Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں پانی بجلی کا بحران سنگین کیوں؟

عدالتیں کچھ بھی حکم جاری کر دیں، اسمبلیاں اور ادارے کوئی فیصلہ کر دیں، وزیر اعلیٰ اور وزرا کچھ بھی یقین دلا دیں، خرابیاں اپنی جگہ رہتی ہیں بلکہ پہلے سے بڑھ جاتی ہیں۔ کراچی میں بجلی اور پانی کے بحران کے حوالے سے احتجاج کیا کے الیکٹرک کے ہیڈ آفس پر دھرنا دیا واٹر بورڈ کے ذمے داران سے ملاقات کی، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، وزیراعلیٰ، گورنر، نیپرا سب سے ملاقات کی۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر واٹر کمیشن بنایا گیا اور نہ جانے کیا کیا احکامات آگئے۔ گورنر سندھ کے 15 دن شروع ہی نہیں ہو سکے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اچھے برے حالات میں جاری رہی بلکہ کے الیکٹرک کو فائدہ ہی ہو گیا۔ 

اگر موجودہ انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے وقت سے دیکھا جائے تو پہلے انہوں نے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو برطرف نہ کرنے کے عوض ٹیرف میں اضافے کی اجازت مانگی ان کو یہ اجازت نیپرا کی ملی بھگت سے مل گئی، پھر ادارے نے ان ملازمین کو سرپلس پول میں ڈال کر ان سے زبردستی استعفے لے لیے اور آج تک ان ساڑھے چار ہزار ملازمین کو نہ نکالنے کے عوض ٹیرف میں اضافی رقم وصول کر رہے ہیں۔ پھر نیپرا میں شکایت گئی اور کے الیکٹرک کا کیس سامنے آیا۔ نیپرا نے تھوڑی بہت تنبیہ کی اس کے بعد کے الیکٹرک نے گیس میں کمی کا رونا رونا شروع کر دیا۔

عدالت عظمیٰ نے کے الیکٹرک کو طلب کر لیا لوگ بڑے خوش ہوئے کہ اب بجلی کی فراہمی ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن کے الیکٹرک کے منتظم اعلیٰ نے عدالت میں اپنی نا اہلی کا اعتراف کیا اور گیس کی قلت کا رونا رویا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے زبانی حکم پر کے الیکٹرک کو اضافی گیس ملنے لگی۔ نہ عدالت نے کے الیکٹرک کے فرنس آئل والے پاور پلانٹس سے بجلی کی پیداوار کا پوچھا نہ وزیراعظم نے کہ کے الیکٹرک فرنس آئل سے بجلی پیدا کیوں نہیں کر رہی ہے بہر حال کے الیکٹرک کو یہاں پھر فائدہ پہنچایا گیا۔ اسے اضافی گیس فراہم کی جانے لگی اس کے پیسے کے الیکٹرک دے رہی ہے یا نہیں۔ اس کا کسی کو پتا نہیں البتہ دو تین روز لوڈ شیڈنگ شیڈول میں گھپلے کر کے تاثر دیا گیا کہ اب لوڈ شیڈنگ ختم یا کم ہو رہی ہے یعنی روزانہ جہاں تین دفعہ ایک ایک گھنٹے کے لیے بجلی جا رہی تھی وہاں اگلے ہفتے صرف دو مرتبہ بجلی گئی۔ لوگ خوش۔ لیکن اب دو مرتبہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے لیے بجلی غائب ہوئی۔ دورانیہ وہی رہا۔

اضافی گیس کا دباؤ بھی عوام پر ہے۔ شدید گرمی میں سی این جی کی لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی ۔ کے الیکٹرک سے کسی نے اضافی بلوں، جعلی بلوں، عجیب و غریب ٹیرف پی ٹی وی کو اس کی رقم نہ دینے کے بارے میں بھی سوال نہیں کیے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ سب ملے ہوئے ہیں تو توہین عدالت ہو جائے گی لیکن عوام کیا کریں۔ انہیں تو بجلی نہیں مل رہی پانی نہیں مل رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کے الیکٹرک کے بل میں شہر کے اوسط درجہ حرارت کا ذکر کیا گیا ہے اور ائرکنڈیشنر چلائے بغیر لوگوں کے بل دو گنا آگئے۔ یہ اوسط درجہ حرارت کیا ہے اس پر کون بات کرے گا تانبے کے تار نکال کر ایلومینیم کے تار لگائے یہ کون سوال اٹھائے گا۔ نادہندہ ادارے کو زبانی حکم پر اضافی گیس کی فراہی پر کون گرفت کرے گا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ، وزیراعظم، گورنر، نیپرا، عدالت کہیں چلے جائیں مسئلہ وہیں رہتا ہے بلکہ نادہندہ ادارے کو مزید فوائد مل جاتے ہیں۔ عدالت نے وا ٹر کمیشن بنایا تھا یہ کمیشن اجلاس پر اجلاس کر رہا ہے جسٹس امیر ہانی مسلم ریمارکس پر ریمارکس دے رہے ہیں۔ کیا لوگوں کو زہر پلاتے ہیں۔ کیا عوام کی قسمت میں زہریلا پانی لکھا ہے۔ اگر پانی صاف نہ ہوا تو اس تو کے بعد کچھ نہیں ہوتا سندھ بھر میں آلودہ پانی اسی رفتار سے آرہا ہے کہیں کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ اب تو کراچی میں بھی آلودہ بلکہ باقاعدہ گٹر کا پانی واٹر بورڈ کی لائنوں سے گھروں میں پہنچایا جارہا ہے۔

واٹر بورڈ کے ذمے داروں سے پوچھو تو جواب ملتا ہے کہ آپ کے علاقے میں گٹر ہی خراب ہیں جن کا پانی لائنوں میں شامل ہو جاتا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ہے سیوریج کا نظام بھی اسی ادارے کو ٹھیک کرنا ہے لیکن جب کوئی شکایت لے کر جاتا ہے کہ پانی میں گٹر کا پانی مل کر آرہا ہے تو اسے سیوریج والوں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ سیوریج والے پہلے ادا شدہ بل مانگتے ہیں وہ نہ ہو تو شکایت نہیں درج ہوتی۔ ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن اس گھر کا پانی کاٹ دیں  جو بل ادا نہیں کر رہا۔ لائن میں تو گٹر کی آمیزش نہ کریں۔ ہر ہفتے ایم ڈی واٹر بورڈ کا اعلان اخبارات کی زینت بنا ہوتا ہے کہ لائنوں سے رساؤ بند نہ ہوا تو۔

لیکن اس تو کے بعد کچھ نہیں ہوتا واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی اب کسی کے قابو میں نہیں ہے جن لوگوں نے 35 برس اس شہر پر حکومت کی ہے ان کے کارندے نچلی سطح پر سب انجینئرسے لائن مین تک ہر پوزیشن پر بیٹھے ہیں بڑی خوبصورتی سے عوام کے ساتھ کھیل کر رہے ہیں ہر کام کے پیسے وصول کیے جاتے ہیں اب یہاں کہا جائے کہ ایم ڈی تک حصہ پہنچ رہا ہے تو معاملہ عدالت تک جا سکتا ہے لیکن پھر کیا ہو رہا ہے۔ ہر طرف جعلی لائنیں، ہر طرف فراڈ، عوام پانی اور بجلی کو ترس گئے.

اداریہ روزنامہ جسارت

Post a Comment

0 Comments