سرکاری اداروں کے فنڈ سے تعمیر کئے گئے کراچی کے 90 فیصد فلائی اوور کے ایکسپنشن جوائنٹ اکھڑ گئے، چڑھائی اور اترائی کے مقامات پر سڑکیں بیٹھ گئیں، غیر معیاری ایکسپنشن جوائنٹ لگائے جانے سے پلوں کے اسٹرکچر کی زندگی کم ہو رہی ہے اور ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہو تی ہے۔ اکثر کنٹریکٹرز انھیں کوریا اور چین سے درآمد شدہ کہہ کر کر لگاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصل آباد میں بننے والے جوا ئنٹ سے بھی کم تر کوالٹی کے ہوتے ہیں، سستے ترین منگوا کر لگائے جانے کی وجہ سے یہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہی کام چھوڑ جاتے ہیں اس وقت شہر کا شائد ہی ایسا کوئی فلائی اوور ہو جس پر کوئی انسپکشن جوائینٹ اکھڑا ہوا نہ ملے یا گاڑیاں گزرتے ہوئے جمپ نہ لگاتی ہوں جبکہ ملک کے اندر دیگر بڑے شہروں میں تعمیر کئے جا نے والے فلائی اوورز پر یہ صورتحال نظر نہیں آتی ہے۔
نئے تعمیر ہونے والے پلوں جن میں شاہراہ فیصل پر چاروں پل اپنی علیحدہ علیحدہ خصو صیا ت رکھتے ہیں۔ ان کے ڈیزائن انٹرنیشل ٹریفک رولز کے مطابق ڈیزائن نہ ہونے کی وجہ سے اپنی خوبصورتی بھی کھو بیٹھے ہیں، تعمیر میں معیار کا خیال نہ رکھنے میں کنٹریکٹرز اور انجینئرز دونوں ہی غفلت اور لاپرواہی کے ذمہ دار ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ورنہ پل تعمیر ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی ایکسپنشن جوائینٹ اکھڑ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے زیادہ تر پل کےایم سی ، سٹی گورنمنٹ اور سندھ حکومت نے تعمیر کئے ہیں لیکن آج تک ان اداروں کی جانب سے نوٹس نہیں لیا گیا اور طویل عرصے یہ نقص چلا آرہا ہے.
جبکہ ا ن پلوں کی تعمیر کی نگرانی پر معمور انجینئرر آج بھی مذکورہ اداروں میں موجود ہیں ان پلوں کے ریمپ (چڑھائی اترائی) بھی بیٹھ جاتے ہیں ان میں مٹی کی بھرائی کر کے قومی دولت کو لٹایا جاتا ہے جبکہ ان پلوں کے آر سی سی اسٹرکچر کو ایک خاص سلوپ تک لانا چاہئے ، جدید دور میں جدید ڈیزائن کی تعمیرات کرائی جانی چاہئے دنیا کہاں پہنچ چکی ہے ہمارے شہر کے انجینئرز اور سرکاری ادارے ان پلوں کے سلوپز میں بھرائی کی جانے والی مٹی کی کمپکشن معیار کے مطابق نہیں کروا سکتے جسکی وجہ سے ان اکثر نو تعمیر پلوں کے ریمپ بیٹھ گئے ہیں ۔
اس غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے اکثر پلوں پر چھوٹے بڑے حادثات رونماء ہوتے رہتے ہیں جس میں یونیورسٹی روڑ پر حسن اسکوائر کا پل، ابوالحسن اصفہانی روڑ اور یونیورسٹی روڑ پر برج، N-5 پر ملیر ہالٹ پر تعمیر کئے جانے والے پل پر مٹی سے بھرے گئے سلوپ اور اسکے گارڈر اتنے جُھول گئے ہیں کہ گاڑیاں ہر گارڈر پر جمپ کھاتی ہوئی گزرتی ہیں اس پر بھاری گاڑیوں کا گزرنا ان پلوں کی عمر کو مزید کم کر رہا ہے دوسری جانب محکموں اور کنٹریکٹرز کی صلاحتیوں سے آگاہ کرتا ہے ملیر پندرہ پر زیر تعمیر پل جسکا ایک حصہ ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا ہے ۔ اس میں بھی اسی طرح کے نقص موجود ہیں اسکی تعمیر یہاں کے رہایشیوں کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں۔
جس نے زیر تعمیر ہوتے ہوئے بھی شکایات پیدا کردی ہیں کراچی کے نئے اور پرانے پلوں کی اکثریت میں ٹیکنیکل خرابیاں ہیں جس کا شہری روز مشاہدہ کر تے ہیں ان میں آئی سی آئی برج، بلوچ کالونی پل، گلبائی پل، کالاپل، شاہرہ فیصل پر ڈرگ روڈ، اسٹار گیٹ، ملیر کینٹ (ملیر ہالٹ) پر ماڈل کالونی کے جنکشن پر، ابوالحسن اصفہانی روڑ سے یونیورسٹی روڑ پر سفاری پارک کے مقام پر، ملینیم مال ، ناظم آباد اور لیاقت آباد کے تینوں انڈرپاس کی حالت زار سب کے سامنے ہے جو ٹریفک کی روانی کو متاثر کر تے ہیں ان پلوں سے چھوٹی گاڑیو ں کو شدید نقصان پہنچتا ہے اکثر حادثات سے شہری انفرادی طور سے نمٹ کر بغیر کارروائی چلے جاتے ہیں۔
0 Comments