونے والی مردم شماری سے ہی ملے گا۔ مگر آرگنائزیشن اور شماریات کے ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی کی آبادی دو کروڑ کے قریب ہے۔ مگر شہر کے انفرااسٹرکچر کو ترقی دینے اور پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا معاملہ ریاست کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ کراچی اس صدی کے آغاز سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مبتلا ہے۔ شہر کے مضافاتی علاقوں میں ایک زمانے میں طالبان کا قبضہ تھا، ٹھٹھہ ضلع کی حدود ختم ہو کر گھکھر پھاٹک سے بلوچستان کے علاقے حب تک کی پٹی پر طالبان قابض ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب افغانستان میں اتحادی فوجوں نے طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائی کی تو یہ لوگ پہلے وزیرستان، بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہوئے، پھر ان علاقوں میں فوجی آپریشن تیز ہونے کے بعد ان انتہاپسندوں کو کراچی کے مضافاتی علاقوں میں آباد کیا گیا۔

اس پٹی میں قائم بستیوں میں عرصہ دراز تک طالبان کی غیر اعلانیہ حکومت قائم رہی، اس علاقے میں اسکولوں کو تباہ کیا گیا، مزاروں پر حملے ہوئے، سماجی اور سیاسی کارکن اور اساتذہ قتل ہوئے، ٹی وی کیبل پر پابندی لگی، جرگوں نے فیصلے دینے شروع کردیے۔ یہاں سے اسلحہ کراچی میں آنے لگا۔ کراچی میں تین سال قبل شروع ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں بہت سے انتہاپسند مارے گئے، جس کے نتیجے میں شہر میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں میں کمی آئی، خاص طور پر محرم کے مہینے سکون سے گزرے۔ اس علاقے میں آپریشن کے نتیجے میں طالبان کی حکومت اب نظر نہیں آتی، مگر محسوس کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ اب بھی بہت مضبوط ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کراچی میں صرف طالبان ہی نہیں بلکہ کئی سیاسی گروہ اور بااثر مافیا اسلحہ کی فراہمی کے کاروبار میں ملوث ہے۔ اس کاروبار میں بڑے افسروں، سرداروں، وڈیروں اور بڑے سرمایہ داروں کے نام آتے ہیں۔ کراچی میں گزشتہ ماہ امجد صابری کے قتل میں نائن ایم ایم کا پستول استعمال ہوا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نائن ایم ایم پستول سے کراچی میں بہت سے اہم قتل ہوئے۔ اس پستول کی قیمت پانچ ہزار سے شروع ہوکر لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ نائن ایم ایم کی پستول درہ آدم خیل میں بھی تیار ہوتی ہے اور مختلف ممالک سے اسمگل ہوکر بھی آتی ہے۔
کرمنالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں جرائم کے خاتمے میں پولیس کا ادارہ ہی بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور پولیس کی نگرانی منتخب نمایندے کرتے ہیں، مگر کراچی پولیس کا ڈھانچہ انتہائی پسماندہ ہے۔ ماہرین اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کا محکمہ میرٹ کے تصور سے محروم ہے، اس محکمے میں تقرریاں اور تبادلے سفارش یا پیسے کی بنیاد پر ہوتی ہیں، بعض تھانوں کی نیلامی کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے۔ کراچی پولیس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو رائج کرنے کے لیے متعدد پروجیکٹ پر کام ہوا ہے، تھانوں میں کمپیوٹر فراہم کیے گئے ہیں، ای میل پر ایف آئی آر درج کرانے کا بھی ذکر ہوتا ہے، مگر پولیس کا محکمہ پنجاب کی طرح ای میل پر ایف آئی آر درج کرانے کی زیادہ پبلسٹی نہیں کرتا، اگر ای میل پر ایف آئی آر درج کرانے کا طریقہ عام ہوجائے تو اعلیٰ حکام اپنے عملے کی نگرانی زیادہ بہتر انداز سے کرسکتے ہیں۔

پھر اہم وارداتوں کے بعد علاقے کو گھیر کر جیوفینسگ ٹیکنالوجی کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ اس طریقے کے تحت جس مقام پر کوئی واردات ہوتی ہے اس کو بند کرکے وہاں کی فضا میں موجود الیکٹرانک لہروں کا تجزیہ کیا جاتا ہے، یوں موبائل فون کے نمبروں کا پتہ چلتا ہے۔ پوری دنیا میں یہ طریقہ کار بہت زیادہ موثر ہے، مگر کراچی میں یہ طریقہ کار زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے لائنز ایریا میں پارکنگ پلازہ کے قریب ایک فوجی جیپ پر حملے اور دو فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد اس ٹیکنالوجی کا میڈیا پر خوب ذکر ہوا تھا، اس طرح امجد صابری کے قتل اور چیف جسٹس کی صاحبزادے کے اغوا کے وقت بھی یہ موضوع میڈیا کی زینت بنا تھا، مگر ان معاملات میں کراچی پولیس مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ بعض اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں کہ کراچی پولیس کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ یہ ٹیکنالوجی  ایجنسیوں کے پاس ہے۔ پولیس اور ان ایجنسیوں کے درمیان اعتماد کا بحران ہے، جس کا فائدہ ملزموں کو ہورہا ہے۔
پولیس افسران اور جوانوں کی تربیت کا معاملہ بھی اہم ہے۔ کراچی میں سرگرم ملزموں کے گروہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں، ان میں سے کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں نے ان کی تربیت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں پولیس والوں کی ہلاکت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال میں پولیس کے جوانوں اور افسروں کی خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔ پولیس کے پاس ڈی این اے ٹیسٹ اور دوسرے مواد کے تجزیے کے لیے جدید لیبارٹری بھی موجود نہیں ہے۔ آئی جی نے بہادر شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ملزموں کو پکڑنے میں فعال کردار ادا کریں۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ شہری پولیس سے مکمل طور پر تعاون کریں مگر اس مقصد کے لیے گواہوں کے تحفظ کا قانون جامع ہونا چاہیے۔

اس قانون میں گواہوں کو معاوضے، ان کے اور ان کے اہل خانہ کے تحفظ کے لیے بیمہ کرانے کی شرط شامل ہونی چاہیے۔ مگر ہجوم کا ملزموں کو سزا دینے کا طریقہ کار بہت خطرناک ہے۔ ہجوم کو سزا دینے کے عمل کی حوصلہ افزائی سے عام آدمی کا پولیس پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ ہجوم کی سزا میں سچائی کا معاملہ مشکوک ہوتا ہے۔ ہجوم کی سزا سے انصاف پامال ہوتا ہے اور قانون کی حکمرانی ختم ہوتی ہے۔ آئی جی کو اپنے اس بیان کی وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ شہریوں سے پولیس سے تعاون کی اپیل کررہے ہیں یا انھیں ملزموں کو سزا دینے کی تلقین کررہے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ پولیس کے محکمے کو زیادہ فعال کیا جائے گا۔ یہ بات بالکل درست ہے، حکومت کو پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس کے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔ آئی جی سندھ کی یہ بات بھی درست ہے کہ پولیس آرڈر 2002 سب سے بہتر قانون ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس قانون کو پس پشت ڈال کر عام آدمی کا نقصان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو دوبارہ اس قانون کا جائزہ لینا چاہیے اور اس قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔ کراچی کو اسٹریٹ کرائم سے پاک کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

Post a Comment

0 Comments