Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے ؟

پاکستان کا سب سے بڑا روشنیوں کا شہر کراچی دیکھتے ہی دیکھتے موہن جو دڑو کے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لاوارث شہر سے سب سے پہلے ایوب خان نے ناانصافی کی، راتوں رات دارالحکومت اٹھا کر اسلام آباد کے جنگلوں میں بسا دیا۔ کراچی والے خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہے۔ پھر جب پی پی پی کی پہلی حکومت آئی مرحوم بھٹو صاحب نے پہلے اردو کو سندھ سے رخصت کیا پھر 10 سال کے لئے کوٹا سسٹم نوکریوں پر نافذ کر دیا۔ پھر دوسرا مارشل لا لگا تو ضیاء الحق مرحوم نے اس کوٹہ کو ختم کرنے کے بجائے مزید 10 سال کے لئے اور بڑھا دیا جو آج تک جاری ہے۔ نصف صدی بیت چکی ہے ایسی نوکریوں کی بندش پاکستان کے کسی صوبے میں رائج نہیں ہے، باوجود 3 جمہوری حکومتوں کے صدور کا تعلق کراچی سے ہے ۔

سب خاموشی سے اپنے اپنے ادوار میں کراچی کو اجڑتا دیکھتے رہے۔ پی پی پی نے خصوصی طور پر متحدہ کے سابقہ دور میں ایک اہم ادارے کے ڈی اے (کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کو سندھ بلڈنگ اتھارٹی کا نام دے کر ختم کر دیا، کراچی روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو سندھ روڈ اتھارٹی، کے ایم سی کو سندھ بلدیات کے ماتحت کر کے اس کے میئر کو مفلوج کر دیا ہے۔ الغرض کراچی کی عملی اور نفسیاتی برتری کو آہستہ آہستہ بانی متحدہ کے تعاون سے ختم کر دیا۔ پھر جب ایم کیو ایم کو بیوفائی کا مزہ چکھانے کے لئے کراچی والوں نے عمران خان کا ساتھ دیا اور پہلی مرتبہ بھاری اکثریت سے کراچی میں بھرپور ووٹوں سے 14 سیٹیں وفاقی حکومت میں اور 22 سیٹیں صوبائی حلقوں میں جتوائیں پھر اضافی خواتین کی 9 نشستیں بھی ڈیفنس کے حلقہ NA-247 سے بھی دلوائیں۔

حتیٰ کے صدر پاکستان ، گورنر سندھ ، صدر کراچی پیکیج، اقلیتی اضافی سیٹ ، چیئر مین ایف بی آر سب کا تعلق بھی کراچی سے ہے اس پر مزید ستم متحدہ کی ساتوں وفاقی سیٹوں جن کے کاندھوں پر وفاقی حکومت ٹکی ہوئی ہے ان کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین نے اپنی پہلی معاشی بریفنگ میں وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف کو ٹیکس وصول کے اعداد وشمار میں بتایا 82 فیصد بجٹ کا بار کراچی نے اٹھایا ہوا ہے اور وہ بڑھتا جا رہا ہے، بقایا 18 فیصد پورے ملک سے وصول ہوتا ہے۔ کراچی کے اکیلےسمندری اور ہوائی پورٹ سے 95 فیصد وصول ہوتا ہے، بقایا 44 ڈرائی پورٹس جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں صرف 5 فیصد وصول کر پاتے ہیں ، کیونکہ کسٹم حکام امپورٹرز سے مل کر مک مکا کر لیتے ہیں.

اس لئے ضروری ہے کہ ٹیکس نہ دینے والوں کو لگام دی جائے اور ہر حالت میں ان کو ٹیکس دینے والوں میں شامل کیا جائے۔ یہاں معاشی بد حالی آئی ایم ایف کی من مانی شرائط سے گزشتہ 8 سال پرانی سطح تک پہنچ گئی ہے ۔ کراچی کے بیشتر بڑے کارخانے 40 سے 60 فیصد نچلی سطح تک آچکے ہیں ۔ کراچی کے شیخ چلی فیصل واووڈا کے مطابق اتنی نوکریاں ملیں گی کہ افراد ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے۔ آج بیروزگاروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اور بقول ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہم نے پہلا سال بہت کامیابی سے مکمل کر لیا ہے اور معیشت میں استحکام آچکا ہے اور بقول بلاول بھٹو اور حزب اختلاف گزشتہ سال ایک بھیانک خواب ہے آگے آگے دیکھئے ہم کتنا پیچھے جاتے ہیں اور جائیں گے ۔ اتنا سب معاشی بوجھ اٹھانے اور پی ٹی آئی حکومت کو سہارا دینے کے باوجود پی ٹی آئی نے بھی ایک سال میں متحدہ کی طرح کراچی والوں سے بیوفائی جاری رکھی ہوئی ہے۔

یہ شہر کچرے اور گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بارش سے تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اس لاوارث شہر کا میئر اپنی ذمہ داریاں سندھ حکومت سے منسوب کر کے کہہ رہا ہے وہ ہماری آمدنی ہضم کر چکی ہے اور ہمارے پاس کوئی فنڈ نہیں ہے۔ سندھ حکومت مرکزی حکومت پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے ہمارے 800 ارب روپے دبا رکھے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ میئر کراچی پر بھی 40 ارب کی خورد برد کا الزام لگاتی ہے گویا عوام ان تینوں حکومتوں کی نااہلی کو برداشت کر رہے ہیں ۔ سونے پر سہاگہ کے الیکٹرک والوں کی ظالمانہ کارروائی ایک طرف بجلی کا بحران اور دوسری طرف بجلی کے کھمبوں کوپر وائروں کو نہ لگانا جس سے اب 50 مظلوم افراد کی ناگہانی اموات پر نہ عدلیہ توجہ دی رہی ہے نہ سندھ حکومت اس پر ہاتھ ڈال کر کیفر کردار تک پہنچانا چاہتی ہے ۔

کیونکہ خود اس پارٹی کے بڑے اس کرپشن میں شامل ہیں جنہوں نے اربوں روپے کے تانبے کے تار اتار کر مارکیٹ میں بیچ ڈالے، ان کی جگہ سستے اور ناکارہ تار لگا کر کام چلا رہے ہیں جو بارش کے قطرے گرتے ہی پھٹ پڑتے ہیں اور پورا شہر اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ ایسے میں صدر پاکستان اسلام آبا د میں اپنے قصر صدار ت میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کراچی والوں کا احسان تک نہیں مانتے جن کی بدولت آج وہ صدر ہیں۔ جس طرح سابق صدر ممنون حسین نے پورے 5 سال خاموشی سے قصر صدارت میں گزار دئیے، کراچی اور کراچی والوں کو نظر انداز کئے رکھا وہ بھیانک سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہمیں افغانستان اور کشمیریوں کی بے بسی اور مودی کے ظلم تو نظر آتے ہیں مگر کراچی کے مظلوم عوام پر توڑے گئے بجلی، پانی، گندگی کے انبار، بیروزگاری، مہنگائی کے مظالم پر کوئی کراچی والوں کا ساتھ نہیں دیتا۔

اب وہ دن دور نہیں جب وہ اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آکر حکمرانوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہونگے۔ صرف ایک دن کے لئے موجودہ مئیر کراچی نے سابق مئیر مصطفی کمال کو کراچی کی صفائی کرانے کا انچارج بنا کر کراچی والوں کی بے بسی کا مذاق اڑا یا ہے۔ یہ مذاق آنے والے الیکشن میں متحدہ کی 7 سیٹوں کو بھی غیر محفوظ کر چکا ہے۔ مصطفی کما ل اور جماعت اسلامی کی کوششیں جو اس شہر سے مخلص ہیں کراچی والے اب ان کی طرف دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ یقیناََ پی ٹی آئی والوں کو بھی اگلے الیکشن میں بہت بڑا سبق ملے گا اگر اب بھی ان کی آنکھیں نہ کھلیں تو ان کا انجام بھی متحدہ کے انجام سے مختلف نہیں ہو گا۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments