Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا کراچی کے بلدیاتی مسائل حل ہوسکیں گے ؟

کراچی میں دو تین دنوں کی مسلسل اوروقفے وقفے سے موسلا دھار اور ہلکی
بارش سے شہرکراچی جل تھل ہوگیا ،کراچی میں بارش نے معمولات زندگی درہم برہم کردیے ، بارش کے دوران کرنٹ لگنے ، چھت گرنے،دیوار گرنے سے مرد ، خاتون اور بچوں سمیت 18افراد یہ سطور تحریر کرتے وقت تک جاں بحق ہوچکے تھے۔ بارش کے نتیجے میں نشیبی علاقوں ، شاہراہوں، پلوں کے اطراف اور انڈر پاسز میں پانی جمع ہوگیا ، سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتے رہے ، بجلی کی فراہمی کا نظام بھی شدید متاثر ہوا ، 450سے زائد فیڈر ٹرپ کرگئے ، شہر کا 30فیصد حصہ بجلی کی فراہمی سے محروم رہا ، شہر بھر میں 60کروڑ گیلن پانی فراہم نہیں کیا جا سکا جس وجہ سے شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔
بارش کی وجہ سے نشیبی علاقوں اور کچی آبادیوں میں پانی کھڑا ہوگیا ، تباہ حال سیوریج نظام سے گندہ پانی اوور فلو ہوگیا ، ہر گلی میں گٹر ابل رہے ہیں ، برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث نشیبی علاقوں میں گندا پانی گھس گیا ہے جس سے شہریوں کی قیمتی اشیا کو شدید نقصان پہنچا ہے ، شہری اپنی مدد آپ کے تحت گٹر ملا برساتی پانی گھروں سے نکال رہے ہیں ، سڑکوں پر پڑے کچروں کے انبار سے تعفن اٹھ رہا ہے جس سے و بائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے۔ 
مارکیٹوں کے اردگرد گٹر ابل رہے ہیں ، شہریوں کا ماکیٹوں میں داخل ہونا مشکل ہوگیا ہے ۔ سڑکوں پر کیچڑ اور پھسلن سے لوگ پریشان ہیں ۔اس طرح صرف 2 انچ بارش نے کراچی کی بلدیاتی اداروں کی قلعی کھول دی ہے ۔ کراچی ایک لاوارث شہرکی سی صورت اختیارکرتا جارہا ہے،کوئی پرسان حال نہیں ۔ نمائشی اقدامات بلدیاتی اداروں کا وطیرہ بن چکے ہیں ، ایک عرصے سے کراچی کچرا کنڈی کا نمونہ پیش کررہا ہے ، شہری چیخ چیخ کر اپنے بلدیاتی مسائل بیان کرتے رہے ہیں لیکن صرف میٹنگ اور اخباری بیانات تک معاملہ چلتا رہا ہے ، شہری سڑکوں پر پڑنے والے گڑوں سے اذیت میں مبتلا رہے اور ہیں ،کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کی خرابی اور ڈیزل فنڈز کے خورد برد کے باعث شہرکے بیشتر علاقوں میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے، سیوریج لائنوں کی مرمت اورگٹروں کی صفائی نہ ہو نے سے کئی علاقوں میں گٹر ابلتے رہے ہیں، شہر میں 12ہزار ٹن یومیہ کچرا پیدا ہوتا ہے۔

جس میں صرف 3ہزار ٹن یومیہ اٹھایا جاتا ہے ،اٹھائے جانے والے کچرے کا بیشتر حصہ لینڈ فل سائٹ پر پھیکنے کی بجائے لیاری ندی اور ملیرندی میں پھینکا جاتا ہے ، سینٹری ورکرز کی ملی بھگت سے کچرا چننے والوں نے لیاری ندی ، ملیر ندی ، برساتی نالوں، شاہراہوں اورسڑکوں پرکچرا جلاتے ہیں، یعنی کچرا چننے والے کچرے سے کام کی اشیا چن کرکچرے کو آگ لگا دیتے ہیں ۔ کچرے کو آگ لگانے سے شہر میں فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے ، بلدیاتی اداروں میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ، جس سے پورا بلدیاتی نظام ٹھپ ہوگیا ہے ۔کچرا اٹھانے و لگانے والی گاڑیوں کی مرمت کا بندوبست سے آنکھ چرائی جاتی رہی ہے ، با ر بارایڈ منسٹریٹرزکی تقرریوں، غیرقانونی طورپردرختوں کی کٹائی کرکے بل بورڈز ، سائن بورڈزکی سائٹس بنانے اوردیگر غیر قانونی اقدامات سے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا ہے ۔

واٹر بورڈکی غفلت بھی شہریوں کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے، سڑکوں کی استرکاری طویل عرصے سے التواء کا شکارہے، سڑکوں پر پڑنے والے گڑھوں سے شہری اذیت میں مبتلا ہیں ، سیوریج لائنوں کی مرمت اورگٹروں کی صفائی نہ ہو نے سے کئی علاقوں میں گٹرابلتے رہے ہیں، شہری پینے کے پانی کی شدید قلت سے دوچار ہیں ، اسٹریٹ لائٹس کی بندش سے حادثات اورجرائم بڑھ رہے ہیں، یہاں بھی رشوت کا بازارگرم ہے ، سیویج لا ئنیں چوک ہونے کی وجہ سے شاہراہیں اور سڑکیں بن بارش کے زیر آب آجاتی ہیں، مختلف علاقوں میں گٹروں کے ڈھکن غائب ہونے سے شہریوں خصوصا بچوں کی زندگیوں کو شدید خظرات لاحق ہوتے رہے ہیں،ان پر ڈھکن لگائے جائیں تاکہ حادثات سے محفوظ رہا جاسکے ۔

یوں تو میڈیا میں برساتی نالوں کی صفائی کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن جب بارش ہوتی ہے تو قلعی کھل جاتی ہے ،کھلے ہوئے اورکچرے سے بھرے ہوئے برساتی نالوں میں گرکر اموات ہوتی رہی ہیں، واٹر بورڈ ہمیشہ نکاسی آب کے نظام کو درست کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ مختلف علاقوں میں جمع سیوریج اوربارش کا گندا پانی مچھروں اورمکھیوں کی افزائش کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتا ہے جس کے سبب وبائی امراض بھی پھیلتے رہے ہیں ، شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اورگندا پانی جمع ہونے کے باعث دن بھر شہریوں کو مکھیاں تنگ کرتی ہیں  مغرب کے بعد مچھروں کا راج شروع ہوجاتا ہے ۔ مچھروں کے کاٹنے سے چھوٹے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، جراثیم کش اسپرے نہ ہونے کی وجہ سے شہر میں ملیریا سمیت دیگر بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں ۔ سیوریج ملا برساتی گندا پانی اورگندگی سے تنگ شہریوں کا کہنا ہے کہ عوام کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے ۔

شہرکراچی کے شہریوں نے5 دسمبر 2015ء کو اپنے بلدیاتی نمایندے اپنا قیمتی ووٹ دیکر کامیاب کیے تھے ، دو سیاسی جماعتوں کے درمیان عدالتی لڑائی اور قانونی معاملات کے باعث منتخب نمایندے عوامی خدمات انجام دینے سے قاصر رہے ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر بلدیاتی انتخابات کا تیسرا اور آخری مرحلے کا شیڈول کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت مئیرکراچی، ڈپٹی مئیر ، ڈی ایم سیزکے چئیر مین اوروائس چئیر مین کے انتخابات 24 اگست کو ہونگے اور 30اگست کو حلف برداری ہوگی اگر خدانخواستہ درمیان میں پھر کوئی قانونی معاملہ درپیش نہ ہوا تو معاملہ پھر لٹک جائے گا۔ واضح رہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے تحت یونین کمیٹی ویونین کونسل کی سطح پر 247 چئیر مین ، 247 وائس چئیر مین ، 988کونسلرزاور 38 ممبرز ڈسٹرکٹ کونسل منتخب ہوئے تھے ،الیکشن کمیشن کی جانب سے منتخب نمایندوں کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جاچکا ہے ۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی کی شہری حدود میں 209 یونین کمیٹیز اور دیہی حدود میں 38یونین کونسلیں بن گئی ہیں ۔

ادھر بلدیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ منتخب بلدیاتی نظام نافذ ہو بھی گیا تو شہری مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔ میئرکراچی کے تمام بلدیاتی اختیارات سلب کرلیے گئے ہیں، ضلع ویونین کمیٹی کے چئیر مین بھی بے بس ولاچار ثابت ہونگے ، سندھ حکومت کی جانب سے ادارہ ترقیات کراچی بحال کرکے سڑکوں ، فلائی اوورزکی تعمیر اور دیگر اہم منصوبے بلدیہ عظمیٰ سے چھین لیے گئے ہیں ، سندھ حکومت نے تقریبا تمام بلدیاتی اختیارات آنے والے میئرکراچی اور منتخب بلدیاتی نمایندوں سے چھین لیے ہیں ، صفائی ستھرائی کا نظام ،کراچی ماس ٹرانزٹ سیل ، واٹر بورڈ ، ادارہ ترقیات کراچی ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر اہم شعبے سندھ حکومت کے کنٹرول میں جاچکے ہیں ۔ ماہرین نے کہا ہے کہ آئین آرٹیکل 140-A کے تحت بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنانا چاہیے تاہم کراچی سمیت پورے سندھ میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ، صوبائی حکومت نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں ، بلدیاتی منتخب نمایندوں کو اپنے اختیارات کی بحالی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا ۔

فی الحال بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگربلدیاتی اداروں کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے ، ترقیاتی کام ٹھپ پڑے ہیں ،شہر میں صفائی ستھرائی اورکچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا کام شدید متاثر ہے ، برساتی نالے کچرا کنڈیاں بن چکے ہیں، اہم شاہرائیں اورگلی محلوں میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر قائم ہیں  سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،افسران اپنے حساب سے دفاتر پہنچتے ہیں ،گپ شپ ہوتی ہے،ایک آدھ میٹنگ ہوتی ہے ، شام کو اخبارات کے لیے پریس ریلیز جاری کردی جاتی ہے ، یہ کیا جائے گا وہ کیا جائے اور ٹائیں ٹائیں فش۔ اس طرح چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کے باعث تمام بلدیاتی امور درہم برہم ہیں ۔ منتخب نمایندوں کے آنے اور مزید متوقع عدالتی معاملات تک کراچی کے شہری اپنے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے سندھ حکومت کی طرف آس لگائیں ۔

شبیر احمد ارمان


Post a Comment

0 Comments