Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا کراچی کی سیاست میں الطاف حسین اپنا اثر کھو چکے ہیں؟

کراچی کی انتخابی سیاست پر گذشتہ تین دہائیوں سے راج کرنے والی شخصیت الطاف حسین ویسے تو 1978 سے اردو بولنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن 15 اپریل 1985 کو ایک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں ایک طالبہ بشریٰ زیدی کی موت سے اُن کا سیاسی جنم ہوا۔ اِس حادثے کے بعد جو فسادات ہوئے اِس نے کراچی کو بدل کر رکھ دیا۔ شہر کے لوگ لسانی بنیادوں پر اپنے اپنے محلوں میں دبک کر رہ گئے۔ اردو بولنے والوں کو الطاف حسین ایک مسیحا کے طور پر نظر آئے اور وہ اُن کی شخصیت سے مسحور ہوتے گئے۔

عقیدت مندوں کو کروٹن کے پتوں پر الطاف حسین کی شکل نظر آنے لگی۔ انہیں پیر کا درجہ دیا جانے لگا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پیر صاحب نہ کہنے پر لوگوں کے گال طمانچوں سے سرخ کر دیے جاتے تھے۔ لاکھوں کا مجمع ایک اشارے پر خاموش ہو جاتا تھا۔ اپنی سالگرہ کے موقع پر وہ شہر کی بلدیہ کی واحد کرین پر سوار ہو کر کئی من وزنی کیک کو تلوار سے کاٹا کرتے تھے۔ 1985 کے بعد سے کراچی الطاف حسین کی شخصیت کے محاصرے میں رہا ہے۔ اِس محاصرے نے اِس شہر کو قومی سیاست اور ایشوز سے دور ہی رکھا ہے۔

انتخابی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو 1988 کے بعد سے ہر انتخابات میں اُن کا مکمل کنٹرول رہا۔ جب اُن کی جماعت الیکشن لڑتی تھی تو بھاری اکثریت حاصل کرتی تھی اور جب نامعلوم وجوہات اور نامعلوم دباؤ کی وجہ سے بائیکاٹ کرتی تھی تو لگتا تھا کہ شہر میں انتخابات ہو ہی نہیں رہے۔ 2013 تک الطاف حسین بہت مضبوط فیکٹر تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ پردۂ سیمی پر نہیں ہیں۔ نہ صرف وہ نہیں ہیں بلکہ اُن کی جنگجو فورس بھی غائب ہو چکی ہے جو انتخابات میں بہت اہم کردار ادا کیا کرتی تھی۔

کراچی میں الطاف حسین کی کال پر شٹر ڈاؤن ہڑتال اور پرتشدد احتجاج معمول تھا
2002 کے انتخابات کی رپورٹنگ کے دوران ہم جب ملیر کے ایک پولنگ سٹیشن میں گئے تو مجھے میرے دو صحافی ساتھیوں سمیت کالر سے پکڑ کر باہر نکال دیا گیا۔ 'بھائی یہاں پہلے ہی بہت ٹینشن ہے اور آپ ماحول مزید خراب کر رہے ہیں' ایک کارکن نے کہا اور ہمیں باہر تک چھوڑ آیا۔ گیٹ پر موجود رینجرز کے جوان سے جب شکایت کی تو اُس نے کہا کہ اُس کی ذمہ داری گیٹ تک ہے۔ ' اندر کیا ہو رہا ہے یہ ہماری ذمہ داری نہیں'۔ جنگجو فورس کے علاوہ وہ سیاسی رہنما جو الطاف حسین کے فلسفے کو عوام تک پہنچاتے تھے انہیں بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ عوام سے رابطہ کر سکیں۔ 

اب الطاف حسین کے پاس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے سوشل میڈیا اور اِسی ذریعے سے وہ عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ پیغام یہ ہے کہ عوام الیکشن والے دن گھروں سے نہ نکلیں۔ لیکن کیا تمام تر پابندیوں اور میڈیا سے اپنی جبری گمشدگی کے باوجود وہ 25 جولائی کے انتخابات پر کوئی اثر ڈال سکیں گے۔ یہی وہ سوال ہے جو کراچی میں اکثر زبانوں پر ہے۔ اُن کے حامی، سابق حامی اور مخالفین سب یہی پوچھ رہے ہیں۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کہتے ہیں کہ الطاف حسین بڑی حد تک اپنا اثر کھو چکے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ برس جولائی میں پی ایس 114 محمود آباد میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین کے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود ایم کیو ایم کو 18 ہزار سے زائد ووٹ ملے۔

'یہ روایتی طور پر ہماری نشست نہیں تھی اور لندن سے بائیکاٹ کی اپیل بھی تھی لیکن پھر بھی ہمیں اتنے ووٹ پڑے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ الطاف حسین کا اثر کم ہوا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم آپس کی لڑائی میں مصروف ہو گئے ہیں جو ہمارے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔' ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق حال ہی میں جب الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے کراچی میں ہونے والے جلسے میں شرکت کریں تو چار پانچ لوگ ہی وہاں جا سکے۔ لیکن فاروق ستار کہتے ہیں کہ الطاف حسین ووٹنگ کی شرح پر اب بھی پانچ سے چھ فیصد اثر ڈال سکتے ہیں۔

کراچی کو اگر معروضی اور باریک نظر سے دیکھیں تو شہر کے کئی علاقوں کی پتلی پتلی گلیوں میں آج بھی الطاف حسین کے لیے نہ صرف ہمدردی بلکہ اُن کے جانثار کارکنوں کا کمزور ہی صحیح لیکن ایک نیٹ ورک موجود ہے۔ سکیورٹی ادارے آج بھی اِس نیٹ ورک کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آئے روز چھاپے، گرفتاریوں اور اسلحہ برآمد کیے جانے کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ شہر میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جب ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار اپنی انتخابی مہم کے لیے اِن گلیوں کا رخ کریں گے تو انہیں اِس نیٹ ورک کا سامنا ہو سکتا ہے۔ فیڈرل بی ایریا میں مجھے ایک ایسے ہی کارکن سے ملنے کا موقع ملا۔ 'اگر ہمیں آزادی سے الیکشن لڑنے دیا جائے تو سب کو پتہ چل جائے گا کہ یہ شہر آج بھی کس کا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان والوں کی اِس شہر میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور ان میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ یہ ہمارے محلوں میں آئیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ایسے اور کتنے کارکن ہیں اور وہ کیا کر سکتے ہیں۔ کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار پروفیسر توصیف احمد کے مطابق الطاف حسین چاہیں گے کہ لوگ انتخابی عمل کا حصہ نہ بنیں لیکن جب الیکشن کا عمل شروع ہوتا ہے، مختلف سیاسی جماعتیں اپنے ووٹروں کے پاس جاتی ہیں تو ماحول بدل جاتا ہے۔ اِس گہماگہمی میں امکان ہے کہ یہ پیغام زیادہ موثر نہ ہو۔ 1993 میں بھی تو الطاف حسین نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ووٹنگ کی شرح بہت کم رہی تھی۔ لیکن اگلے ہی روز جب پارٹی نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات لڑے تو جیسے پورا شہر امڈ آیا۔ کیا ایسی صورتحال دوبارہ نہیں ہو سکتی؟

پروفیسر توصیف کہتے ہیں کہ اُس وقت حالات مختلف تھے، ایم کیو ایم اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود تھی۔ 'ایم کیو ایم کو بہت عوامی حمایت حاصل تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد جو کارکردگی رہی اور جماعت کے اندر کئی مافیا بن گئے جس کے نتیجے میں ہمدردوں میں مایوسی پھیلی۔' پروفیسر توصیف کے مطابق الطاف حسین نے مختلف مقاصد کے لیے اپنی جنگجو فورس کو مسلسل اپنے ساتھ رکھا۔ 'کہا جاتا ہے کہ پہلے مقامی ایجنسیوں کے لیے ٹھیکے پر کام کرتے تھے تو بعد میں بین الاقوامی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے لگے۔ اِس سے شہر کو اور خود ان کی جماعت کو بہت نقصان پہنچا۔'

بہت سارے واقعات میں شاید ان کے جنگجو ملوث نہ ہوں لیکن تاثر یہی بن گیا کہ ان واقعات میں ایم کیو ایم کے جنگجوؤں کا ہاتھ ہے۔ اس تاثر کے بننے کی وجوہات بھی تھیں۔ یہ بلا وجہ نہیں تھا۔ بعد میں جب ان جنگجوؤں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے آپریشن کیا اور وہ غائب ہو گئے تو الطاف حسین کی شہر کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی۔ پروفیسر توصیف کہتے ہیں کہ 2013 کے عام انتخابات والا دن شہر میں عمران خان کا دن تھا۔ 'اُس دن فوج اور پولیس ووٹوں کی گنتی کے وقت پولنگ سٹیشنوں سے نہ چلی جاتی اور ایم کیو ایم والے پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ نہ کر لیتے تو تحریکِ انصاف شہر کی ایک بڑی فورس کے طور پر ابھرتی سکتی تھی۔'

مبصرین کے مطابق صورتحال کو اپنے حق میں بدلنے والی وہ فورس اب نہیں رہی جس کی وجہ سے الطاف حسین شہر کو کنٹرول کرتے تھے۔ یہ نیٹ ورک اب ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ اِس کے علاوہ عام لوگوں میں اُن کی حمایت میں بھی کمی آئی ہے۔
ایم کیو ایم کے ارتقا کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے والے جانتے ہیں کہ الطاف حسین کی شخصیت نے جماعت کے عروج اور پھر زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک وقت تھا جب ایم کیو ایم میں لوگ اِس بات پر کام کر رہے تھے کہ اِسے ایک جمہوری سیاسی جماعت بنایا جائے۔ اِسے ایک سکیولر اور لبرل پارٹی کے طور پر ابھارا جائے۔

پرفیسر توصیف کہتے ہیں کہ وہ ایک بہت اچھا منصوبہ تھا جس میں الطاف حسین بھی کسی حد تک رہبر رہتے اور شہر کے بہت سارے مسائل بھی حل ہو جاتے۔ لیکن یہ سوچ الطاف حسین کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی اِس لیے جماعت کے اندر آگے نہیں بڑھ سکی۔ اب یہ کوشش دوبارہ کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایم کیو ایم پاکستان اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ الطاف حسین سے علحیدگی کے بعد یہ ایک بڑی جمہوری اور لبرل قوت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ یہ جماعت اپنی پوری طاقت اور دلجمعی سے الیکشن لڑے اور شہر کی بڑی قوت کے طور پر قائم رہے تو امکان ہے کہ لوگ الطاف حسین کو ماضی سمجھ کر آگے بڑھ جائیں۔
ایک ایسی شخصیت جس نے گذشتہ 30 برسوں تک بلا شرکتِ غیرے حکومت کی ہو اُس کے منظر سے ہٹ جانے کی خوشی یا غم کو سنبھالنے میں کراچی شہر کو کچھ وقت لگے گا۔

'ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے' ماضی میں یہ ایم کیو ایم کا نعرہ رہا ہے۔ کراچی کو منزل تو نہیں مل سکی اور اب یہ شہر ایک رہنما کی بھی تلاش میں ہے۔

حسین عسکری
بی بی سی اردو، کراچی
 

Post a Comment

0 Comments