Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے امن کو پائیدار کیسے بنایا جائے؟

موجودہ حکومت اور رینجرزکی مشترکہ کوششوں سے شہرکراچی میں جو امن
وامان قائم کیا گیا ہے کیا وہ آیندہ آنے والے دنوں میں بھی بہتراور مستحکم ہو پائیگا۔یہ سوال ہر محب وطن اور فکر مند پاکستانی کے ذہن میں بار بار اُٹھتا رہتا ہے۔ ہر شخص کو یہ فکر اور پریشانی لاحق ہے کہ کہیں کراچی پھر اُسی طرح کے خلفشاراورانتشار کا شکار تو نہیں ہو جائے گا جیسے وہ آج سے تین سال قبل ہواکرتا تھا۔ بڑے پیمانے پر بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ،اغوا براے تاوان اورآئے دن کی ہڑتالیں اور خونریز احتجاج ایک بارپھرکہیں اِس شہرکے باسیوں کا مقدرتونہیں بن جائیں گے۔

ایم کیوایم نے بظاہر اپنے قائد سے جوعلیحدگی اورلاتعلقی ظاہرکی ہے وہ کہیں عارضی اورجزوقتی تو نہیں ہے۔ مستقبل قریب میں وہ اپنے اُس بانی اور قائدِ محترم سے جسے وہ اپنا رہبرو رہنما مانتی رہی ہے اور جس کی ہر بات پرلبیک کہتے ہوئے مارنے اورمرنے پر تل جاتی رہی ہے کہیں پھر سے تعلق جوڑکر عہدو پیمان نبھانا تو شروع نہیں کردے گی۔ متحدہ کو اپنی اِس لاتعلقی کوکس طرح معتبر اور قابل یقین بنانا ہوگا۔ یہ اُس کی موجودہ قیادت کے لیے بہت اہم سوال ہے۔ وہ یہ تسلیم کرچکی ہے کہ متحدہ کے اندر ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اُسے ایک عسکریت پسند جماعت کی حیثیت سے بدنام کروانے میں اہم رول ادا کرتے رہے ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ متحدہ کے سارے کے سارے لوگ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہے ہوں لیکن یہ اِس نئی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اپنے ایسے کارکنوں کو بچانے اور چھپانے کی بجائے اُنہیں قوم کے سامنے لائے یا لاء فورس ایجنسیوں کے سپرد کرے اور ایک صاف ستھری سیاسی اور جمہوری جماعت کے طور پر اپنے نئے سفر کا آغاز کرے ، وہ اگر اپنے جرائم پیشہ کارکنوں کو تحفظ دینے کی کوششیں بدستورکرے گی تو پھر اُس کا امیج کوبہتر بنانا قطعاً ممکن نہ ہوگا، ڈاکٹر فاروق ستارکی قیادت میں اِس نئی ایم کیو ایم نے ویسے تو دہشت گرد سرگرمیوں سے اپنی جماعت کو دور رکھنے کا عندیہ دیا ہے لیکن اِس جانب ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا ہے اور وہ مسلسل اپنی سابقہ پالیسیوں اورحکمتِ عملیوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ مزید برآں اُنہوں نے ابھی تک اپنے کسی مطلوب ملزم کو قانون کے حوالے کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

پچھلے دنوں ایم کیوایم کے ایک مبینہ دہشتگرد اورخطرناک ملزم رئیس ماما کی گرفتاری کے لیے جب ہماری پولیس نے کارروائی کرنا چاہی توساری کی ساری قیادت قانون نافذ کرنیوالوں اداروں سے مزاحمت کرنے کھل کر سامنے آگئی۔ اِسی دوران ملیرکے ایک ایس ایس پی راؤ انور نے سندھ اسمبلی کے لیڈر آف اپوزیشن خواجہ اظہار الحسن کوکچھ نئے اور پرانے الزامات کے تحت گرفتارکر لیا۔ یہ گرفتاری چونکہ کسی عدالتی وارنٹ اور ایف آئی آر کے بغیر ہوئی تھی لہٰذا چند گھنٹوں بعد اُنہیں مجبوراً چھوڑنا ہی پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ کی جس قیادت نے اپنے قائد اور لندن رابطہ کمیٹی سے خود کو الگ کرلیا تھا۔ آج وہی لندن والی رابطہ کمیٹی کے متعدد ارکان واسع جلیل، ندیم نصرت اورمصطفیٰ عزیزآبادی مسلسل خواجہ اظہار الحسن کی حمایت میں بیانات دیے جارہے تھے۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر ایم کیو ایم کی پاکستان والی رابطہ کمیٹی نے خود کو لندن والی رابطہ کمیٹی سے مکمل طور پر علیحدہ کرلیا ہے تو پھر لندن رابطہ کمیٹی کے یہ ارکان آج بھی متحدہ کے اِن لوگوں کی حمایت میں اتنے متحرک اورسرگرم کیوں ہیں۔ اِن تمام باتوں سے تو یہی نتیجہ اُخذ کیا جاسکتا ہے کہ متحدہ کا اپنے لندن سیکریٹریٹ سے علیحدگی اور لاتعلقی کااعلان دراصل وقت اور حالات کی مجبوری کے تحت ہے۔ اندرونِ خانہ آج بھی ایم کیوایم الطاف حسین کی طلسماتی شخصیت ہی کواپنا لیڈراور رہنما مانتی ہے۔

فاروق ستارکی لیڈر شپ میں بننے والی اِس نئی ایم کیو ایم کی کوئی قانونی اور دستوری حیثیت ہے ہی نہیں۔ اُسے جب سازگار حالات میسر ہونگے وہ ایک بار پھر اپنی اصل شکل میں دوبارہ متحرک اور فعال ہوجائے گی۔ اُس کے روپوش کارکن پہلے کی طرح اپنے قائدکے ہر حکم کے تعمیل بجا لارہے ہونگے۔ جو لیڈرآج خود ساختہ جلا وطنی اختیارکیے ہوئے ہیں وہ واپس آکر الطاف حسین کو پھر اپنی محبت و یگانت اور وفاداری کا یقین دلا رہے ہونگے۔ متحدہ کا موجودہ سیٹ اپ ایک عارضی انتظام ہے جو حالات وواقعات اور جبروکراہ کے تحت بنایا گیا ہے۔
اب یہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ذمے داری ہے کہ کراچی شہرکے امن کے لیے جس کام کا بیڑہ اُنہوں نے اُٹھایا ہے وہ اُسے مکمل کرکے ہی دم لیں۔ اگر اِس مشن کا نامکمل اور ادھورا چھوڑ دیا گیا تو پھراِس شہرکی اِس سے بڑی بدقسمتی کوئی اور نہیں ہوگی۔ دورِ ماضی میں بھی کئی بار آپریشن کیے گئے لیکن پھر سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں کی وجہ سے اُنہیں معطل یا منسوخ ہی کردیا گیاجس کا خمیازہ اِس شہر نے اپنے پچیس تیس سالوں کی تباہی و بربادی کی صورت میں برداشت کیا ہے۔ اب اگر خدا خدا کرکے یہاں کچھ امن وامان قائم ہوا ہے تو اِسے دوام اور استحکام بخشنے کے لیے ابھی اور بھی جتن کرنے ہوں گے۔ شہر میں جب تک دہشت پسند عناصر کا مکمل خاتمہ نہ ہوجائے یہ آپریشن جاری رہنا چاہیے۔

کراچی میں امن کے قیام کی ذمے داری جتنی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے اُتنی ہی یہاں کی اُن سیاسی جماعتوں کی بھی ہے جنھیں کراچی کے لوگ اپنا مینڈیٹ تفویض کرتے ہیں۔ کراچی کے لوگ امن وامان سے رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ ترقی وخوشحالی کے اُتنے ہی خواہاں ہیں جتنے اِس ملک کے دیگر علاقے کے لوگ۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ یہاں آئے دن فساد اورہنگامے ہوتے رہیں۔ گاڑیاں اور املاک نذرِ آتش ہوتی رہے، معصوم اور بے گناہ لوگ قتل ہوتے رہیں۔ بزنس اورکاروبار تباہ ہوتا رہے۔ پیسوں کے لیے بچے اور لوگ اغواء ہوتے رہیں۔ لہذا یہ ہم سب کا قومی اور ملی فریضہ ہے کہ سب مل جل کر اِس شہر کو امن کاگہوارہ بنادیں۔ رینجرز اوردیگر فورسز اپنا کام بطریقِ احسن سرانجام دے رہے ہیں۔

اُنہیں ہماری مدد اور تعاون درکار ہے۔ اُنہیں یہ مشن پورا کرکے واپس چلے جانا ہے۔ اُن سے زیادہ ہمیں اپنے اِس شہرکی فکر کرنا ہوگی۔ ہمیں یہاں جینا اورمرنا ہے۔ ہماری روٹی روزی اِسی شہر سے وابستہ ہے۔ یہ ہمارے بچوں کی آماجگاہ ہے۔ اِس کی حفاظت ہم نہیں کریں گے توکون کرے گا۔ یہ شہر جلتا رہے اور ہم سکون سے بیٹھے رہیں یہ ممکن نہیں ہے۔ ہمیں اپنے شہر کو اُس کی شناخت واپس لوٹانا ہوگی۔ یہ شہر کبھی سارے پاکستان کی’’ ماں‘‘ کہلایاکرتا تھا۔ سب کو اپنی آ غوش میں لے کرامن وآشتی اور روزگار فراہم کرتا تھا۔ یہاں کوئی لسانی وعلاقائی تعصب اور منافرت نہ تھی ۔ پنجابی، پٹھان، بلوچی اورسندھی سب مل جل کررہا کرتے تھے۔ ہمیں اِسے اِس کا ماضی لوٹانا ہوگا۔ اِسے پھر سے محبت وامن کا شہر بنانا ہوگا۔

جس دن ہم نے یہ تہیہ کرلیا یہ شہر جنت بن جائے گا۔ پھر ہمیں کسی آپریشن کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ ہمارا ازلی دشمن ہمیں گروہوں اور ٹکڑیوں میں تقسیم کردینا چاہتا ہے۔ وہ ایک سازش کے تحت ہمیں تباہ وبرباد کردینا چاہتا ہے۔ ہمیں اپنے اندر سے دشمن کے اُن ایجنٹوں کو باہر نکالنا ہوگاجو دوست بن کر ہم سے دشمنی کررہے ہیں۔ جو پاکستان کے وجود کو مٹانے کے ہی درپے ہیں۔ ہمیں ایسے دوست نما دشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ یہ متحدہ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو نکال کر قانون کے حوالے کریں اور خلوصِ نیت سے ایک صاف ستھری سیاست کاآغازکریں۔

ڈاکٹر منصور نورانی

Post a Comment

0 Comments