Ticker

6/recent/ticker-posts

تین کروڑ کا شہر کراچی

یقین جانیں میں اگر کراچی کے لوگوں کے خلاف ایف آی آر درج کرائوں تو ملزمان کی فہرست خاصی طویل ہو گی جس میں سیاستدان بھی شامل ہوں گے اور بیوروکریٹ بھی، جو اس شہر کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے اب بھی کچھ حالیہ تباہی کے بعد وزیراعلیٰ سندھ اور میئر کراچی کے ساتھ نظر آئے۔ ان سب کی نظریں اب نئے بجٹ پر ہیں جس سے ٹوٹی ہوئی سڑکیں دوبارہ بنیں گی، انڈر پاس پھر سے ٹھیک ہوں گے، نئی لائنیں پڑیں گی اور یہ لوگ پھر ایک بارش کا اور ایک اور تباہی کا انتظار کریں گے۔ مجھے تو حیرانی پوش علاقوں میں ہونے والی تباہی پر ہے۔ نئی آبادیاں بغیر کسی پلاننگ سے بنا دی گئیں اور بنائی جا رہی ہیں بس چلے تو سمندر پر عمارت کھڑی کر دیں۔

ملزمان کی فہرست میں صرف کے الیکٹرک  کے افسران کیوں، واٹر بورڈ، سندھ بورڈ آف ریونیو، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کیوں نہ شامل کئے جائیں۔ جب نالوں پر عمارتیں تعمیر کی جائیں گی، 400 گز زمین پر 1400 فلیٹس بنانے کی اجازت دی جائے گی تو کوئی بھی قدرتی آفت سے کیا تباہی آسکتی ہے، بیان نہیں کرنا چاہتا۔ آج سے چالیس سال پہلے بھی بارش میں گورنر ہائوس، سی ایم ہائوس کے پاس پانی کھڑا رہتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اگر VIP یا ریڈ زون کا یہ حال ہے تو باقی شہر کا کیسا ہو گا۔ مرض کی تشخیص میں تاخیر ہو جائے اور اس کے بعد بھی علاج نہ کیا جائے تو پھر صرف موت کا ہی انتظار رہتا ہے۔ کراچی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ 

علاج آسان تھا اور ممکن بھی کہ پورے شہر کو دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح ایک شہری انتظامیہ کے نیچے لایا جاتا، پورا شہر ایک میئر کے زیر انتظام ہوتا، پولیس کمشنر کا نظام ہوتا، آبادی کے تناسب سے ماسٹر پلان ترتیب پاتا، کچی آبادیوں کا جال نہ پھیلنے دیا جاتا تو آج یہ منی پاکستان، معاشی حب پورے پاکستان کو سو فیصد ریونیو دے رہا ہوتا مگر ہم نے تو کبھی اس کو شناخت ہی نہیں دی۔ حد تو یہ ہے کہ اس شہر کا درد رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کو موقع ملا تو انہوں نے بھی روشنیوں کے شہر کو اندھیروں میں دھکیل دیا، اس میں کچھ غیروں کا بھی حصہ ہے۔ اس شہر کو سب نے مل کر لوٹا مگر دیا کچھ نہیں۔ 

موجودہ حکمران چلے بھی گئے تو کب دوسرے بہتری لا پائیں گے، میرا جواب ’’نفی‘‘ میں ہے۔ آپ سب بس دیکھتے جائیں تین کروڑ کے اس شہر کا بنتا کیا ہے۔
میری FIR میں ملزم نمبر ون وہ حکمران طبقہ ہے جس نے 1958 کے بعد تمام تر مخالفت اور ماہرین کی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت‘ کراچی سے ایک نئے شہر اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی طور پر اس فیصلے کی مخالفت سابقہ مشرقی پاکستان سے بھی آئی کیونکہ ڈھاکا کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ سینئر صحافی جناب اسرار احمد مرحوم نے اپنی کتاب "Walls Have Eass" میں لکھا ہے کہ جناب حسین شہید سہروردی نے تو کراچی کو واپس دارالحکومت بنانے کا اعلان کر دیا تھا مگر وہ تو خود ہی فارغ کر دیئے گئے۔ 

ماہرین اور انجینئرز نے اسلام آباد کی مخالفت تکنیکی بنیادوں پر کی تھی۔ کچھ کی رائے تھی کہ گڈاپ بہتر جگہ ہو سکتی ہے کیونکہ اسلام آباد جس جگہ آباد کیا جارہا ہے، وہاں زلزلے آسکتے ہیں لہٰذا اگر بنایا بھی ہے تو بڑی عمارتیں نہ کھڑی کی جائیں مگر زندگیوں کی ہمیں پروا کب رہی ہے۔ 2005 کا زلزلہ ہمارے سامنے ہے۔ کراچی ایک خوبصورت شہر تھا، نہ رہا۔ اب یہ بٹ چکا ہے، کچے اور پکے مکانوں اور مکینوں میں! ایک زمانہ تھا شہر دھلا کرتا تھا، آبادی بڑھنے کا تناسب مناسب تھا، علاقے ایک خاص پلان کے تحت بنائے گئے تھے، ٹرانسپورٹ کا نظام جیسا کہ سرکلر ریلوے، بڑی بسیں، ٹرام سے لوگ آیا اور جایا کرتے تھے، سب کی تفریح کے اپنے اپنے ذرائع موجود تھے۔ 

سینما بھی تھا اور کلب بھی! پورٹ بھی تھا اور سمندر بھی آلودہ نہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ نارتھ ناظم آباد میں واقع حسین ڈسلوا ٹائون جہاں مسلم اور عیسائی آبادی رہتی تھی، کے پیچھے خوبصورت پہاڑی ہوتی تھی، جو اب آبادی کے زیر اثر ہے۔
پھر اس شہر کو تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا۔ لوگوں کا دوسرے شہروں سے آنا، نوکری کرنا، زندگی کی علامت ہوتا ہے مگر اس کیلئے پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں کچی آبادیوں کا جال پھیلا دیا گیا جن کی تعداد اب آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور پچاس لاکھ سے زائد لوگ اِن آبادیوں میں رہ رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں سرکلر ریلوے ختم کی گئی۔ ٹرام جو آج بھی دنیا میں چلتی ہیں، ختم کر دی گئیں۔ کراچی ٹرانسپورٹ کی بڑی بڑی بسیں ہوتی تھیں، بند کر دی گئیں اور اس کے بڑے بڑے ڈپو اونے پونے داموں بیچ دیئے گئے۔

کراچی کی زمینوں پر نظریں ایسی جمائی گئیں کہ خود سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے وزیر بلدیات جام صادق علی سے جلسے میں کہنا پڑا کہ ’’مجھے اطلاع مل رہی ہے کہ کیا ہو رہا ہے، بس قائداعظم کے مزار کو بخش دینا‘‘۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق کے دور سے جو زمینوں کی بندر بانٹ شروع ہوئی تو بھائی لوگوں نے نہ پارک چھوڑا، نہ کھیلوں کے میدان اور نہ ہی اسپتال اور نالے۔ شہر مختلف اداروں میں تقسیم ہوتا رہا اور سب کی توجہ صرف اور صرف زمینوں پر رہی۔ چاہے پانی، گیس، بجلی ہو نہ ہو۔ سارے ماسٹر پلان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ساٹھ سال میں کراچی کا کوئی بڑا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا ہی نہیں یا اتنی تاخیر کی گئی کہ اس کی افادیت ہی ختم ہو گئی۔ حکومتوں کی حالت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا تو کراچی آپریشن ہوا، ناجائز تجاوزات ختم کرانے کا عمل شروع ہوا اور اب سرکلر ریلوے بحال کرانے کی کوشش جاری ہے۔
لگتا ہے جمہوریت بہترین انتقام کے بجائے جمہوریت سے بدترین انتقام لیا گیا۔ دس سال پہلے کیا تھا، اب کراچی میں ایسا ہی چلے گا۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments