Ticker

6/recent/ticker-posts

چینی سرمایہ کاروں کی کراچی میں صنعتی پلاٹ خریدنے میں عدم دلچسپی

چینی سرمایہ کاروں نے کراچی کے پرانے صنعتی علاقوں بشمول سندھ انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ اسٹیٹ (سائٹ) میں صنعتی زمین خریدنے میں عدم دلچسپ کا اظہار کیا ہے۔ تاہم چینی سرمایہ کار آٹو انڈسٹریز کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، تاہم وہ دیگر شعبوں میں مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے کے خواہش مند نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں مارکیٹس پر نظر رکھنے والے اداروں کے مطابق کراچی میں صنعتی پلاٹس کی قیمت اُن عوامل میں سے ایک ہے جو چینی سرمایہ کاروں کی شہر میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ چینی، آٹو انڈسٹری خصوصاَ چھوٹی کمرشل گاڑیوں اور کاروں کی تیاری کے شعبے میں کافی متحرک ہیں۔
تقریباً 5 چینی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر گرین فیلڈ سرمایہ کاری کی غرض سے پاکستان میں پلانٹ لگانے کے لیے درخواست دی ہے، جن میں سے 3 پلانٹس لاہور میں جبکہ 2 کراچی میں لگائے جائیں گے۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایسیسریز ایسوسی ایشن (پاپم) کے چیئرمین مشہود علی خان کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کے ارکان چینی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے معاہدے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں پاکستان میں مقامی شراکت داروں کو شامل کیے بغیر موٹر سائیکل کے پارٹس تیار کرنے میں مصروف ہیں، جس پر انھیں تشویش ہے جبکہ اس پیش رفت کے حوالے سے حکومت پاکستان کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’ہم خوش ہوں گے اگر چینی کمپنیاں ہمیں 10 سے 20 فیصد کا پارٹنر بنائیں جس سے ملک میں ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے'۔

سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے چیئرمین اسد نثار برخرداریہ نے بتایا کہ چینی سرمایہ کار سائٹ کے علاقے میں سستی زمین کا حصول چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں کیونکہ اس علاقے میں ایک ایکڑ پلاٹ کی قیمت 15 کروڑ سے 20 کروڑ روپے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چینی کمپنیاں پاکستان میں کارخانے لگانے کے بجائے ٹائر، صارفین کی اشیاء اور پلاسٹک کی اشیاء کی تجارت میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں پورٹ قاسم انڈسٹریل ایریا کا رخ کر رہی ہیں جہاں کی قیمتیں سائٹ اور کورنگی انڈسٹریل ایریا کی قیمتوں سے نسبتاً کم ہیں۔

اسد نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ سائٹ کے علاقے میں چینی سرمایہ کار پچھلے کئی دہائیوں سے مختلف کاروبار کے ساتھ موجود ہیں جبکہ کراچی واٹر بورڈ کے ’کے ٹو‘ اور ’کے تھری‘ منصوبوں میں بھی چینی نگراں عملہ اور ٹھیکیدار نمایاں نظر آتے ہیں۔ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کے اے ٹی آئی) کے چیئرمین مسعود نقی نے بھی اس بات کی توثیق کی کہ چینی سرمایہ کاروں نے اپنے آپ کو کورنگی انڈسٹریل ایریا سے دور رکھا ہوا ہے جہاں پر ایک ایکڑ پلاٹ کی قیمت 20 کروڑسے 30 کروڑ روپے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چینی پاکستان میں ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ، آر او پلانٹ، سیوریج کے نظام، پانی صاف کرنے کے نظام کے علاوہ دیگر مکینیکل اور انجینئرنگ منصوبے لگانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

اسی دوران پاکستان اپیرل فورم (پی اے ایف) کے چیئرمین جاوید بلوانی نے کہا ’کسی بھی چینی کمپنی نے تجارت اور کاروباری معاہدے کے لیے ہمارے فورم سے رابطہ نہیں کیا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی ملبوسات کے سستے ہونے کے باوجود وہ پاکستان اور چین کے درمیان ملبوسات کے شعبے میں مشترکہ منصوبوں کا روشن مستقبل نہیں دیکھتے۔ اس حوالے سے ایف بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (ایف بی اے ٹی آئی) کے چیئر مین جاوید سلیمان نے کہا کہ چینی کونسل جنرل سے دو مرتبہ ملاقات کرنے کے باوجود بھی کسی چینی کمپنی نے ہمارے علاقوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جبکہ نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (این کے اے ٹی آئی) کے چیئر مین اختر اسمٰعیل نے بھی ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا۔
 

Post a Comment

0 Comments