Ticker

6/recent/ticker-posts

پرانا کلفٹن

فرئیر ہال سے وکٹوریہ روڈ پر آ جائیں ، اور یہاں سے سیدھا آگے چلتے جائیں تو یہ بڑی سڑک بتدریج ایک نسبتاً سنسان اور چھوٹی سڑک میں تبدیل ہو جاتی جو کافی خستہ حال ہوا کرتی تھی اور وکٹوریہ روڈ ہی کہلاتی تھی تاہم بعد میں اس کا نام بدل کر’’ خیابان اقبال‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہاں سے کافی آگے جا کر بائیں طرف ایک سیلن زدہ سا میدان آتا تھا جس کو گزری میدان کہتے تھے۔ کہیں کہیں کچھ جھگیاں یا کچے مکان نظر آجاتے ، ورنہ ہر سو جھاڑیاں ہی پھیلی ہوئی تھیں ۔ یہاں سے ایک سڑک دائیں طرف کو مڑ جاتی تھی جس کے آس پاس کچھ بہت بڑے بنگلے اور کچھ سفارت خانے ہوتے تھے ۔ یہاں کے ماحول میں نمی اور سمندری پانی کی خوشبو بتا دیتی تھی کہ ساحل سمندر یہیں کہیں نزدیک ہی ہے۔ 

تھوڑا آگے بڑھتے تو یکدم سامنے سمندر نظر آجاتا تھا ۔ ہر طرف خاموشی ہوتی اور لہروں کی ہلکی ہلکی سائیں سائیں کی آواز بھی دور تک صاف سنائی دیتی تھی کبھی دل چاہتا کہ بس وہیں کھڑے ایک فاصلے سے اسے تکتے رہیں جبکہ کبھی ایک دم دوڑ کر سمندر میں چھلانگ لگانے کو من چاہتا تھا۔ درحقیقت یہ سمندر اتنا قریب بھی نہیں تھا جتنا نظر آتا تھا ۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے کوٹھاری پریڈ کی خوب صورت اور تاریخی عمارت کے پاس سے گزر کر تھوڑا نیچے اترنا پڑتا تھا۔ یہ کوٹھاری پریڈ کی عمارت بھی بڑی دلچسپ تھی ۔ بڑے گنبد کے نیچے اس کے چبوترے تک پہنچنے کے لیے ایک طرف بنی ہوئی سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں ۔ چبوترے کے باقی حصے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں لگی تھیں جونیچے سڑک تک آتی تھیں۔ 

بچوں کا اور خود میرا بھی یہ پسندیدہ مشغلہ ہوتا تھا کہ ہم سیڑھیوں سے اس عمارت کے چبوترے پر چڑھتے اور اسی ڈھلوان سے گھسٹتے ہوئے نیچے آ جاتے۔ اسی عمارت کے دوسری طرف سے چوڑی پتھریلی سیڑھیاں نیچے ایک وسیع و عریض راہداری پر اترتی تھیں، جو آہستہ آہستہ آگے چلتی جاتی تھی۔ کچھ فاصلے کے بعد ایک بار پھرچند سیڑھیاں کچھ اور نیچے اترتیں اور پھر راہداری کا اگلا حصہ شروع ہو جاتا تھا ۔ یہ بہت ہی خوب صورت راہداری تھی جس کے دونوں طرف دلکش باغات اور گھاس کے تختے لگے ہوئے تھے۔ آہستہ آہستہ نشیب میں اترتی ہوئی یہ راہ گزر اپنے سفر کے اختتام پر بالکل ہی سمندر کے قریب پہنچا دیتی تھی جہاں سے لوگ آخری سیڑھی سے ساحل کی ریت پر چھلانگ لگا دیتے۔

تب وہاں کوئی پتھریلی دیوار بھی نہیں ہوتی تھی ، یہ تو بہت بعد میں بنی ۔ جن دنوں مدو جزر ہوتا تو سمندر کا پانی کافی آگے بڑھ آتا اور اکثر مذکورہ راہداری کے نیچے بھی گھس جاتا اور کبھی کبھی تو سڑک کو بھی چھو لیتا ۔ اس ریتلے میدان میں جگہ جگہ سیپیوں اور گھو نگھوں کے کھوکھے لگے ہوئے تھے جہاں ہر رنگ اور نسل کی رنگ برنگی سیپیاں یا ان سے بنی ہوئی خوب صورت آرائشی مصنوعات بھی مل جاتی تھیں ۔ بڑی بڑی سیپیوں پر کلمہ، اللہ کے مقدس نام اور خیر مقدمی پیغامات کندہ کیے ہوتے تھے۔ خریدار کی فرمائش پر کھوکھے والا ایک خاص کیمیاوی محلول سے بڑی سی کوڑی پر اس کا یا اس کے پیارے کا نام لکھ دیتا تھا۔ کراچی کے چٹخارے دار گول گپے اور دہی بڑے کے کھوکھے اور ٹھیلے بھی ساحل سمندر پر جگہ جگہ موجود تھے ۔ 

برگر کا نام ابھی تک کسی نے سنا بھی نہ تھا، تاہم بن میں ایک شامی کباب رکھ کر اور اس پر پودینے کی یا کھٹ مٹھی چٹنی ڈال کر تھما دیتے تھے اور یوں برگر کی رسم تو پوری ہو جاتی تھی، لیکن پھر بھی اسے بن کباب ہی کہا جاتا تھا۔ اونٹ اور گھوڑے کی سواری تب بھی ہوتی تھی، مگر وہ اتنے بنے سنورے نہیں ہوتے تھے عام سا اونٹ ہوتا تھا جو ایک بڑا سا جھٹکا لے کر اٹھتا اور کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوتا کہ وہ یکدم کھڑا ہو جاتا اور اس کی متوقع سواری جھٹکے کی تاب نہ لا کر نیچے گری ہوئی ساحل کی ریت چاٹ رہی ہوتی تھی ۔ اونٹ خراماں خراماں مزے لیتا جھومتا جھامتا ہوا چلتا تھا ۔ اس دوران اس کے سوار مسلسل جھٹکوں سے آگے پیچھے جھولتے ہوئے اپنا سفر مکمل کرتے اور خیریت سے واپس پہنچنے پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے تھے ۔ 

جسم کا انگ انگ ہلا دیتا تھا یہ سفر ۔ سال میں ایک دو دفعہ ایسے مواقع بھی آتے کہ حکومت یہاں نمائش لگاتی تھی، جہاں گھڑ دوڑ کے مقابلوں کے علاوہ اور بھی کھیلوں کے مزیدار مقابلے ہوتے۔ صدر پاکستان کے حفاظتی دستے کے سرخ لباس میں ملبوس گھڑ سوار پریڈ کے علاوہ کئی کرتب دکھاتے۔ موت کے کنویں کے علاوہ سرکس کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ کھانے پینے کے سٹال بھی لگتے تھے۔ نمائش کا نقطہ عروج آتش بازی کا شاندار مظاہرہ ہوتا تھا۔ جب ایک ساتھ سینکڑوں گولے پھٹتے تو ان میں سے پھوٹتی ہوئی رنگ برنگی روشنیوں سے آسمان منور ہو جاتا۔ اس کے بعد میلہ ختم اور لوگوں کی گھروں کو واپسی شروع ہو جاتی۔ 

محمد سعید جاوید

(’’ایسا تھا میرا کراچی‘‘ سے اقتباس)  


Post a Comment

0 Comments