Ticker

6/recent/ticker-posts

پانی کے لیے ترستا کراچی

کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک دہائی قبل سٹی حکومت کراچی ایم کیو ایم کے پاس تھی، جس کی نظامت میں کراچی میں فراہمی آب کے بڑے منصوبے کے تھری کا افتتاح ہوا تھا اور اس وقت ہی محسوس کر لیا گیا تھا کہ کے تھری کا پانی کراچی کی ضرورت کے لیے ناکافی ہے اور نئے منصوبے کے فور کا اعلان کیا گیا تھا۔ سٹی حکومت کراچی اس وقت بااختیار تھی جس کے پاس کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے اورکراچی ماسٹر پلان ہی نہیں کمشنری نظام نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی بھی سٹی ناظم کراچی اور 18 ٹاؤن ناظمین کے ماتحت تھی مگر 2008 میں عام انتخابات کے نتیجے میں دو سابق حکمران جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قومی سطح پر منتخب ہو کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔

پہلے دونوں بڑی پارٹیوں کی مخلوط حکومت بنی جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی اکثریت سے حکومت بنائی تھی جب کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت میں اپنا وزیر اعلیٰ بنایا تھا اور صوبہ سرحد میں اے این پی نے پیپلز پارٹی کی مدد سے مل کر اپنا وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ ضلعی نظام کی حامی مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسلامی ناکام رہی تھیں اس لیے نئے سیاسی حکمرانوں نے آتے ہی ملک میں رائج مکمل بااختیار ضلعی نظام کے خاتمے کی کوشش کی، جسے آئینی تحفظ حاصل تھا اور جنرل پرویز مشرف جو ضلعی نظام کے خالق تھے اور انھوں نے ہی انگریز دور کا کمشنری نظام ختم کر کے نچلی سطح پر عوام کے منتخب بلدیاتی عہدیداروں کو ناظمین کا نام دے کر مکمل بااختیار بنا کر آئینی تحفظ دلایا تھا۔

سیاسی حکومتیں فوری طور پر ضلعی نظام ختم نہ کر سکیں تو انھوں نے چاروں صوبوں میں کمشنری نظام بحال کر کے بیورو کریٹس کو منتخب ناظمین پر مسلط کر دیا تھا۔ وفاق میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آمر حکومت میں منتخب پرویز مشرف کو جو وردی اترنے کے بعد صدر مملکت رہ گئے تھے کو تحریک اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے لیے ان کا مواخذہ کرنا چاہا مگر حالات دیکھ کر وہ مستعفیٰ ہو کر ملک سے باہر چلے گئے اور بعد میں بااختیار بلدیاتی ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کر کے چاروں صوبوں میں ضیا الحق کا 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کرایا گیا۔ منتخب ناظمین کی مدت مکمل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کو پہلے بے اختیار کیا گیا پھر ان پر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مسلط کر کے ضلعی نظام کا سنہری دور ختم کرایا جس میں نمایاں بلدیاتی ترقی ہوئی تھی۔

بلدیاتی نظام مہذب ملکوں میں مکمل بااختیار اور منتخب لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جہاں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کو بلدیاتی امور کے تمام شعبوں کے ساتھ پولیس پرکنٹرول بھی حاصل ہوتا ہے اور وہاں بلدیاتی ادارے منتخب اور بااختیار اور حکومت کے اتنے کنٹرول میں نہیں ہوتے جتنے ہمارے ملک اور خصوصاً سندھ میں ہیں۔ سندھ حکومت نے کراچی کو بھی دو بلدیاتی نظاموں میں تقسیم کر کے دیہی علاقوں کی ضلع کونسل اور شہری کراچی کی ڈی ایم سیز میں واضح امتیازی رویہ اختیار کر رکھا ہے اور شہری علاقوں پر مشتمل بلدیہ عظمیٰ، ڈی ایم سیز اور یونین کمیٹیوں کو بے اختیار کر کے انھیں محکمہ بلدیات کا مکمل محتاج بنا رکھا ہے۔

اس نے سندھ اسمبلی میں اپنی اکثریت کے باعث بلدیاتی اداروں کے اختیارات سلب کر رکھے ہیں اور محکمہ بلدیات ان پر مکمل بااختیار اور کنٹرولنگ اتھارٹی بنا ہوا ہے اور بلدیہ عظمیٰ کے میئر، ڈی ایم سیز اور یونین کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے پاس برائے نام اختیارات ہیں جب کہ ضلعی حکومتوں میں منتخب ناظمین کو مکمل مالی اور انتظامی اختیارات حاصل تھے۔ جس کی وجہ سے عوام کے مسائل باآسانی حل ہو جاتے تھے اور لوگوں کی بنیادی ضروریات فوراً پوری ہو جاتی تھیں۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی سب سے اہم بلدیاتی مسئلہ ہے جس کا عوام سے سب سے زیادہ قریبی تعلق ہے۔ سیوریج سسٹم کی خرابی صفائی کا نظام تباہ کر دیتی ہے اور پینے کا پانی نہ ملنے سے شہریوں کی زندگی درہم برہم ہو کر رہ جاتی ہے۔ 

بلدیاتی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ فراہمی ونکاسی آب کا ہے اور لوگوں کو پینے کا پانی نہ ملے یا ان کی نکاسی آب متاثر ہو تو شہری مسائل بے حد بڑھ جاتے ہیں۔ ملک بھر میں فراہمی و نکاسی آب کے حکومتوں نے متعدد خود مختار ادارے بنا رکھے ہیں اور ملک کے سب سے بڑے شہر میں یہ ذمے داری کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ہے جو براہ راست سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور منتخب یا غیر منتخب بلدیاتی اداروں کا واٹر بورڈ پر کوئی اختیار نہیں ہے جب کہ فراہمی و نکاسی آب کا ادارہ بلدیہ عظمیٰ کے ماتحت ہونا چاہیے۔ فراہمی و نکاسی آب وہ اہم ترین مسئلہ ہے جس کی کارکردگی نظر نہیں آتی۔ فراہمی و نکاسی آب کی تمام لائنیں زیر زمین ہوتی ہیں مگر یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور اسی میں کرپشن کے سب سے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔ 

اندرون سندھ پبلک انجینئرنگ کے نام سے الگ وزارت ہے جو سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں فراہمی و نکاسی آب کی ذمے دار ہے جو سرکاری فنڈ پر چلتی ہے اور وہ عوام سے کوئی ٹیکس نہیں لیتی۔ حیدرآباد، لاہور، ملتان، راولپنڈی اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں فراہمی و نکاسی آب کی ذمے داری واسا کا کام ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا سربراہ منیجنگ ڈائریکٹر کا تقرر سندھ حکومت کرتی ہے۔ کبھی منتخب رکن اسمبلی کو واٹر بورڈ کا وائس چیئرمین بنا دیا جاتا تھا اور وزیر بلدیات چیئرمین ہوتا ہے۔ ضلعی حکومت میں یوسی ناظم کو واٹر بورڈ کے وائس چیئرمین کی ذمے داری دی جاتی تھی۔ موجودہ بلدیاتی نظام میں سندھ حکومت نے فراہمی و نکاسی آب کے سسٹم کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔ 

بلدیہ عظمیٰ، ڈی ایم سیز اور یونین کمیٹیوں کا اس اہم مسئلے سے کوئی تعلق نہیں رکھا گیا حالانکہ یہ بلدیاتی مسئلہ ہے جس کے پیش آنے اور فوری مدد کے لیے لوگ سب سے پہلے اپنی یوسی سے رابطہ کرتے ہیں۔ اب تک ڈی ایم سیز اور یوسیز عوام کو مشکلات سے بچانے کے لیے اپنے وسائل سے یہ اہم مسئلہ حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی ذمے داری ہی نہیں ہے اور اب تک کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ میں ایم کیو ایم کے ہی لوگ بھرے ہوئے ہیں انھی کی یونین ہے اور متحدہ جان بوجھ کر یہ مسئلہ پیدا کراتی ہے اور اسی پر سیاست چمکاتی ہے اور وہی اس مسئلے کی ذمے دار ہے۔ متحدہ اس مسئلے کا ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دیتی ہے اور دونوں کی اس سیاست کی سزا کراچی کے بے بس عوام بھگت رہے ہیں۔

محمد سعید آرائیں

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments