Ticker

6/recent/ticker-posts

غیرقانونی عمارتیں گرا کر کراچی کی پرانی شکل بحال کریں، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رہائشی پلاٹوں کی حیثیت تبدیل کرنے پر پابندی عائد کر دی اور حکم دیا ہے کہ شہر کو اصل ماسٹرپلان کے مطابق بحال کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ رہائشی علاقوں میں شادی ہال، یاشاپنگ سینٹرز اور پلازوں کی تعمیر نہیں ہو سکی، ماسٹر پلان کیخلاف جو عمارتیں ہیں گرا دی جائیں، حکام بندوق اٹھائیں یا کچھ بھی کریں، ہرقسم کی غیرقانونی عمارتیں گرا کر کراچی کوچالیس سال پرانی شکل بحال کریں۔ جسٹس گلزاراحمد نے ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی افتخارقائم خانی پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کام نہیں کر سکتے توعہدے پر کیوں چمٹے بیٹھے ہو، آپ کا چپڑاسی ارب پتی ہو گئے ہیں، آپ بھی چند دنوں بعد کینیڈا چلے جائینگے، تم نے شہر کو لاوارث، جنگل اور گٹر بنا دیا، تم اور تمہارے افسران آگ سے کھیل رہے ہو۔ عدالت اس شہر کو وفاق کے حوالے بھی کر سکتی ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو درخواست گزار عبدالکریم کی دائر آئینی درخواستوں کی سماعت ہوئی ۔ اس دوران جسٹس گلزار احمد نے شہر میں رہائشی پلاٹس غیر قانونی شادی ہال، شاپنگ مال اور پلازوں کی تعمیرات سمیت رہائشی پلاٹوں کو کمرشل حیثیت میں تبدیل کرنے پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے آبزرویشن میں کہا ہے کہ عدالت نے جام صادق پارک پر شادی ہال، شاپنگ سینٹر، پیٹرول پمپ اور اپارٹمنٹ کی تعمیرات کومسمار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی افتخار قائم خانی صاحب یہاں ہمارے سامنے اسکا دفاع کر رہے ہیں۔ جسٹس گلزار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو آپ کا فرض یاد نہیں تو پھرآپ کو فارغ کر دیتے ہیں۔ 

عدالت عظمیٰ نے عملدرآمد کیلئے 4 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ ریمارکس میں کہا کہ یہ صرف جام صادق پارک کا مسئلہ ہی نہیں ہے پورے شہر کی یہی صورتحال ہے کراچی کو کیا سے کیا بنا رکھا ہے رفاہی پلاٹوں پر شادی ہالز شاپنگ سینٹرز و دیگر تعمیرات قائم ہیں اور رہائشی پلاٹوں کی کمرشل حیثیت میں تبدیل۔ جسٹس گلزار نے حکم نامہ میں تحریر کیا ہے کہ آج سے ہم رہائشی پلاٹوں کی حیثیت کمرشل میں تبدیل کرنے پر مکمل پابندی عائد کر رہے ہیں، آج کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ اداروں کو حکم دیتے ہیں کہ آئندہ کوئی رہائشی پلاٹوں کی حیثیت کمرشل حیثیت میں تبدیل ہرگز نہ کریں اورجومعاملات التواء میں ہیں انکی بھی منظوری نہیں ہو گی اور جنکی منظوری دی جا چکی ہے انکا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا کہ شہر کو اصل ماسٹر پلان کے عین مطابق بحال کیا جائے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو حکم دیا ہے کہ شہر میں جتنی بھی غیر قانونی تعمیرات ہیں ان کا ازسرنو جائزہ لیکرایک ماہ میں رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں اور عدالت کو بتائیں کہ مذکورہ غیر قانونی عمارتوں کو کیسے مسمار کیا جائے۔جسٹس گلزار احمد نے حکم نامہ میں کہا ہے کہ مسمار کی صورت میں متاثرین کو متبادل جگہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اپنے اسٹاف سے حاصل کر کے فراہم کرے گی سپریم کورٹ نے اکاؤنٹنٹ جنرل کو حکم دیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے مشاورت کر لیں کہ اسٹاف کی تنخواہوں سے کس طرح سے کٹوتی ہو گی۔ جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کو حکم دیا ہے کہ وہ حکومت سندھ سے ہدایات لیں کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کام بشمول سندھ کے تمام شہروں کی پلاننگ کو اپنے کنٹرول میں لینے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کریں سپریم کورٹ نے اس حوالے سے چیف سیکرٹری سندھ کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا ہے کہ حکومت کا موقف پیش کریں۔

دوران سماعت ایک موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ختم کریں لوکل حکومت، یہ خود کو سٹی فادر کہلاتے ہیں اور الف ب تک نہیں جانتے۔ گلی گلی میں شادی ہال، شاپنگ سینٹرز اور پلازوں کی اجازت کون دے رہا ہے۔ علاوہ ازیں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو حکم دیا ہے کہ آفیسر کلب جہاں شادیوں کی بکنگ مسلسل جاری ہے حالانکہ مذکورہ زمین صرف رفاحی مقاصد کیلئے ہے لہٰذا ڈی جی کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کو حکم دیا ہےکہ فی الفور اس کو مسمار کر کے اسے پارک میں تبدیل کیا جائے۔  دوران سماعت جسٹس گلزاراحمد نے ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے معافی کیسی کیا نہیں معلوم اب بھی شادی ہالزکی اجازت دے رہے ہیں، قیوم آباد، فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد ہر طرف شادی ہال بنا ڈالے، پہلے لوگ گھروں کے باہر شادی کرتے تھے، اب نیا کلچر بنا ڈالا، شادی ہال کرائے کیلئے لوگوں کو کروڑوں روپے دینے پڑتے ہیں۔

علاوہ ازیں اسلام آبادسے رانا مسعود حسین کے مطابق عدالت عظمیٰ میںʼʼ بحریہ ٹائون کے خلاف سپریم کورٹ کے چار مختلف مقدمات میں جاری کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد ʼʼکے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران مسول علیہ بحریہ ٹائون کی انتظامیہ نے کراچی کے رہائشی منصوبے کو قانونی دائرہ میں لانے کے لیے اپنے زیر قبضہ 16896 ایکٹر اراضی کے عوض حکومت سندھ کو مجموعی طور پر 358 ار ب روپے ادا کرنے کی پیشکش کی ہے، تاہم عدالت نے اس پیشکش کو غیر معقول قرار دیتے ہوئے مسول علیہ کوپیشکش میں اضافہ کے حوالے سے دوبارہ مزید غور کرنے کی مہلت دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر نیب، وفاق اور سندھ حکومت کو بھی اس سلسلہ میں اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ کراچی
 

Post a Comment

0 Comments