شہرکراچی میں چھوٹے بڑے پارکوں کی تعداد 1600 کے قریب ہے جب کہ بڑے پارکوں کی تعداد دو درجن ہے جن میں سے کچھ ماڈل پارک بھی بنائے گئے تھے، جن کی حالت اب اچھی نہیں رہی ۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی غفلت سے شہر میں درجنوں پارکوں پر قبضے کیے گئے ۔ لینڈ مافیا نے ان پارکوں کی جگہ پر رہائش گاہیں اور شادی ہال تک تعمیرکیے تھے، اس دوران صوبائی اور مقامی حکومتیں خاموش تماشائی بنیں رہیں ۔ عوامی شکایات پر عدالتی حکم کے تحت ان پارکوں کی بازیابی کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ساتھ ہی ان کی بحالی کے لیے پارکوں کے اطراف سے تجاوزات ختم کرنے کا بھی آغاز کیا گیا۔
انھی پارکوں میں سے ایک جہانگیر پارک بھی ہے جوعرصہ دراز سے ویران تھا اب عدالتی حکم کے تحت اس کی بحالی کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، اب صرف اس کا افتتاح ہونا باقی ہے ۔ سندھ حکومت نے پونے پانچ ایکڑ رقبے پر مشتمل جہانگیر پارک کی تعمیر نو کا کام مارچ 2017ء میں شروع کیا اور اگست کے آخر میں اسے مکمل کیا گیا ، سندھ حکومت نے منصوبے کے افتتاح کی تاریخ 14 اگست 2017ء رکھی تھی تاہم منصوبے کا کچھ تعمیراتی کام جاری تھا جس کی وجہ سے مقررہ مدت میں افتتاح نہ ہو سکا، بعد ازاں منصوبہ تکمیل کو پہنچا تو وزیر اعلیٰ سندھ کے مصروف شیڈول کی وجہ سے افتتاح تاخیر کا شکار ہے اور عوام اس تاریخی جہانگیر پارک میں جانے سے محروم ہیں۔
واضح رہے کہ جہانگیر پارک کو 20 کروڑ روپے کی لاگت سے عالمی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے ، پارک میں 17 ڈائنا سار کے مجسمے نصب کیے گئے ہیں ، پرندوں کے لیے خصوصی برڈ ایوری بنائی گئی ہے جس میں مور اور دیگر پرندے رکھے گئے ہیں ۔ پارک میں ایم پی تھیٹر ، لائبریری ، جوگنگ ٹریک سمیت دیگر سہولتیں بھی فراہم کی گئی ہیں ۔ پارک کے چاروں اطراف باونڈری وال اور اس کی تاریخی حیثیت کو بحال رکھنے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔ اس پارک میں ایک سو سالہ قدیمی درختوں سمیت کسی بھی درخت کی کٹائی نہیں کی گئی ہے پارک کو اس اندازسے بنایا گیا ہے کہ تمام درخت اپنی جگہ موجود ہیں ۔ علاوہ ازیں ایمپریس مارکیٹ اور قرب و جوار میں 100 سال قبل کے انفرا اسٹرکچر تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس پر 95 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے جس میں سے 20 کروڑ روپے تاریخی جہانگیر پارک کی ازسر نو تعمیر کا خرچ بھی شامل ہے۔
ایمپریس مارکیٹ اور قرب وجوار میں جس میں مینس فلڈ اسٹریٹ ، میرکرم علی روڈ ، پریڈی اسٹریٹ تا سرورشہید روڈ ، راجہ غضنفرعلی روڈ ، داؤد پوتہ روڈ ، سرور شہید روڈ اور اطراف کی تمام سڑکوں پر ازسر نو پانی ، سیوریج کی لائنوں کی تنصیب اور برساتی نالہ تعمیرکر دیا گیا ہے، اب ان سڑکوں کی جدید طریقے سے ازسر نو استرکاری کی گئی ہے ۔ جہانگیر پارک کراچی کے قدیم اور تاریخی پارکوں میں شمار ہوتا ہے یہ پارک 1950ء کی دہائی سے قائم ہے اور 50ء کی دہائی میں محرم الحرام کی مجلس اس پارک میں ہوتی تھی بعد ازاں اس مجلس کا اہتمام نشتر پارک میں کیا جانے لگا ۔ شہر کراچی کے مرکز صدر میں ہونے کی وجہ سے اس پارک کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ، شہر بھر سے خریداری کے لیے صدر ایمپریس مارکیٹ آنے والے شہری اس پارک کا رخ کرتے تھے اور اس پارک میں وقت گزارتے تھے لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی نے بالخصوص سٹی حکومت نے اس پارک کی تزئین وآرائش کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے یہ پارک اجڑ گیا، اس میں شہریوں کے لیے کوئی سہولت موجود نہ رہی ۔
وقت کے ساتھ ساتھ کراچی کا یہ قدیم اور تاریخی جہانگیر پارک کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ، مختلف علاقوں سے کچرا لا کر پارک میں ڈالا جاتا اور پھر اس کو آگ لگا دی جاتی ، پارک میں خانہ بدوشوں نے بھی ڈیرے ڈال دیے تھے اور پورے پارک میں جگہ جگہ خانہ بدوشوں کے بستر لگے نظر آتے تھے ۔ پارک مکمل طور پر اجڑ چکا تھا اور گھاس بھی غائب ہوگئی تھی اور پارک میں ریت اڑتی رہتی تھی ، جہانگیر پارک کو منفی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ جرائم پیشہ افراد اور منشیات کے عادی افراد اس پارک میں نظر آتے تھے۔ پارک کے اندر پختہ تجاوزات قائم کیے گئے تھے ۔ جہانگیر پارک کی بحالی کے لیے مختلف شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کیں اور عدالتی حکم کے تحت اس تاریخی جہانگیر پارک میں قائم ناظم کے دفتر، رہائشی کوارٹرز سمیت دیگر تعمیرات کو مہندم کیا گیا اور تجاوزات ہٹا دیے گئے تھے ۔
غیر سرکاری تنظیم راہ راست ٹرسٹ کے آغا سیدعطا اللہ شاہ نے عدالتی درخواست میں موقف اختیارکیا کہ کے ایم سی نے 1976 میں پارک کی زمین پر کیبن اور دیگر تجاوزات کے لیے لائسنس جاری کر دیے تھے جب کہ پارک کے احاطے میں ناظم کے دفترکے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کے لیے کوارٹرز بھی تعمیر کیے گئے ہیں ۔ مولانا اصغر درس کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ جہانگیر پارک تاریخی اہمیت کا حامل ہے مگر کئی برسوں سے حکومت کی عدم توجہی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ انسداد تجاوزات نے سندھ ہائی کورٹ کے احکام پر عمل درآمد کرتے ہوئے جہانگیر پارک صدر میں بنائے گئے، پانچ رہائشی مکانات کو مکمل طور پر مسمار کر دیا، اس موقعے پر پریڈی تھانے کی پولیس بھی موجود تھی ۔
جہانگیر پارک میں رہائش پذیر کے ایم سی ملازمین کو یہاں سے منتقل کرنے سے قبل کورنگی نمبر 4 میں ان کے لیے متبادل رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ تجاوزات مسمارکرنے کے بعد کافی وقت تک ملبہ پارک میں پڑا رہا، جسے اٹھوانے کے لیے شہریوں کو سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑا تھا، اس طرح عدالت نے ملبہ ہٹانے پر بھی احکامات جاری کیے ۔ عدالت کے حکم پر بلدیہ عظمیٰ کراچی نے 19جنوری 2015 کو جہانگیر پارک کے اندر سے تجاوزات کا خاتمہ کیا تھا لیکن اس کے بعد پارک میں تجاوزات دوبارہ قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ، جنھیں پھر ہٹا دیا گیا تھا۔
اس دوران کراچی کے شہریوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا تھا کہ شہر کے پارکوں کی حالت زار پر توجہ دی جائے ، پارکوں میں سہولتیں فراہم کی جائیں، پارکوں کو جرائم پیشہ افراد اور منشیات کے عادی افراد سے خالی کرایا جائے اور پارکوں میں کچرا ڈالنے پر پابندی عائد کی جائے ، پارکوں کو 24 گھنٹے کھلا نہ رکھا جائے مخصوص اوقات میں ہی پارک کو کھولا جائے اور خانہ بدوشوں کو پارکوں میں داخل نہ ہونے دیا جائے ۔ بعد ازاں سندھ حکومت نے جہانگیر پارک سے تجاوزات کا خاتمہ کیا اور چاردیواری قائم کر کے نا پسندیدہ لوگوں کی آمد ورفت کو روک دیا ۔ آخر میں تجویز دی جاتی ہے کہ جہانگیر پارک کو فیملی پارک کا درجہ دیا جائے تاکہ صدر بازار میں خریداری کرنے والی فیملی کو کچھ وقت آرام کرنے کے لیے محفوظ جگہ میسر آسکے ۔
0 Comments