Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کا کالا پانی

اب جبکہ کراچی کے تمام مشتبہ غدارانِ وطن زندہ باد کے نعرے لگا چکے، کچھ
دل سے، کچھ گن پوائنٹ پر، کچھ بدلتا موسم دیکھ کر، کچھ قید کے ڈر سے، کچھ کیمرے کے خوف سے۔ اب کہ پہلے سے جِلا وطنوں کو دیس سے نکال دیا جا چکا، کراچی والے اہل وطن سے شکوہ کر چکے کہ ہمارا درد کوئی نہیں سمجھتا اور اہل وطن ایک بار پھر طعنہ دے چکے کہ تمہیں اپنے قاتلوں اور بھتہ خوروں سے پیار ہے۔ اب کہ قربانی کے اِس موسم میں ایم کیو ایم سب سے بڑی قربانی دے چکی یعنی کھالوں کے اپنے حق سے دست بردار ہو چکی تو کیا اجازت ہے کہ شہر کراچی کے بارے میں چند ایسی باتوں کا ذکر کیا جائے جن کا ذکر نہ جوائنٹ انوسٹی گیشن کی رپورٹوں میں ملتا ہے نہ کراچی کے موسمی مرثیہ خوانوں کے مرثیوں میں۔

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب نہ رینجرز کا کوئی بہادر افسر دے سکتا ہے نہ اُس افسر سے سہما ہوا کوئی کائیاں پولیس افسر لیکن آئندہ آپ کراچی کے حالات کے بارے میں متفکر ہوں تو مندرجہ بالا حقائق، واقعات اور حادثاتی شواہد کو ذہن میں رکھیے گا۔
1: کراچی دنیا میں پشتونوں کا سب سے بڑا شہر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اِتنے پشتون پشاور یا کابل میں نہیں رہتے جتنے کراچی میں رہتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں جہاں جہاں جنگ چھڑی یا اُس پر مسلط کی گئی ، جہاں لوگ بےگھر ہوئے اُن کی اب شہری نسل کراچی میں جوان ہو رہی ہے اور شمال سے ایک نئی نسل کی آمد کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ یقیناً اِن میں سے بہت سی آبادی پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرف بھی ہجرت کر گئی ہو گی لیکن زیادہ تر کی منزل کراچی ہی رہی ہے۔

ایک بزرگ پشتون سیاستدان کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ پٹھان کا ٹرک پشاور سے چلے اور کراچی تک پہنچے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹرک راستے میں کیوں نہیں رُکتا؟ پنجاب میں فیصل آباد ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ جیسے شہر ہیں جہاں روزگار کے مواقع موجود ہیں فاصلہ بھی کم ہے۔ کراچی والے کہیں گے کہ کراچی کا دِل بڑا ہے لیکن کسی سائنسی ریسرچ نے یہ ثابت نہیں کیا کہ کراچی اور گوجرانوالہ کے رہنے والوں کے دل کے سائز میں کوئی خاص فرق ہے۔ بات صرف اِتنی ہے کہ کراچی کی معیشت بہت زیادہ بڑی ہے، پوٹینشل اُس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔

ایک خاندان آتا ہے تو اُس کے پیچھے دس خاندان اور آتے ہیں۔ بعض دفعہ اپنا بچا کھچا قبائلی نظام بھی ساتھ لاتے ہیں لیکن کراچی پہنچ کر اگر ہمت کریں اور قسمت ساتھ دے تو قبیلہ چھوڑ کر اپنا قبیلہ بھی بنا لیتے ہیں۔  ٹرک چلانے والا بھی بیٹی کو ڈاکٹر بنا سکتا ہے۔ اپنے آبائی گھر میں سرداری سے محروم ہونے والا بھی رکشہ چلا کر گزارا کر سکتا ہے۔ کراچی اُن اُجڑے ہوئے لوگوں کے لیے ایک نئی زندگی کی اُمید ہے جِن کے گھر تو ہماری ریاست نے تباہ کر دیے لیکن اُن کے لیے کوئی ریفیوجی کیمپ بنانا بھول گئی اور ویسے بھی اگر کراچی موجود ہے تو کِسی کا دماغ خراب ہے کہ حکومت کی خیرات پر کِسی خیمے میں رہے۔

2: کراچی کا دِل بڑا ہونے کی افواہ سرائیکی علاقوں تک بھی پہنچی اور اب محتاط اور غیرمحتاط اندازوں کے مطابق کراچی سرائیکیوں کا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔
وہاں اگرچہ بظاہر کوئی جنگ نہیں ہوئی لیکن زراعت کے شعبے میں ایسا زوال آیا ہے کہ ہاری ، دہاڑی دار بلکہ بعض چھوٹے رقبے کے مالک زمیندار بھی اپنے گھروں کو چھوڑ کر کراچی آنے پر مجبور ہوئے۔ چونکہ آبادی کی گِنتی ایک حساس مسئلہ ہے (یعنی ہمیں اِس بابت بھی ڈر لگتا ہے کہ ہماری تعداد کِتنی ہے اور ہم میں سے کون کہاں سے آیا ہے) اِس لیے کوئی وثوق سے نہیں بتا سکتا کہ کراچی میں کتنے پرانے مہاجر ہیں اور کتنے نئے لیکن یہ بات طے ہے کہ اہل لاہور کی میزبانی کے چرچے یا تو پاکستان کے جنگ زدہ علاقوں تک پہنچے نہیں یا مجبور لوگوں کو اُن پر یقین نہیں آیا۔ 

3: باقی ملک کی طرح کراچی میں بھی کئی لوگ ایم کیو ایم کو تمام مسائل کی جڑ اور رینجرز ہر مرض کی دوا لگتے ہیں لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ کراچی میں رینجرز ایم کیو ایم کے قیام کے چار پانچ سال بعد ہی آ گئی تھی۔ چور سپاہی کا یہ کھیل اِتنا پرانا ہو چکا ہے کہ اکثر لوگ کنفیوز ہو جاتے ہیں کہ چور کون ہے اور سپاہی کون۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کراچی شہر کہ اندر اِتنے شہر ہیں کہ اب لوگوں نے اُن کے نئے نام بھی رکھنے چھوڑ دیے ہیں۔

4: میں نے کراچی پریس کلب کے باہر ایک خاندان کو احتجاجی مظاہرہ کرتے دیکھا۔ لڑکی اغوا ہو گئی ہے ، تھانیدار لڑکے سے مِلا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا کہاں سے آئے ہوئے جواب مِلا میانوالی سے۔ میں نے پوچھا اغوا میانوالی میں مظاہرہ کراچی میں۔ آگے سے ڈانٹ پڑی وہ والا میانوالی نہیں کراچی والا میانوالی جِس کا نام ہے نیو میانوالی۔ نیا پاکستان تو جب بنے گا تو بنے گا، کراچی میں بہرحال ایک نیو میانوالی وجود میں آ چکا ہے اور روزگار کی تلاش لوگوں کو پرانے میانوالی سے نئے میانوالی تک لاتی رہے گی۔ 

5: روزگار کی تلاش کراچی کے پرانے باسیوں کو بھی کراچی کے ایسے حصوں میں لے جاتی ہے جو ابھی کراچی بن رہے ہیں جن کے نام ابھی رکھے جا رہے ہیں۔ ایک انجینیئر دوست کو نئی نوکری مِلی۔ شکایت کر رہے تھے کہ سفر بہت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہاں نوکری ملی، بولے کالا پانی۔ میں نے کہا کیا واقعی یہ کِسی جگہ کا نام ہے۔ بولے جی ہاں روز بس پر بیٹھ کر جاتا ہوں کالا پانی بس سٹاپ پر اُترتا ہوں۔ اور اِس جگہ کا نام کالا پانی کیوں ہے؟ اِس لیے کہ یہاں سے بہت دور ہے۔ یوں لگتا ہے کہ باقی پاکستان کی تخیل میں کراچی وہ کالا پانی ہے جہاں سے کوئی اچھی خبر نہیں آتی لیکن جب روٹی روزی کا مسئلہ ہو تو ہم سب اِسی سٹاپ پر آ کر اُترتے ہیں۔

محمد حنیف
مصنف اور تجزیہ نگار

Post a Comment

0 Comments