Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کا ذمے دار کون؟

کراچی کو اگر مسائلستان کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا ۔ کیونکہ مسائل ہیں کہ حل ہی نہیں ہو پارہے ۔ پانی کی قلت سے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں تک ، اُبلتے ہوئے گٹروں سے ٹریفک جام تک ، کوڑے کرکٹ سے لینڈ گریبنگ تک ، منشیات و بدامنی سے اسٹریٹ کرائمز تک ، میونسپل کمیٹی سطح کے یہ تمام مسائل میونسپل کارپوریشن ، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ، کینٹونمنٹ بورڈز ، صوبائی حکومت اور یہاں تک کہ وفاقی حکومت بھی ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے ، یا پھر شاید یہ سب ادارے یہاں کے مسائل کو حل کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ کراچی جو قیام پاکستان سے قبل دنیا کے خوبصورت شہروں میں سرفہرست تھا وہ آج دنیا کے بدترین ، گندے و آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے ۔ کراچی کی آبادی و آباد کاری پر نظر ڈالنے سے نظر آتا ہے کہ 10ویں صدی عیسوی میں ملاحوں اور کسانوں کی چھوٹی چھوٹی بستیوں پر پھیلا ایک نخلستانی علاقہ تھا ، جو 16ویں صدی میں مغربی کاروباری سیاحوں کی آمدورفت اور بڑے آبی جہازوں کے لنگر انداز ہونے کے بعد ایک معاشی مرکز بننا شروع ہوا۔

 اٹھارویں صدی میں سندھ پر تالپور گھرانے کی حکومت کے دوران 1809 میں جب پہلی مرتبہ سندھ میں مردم شماری کروائی گئی تو کراچی کی آبادی 5600 تھی ۔ ہنری پوٹنجر کے مطابق 1839 میں کراچی کی آبادی 13850 تھی ۔ انگریزوں کے قبضے کے وقت کراچی کی آبادی 14000 اور انگریزوں کی جانب سے 1856 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق 48421 بتائی گئی ہے جس میں کراچی فورٹ سے باہر مضافاتی علاقے جیسے ملیر ، گڈاپ ، لانڈھی اور دیگر علاقوں کے گوٹھوں کو بھی شامل کیا گیا تھا ۔ تقسیم ِ ہند کے وقت کراچی کی آبادی 436887 تھی جو کہ 1951 میں 1086590 ہو گئی۔ 1951 سے 1972 کے دوران کراچی کی آبادی میں 217 فیصد اضافہ ہوا۔ 1959 کے ریکارڈ کے مطابق یہ شہر 3000 اسکوائر کلومیٹرز تک پھیل گیا ۔ پھر گذشتہ 20 سالوں میں تو پاکستان بھر سے لوگ پے درپے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں اور اس تناسب کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ آیندہ دس سالوں میں مزید 120 فیصد آبادی میں اضافہ ہو گا جس سے اس شہر کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔

ماضی کی قدیم کراچی کے پھیلنے کا ادراک نہ صرف انگریز کو تھا بلکہ مقامی رہنما بھی اس بات سے اچھی طرح واقف تھے اور انھوں نے انسان و ماحول دوستی کے اُصولوں کے بنیاد پر کراچی کی توسیع کے لیے نہایت ایمانداری اور کمال ہوشیاری سے کام کیا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں سب سے پہلے ہرچند رائے بھیروانی اور 1930 میں میونسپل کمیٹی اور لوکل بورڈ کے صدر و نائب صدر کے طور پر جناب جمشید مہتا نسروانجی اور جی ایم سید نے قدرتی برساتی نالوں کی توسیع کے ساتھ ساتھ شہری ڈرینیج کا نظام بھی تعمیر کیا تو ٹھٹہ سے کینجھر و ہالیجی جھیلوں اور کوٹری سے دریائے سندھ سے کراچی کینال نکال کر کراچی کو پانی کی فراہمی کا بندوبست کیا جب کہ شہر میں تعمیرات کے لیے سخت قوانین بنا کر اُن پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائے رکھا ۔

یہ انھی کی دور اندیش پالیسیوں کا کمال تھا کہ قیام پاکستان کے وقت ہنگامی صورتحال پیدا ہونے سے لاکھوں لوگوں کا بوجھ بھی یہ شہر آسانی سے برداشت کر گیا اور 1985 تک 80 لاکھ تک آبادی ہونے کے باوجود اس شہر کو نہ ہی پانی کی قلت کا سامنہ کرنا پڑا اور نہ ہی کسی نئے ڈرینیج نظام کی ضرورت پڑی ۔ یوں تو تعمیرات پرضابطے کے لیے 1915 میں کراچی میونسپل کی حدود میں بلڈنگ ریگیولیٹنگ ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے بلڈنگ کنٹرول فنکشنز کے قوانین بمبئی ٹاؤن پلاننگ ایکٹ 1915 اور کینٹونمنٹ بورڈ ایکٹ 1924 کے تحت بنائے گئے۔ ان قوانین میں قیام ِ پاکستان کے بعد سے کئی مرتبہ ترامیم کی گئیں ، جب کہ اس ادارے کی اتھارٹی بھی مختلف اوقات میں مختلف اختیاریوں کے درمیان شفٹ ہوتی رہی ہے، 1950 میں ٹاؤن ایکسپینشن اسکیمز کے تحت، جب کہ 1957 میں کے ڈی اے کے قیام کے بعد کے ڈی اے اور کے ایم سی کے مشترکہ کنٹرول میں رہی ۔ 

 سنہ 1962 میں واپس مکمل طور پر کے ایم سی کو دی گئی جو کہ 1974 میں پھر کے ڈی اے کے حوالے کی گئی۔ 1979 سندھ بلڈنگ کنٹرول ایکٹ کے تحت کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی قائم کر کے کراچی میں کے ڈی اے اور کے ایم سی دونوں کے ایریاز کو ملا کر اُس کے اختیار اُس کے حوالے کیے گئے۔ تب سے کراچی میں بلڈنگ کنٹرول کی تمام ذمے داریاں کے بی سی اے کے سپرد رہی ہیں ۔ اور اُس وقت سے ہی دراصل کراچی میں تعمیرات کا غیر قانونی سلسلہ شروع ہوا ہے۔ جب کہ 2011 میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو وسیع کر کے سندھ بھر کے تعمیراتی سرگرمیوں کا ذمے دار ٹھہرایا گیا اور اس کے نام میں ترمیم کر کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کر دیا گیا۔ اتنی ترامیم اور وسیع نیٹ ورک کے باوجود اگریہ اتھارٹی اور یہ قوانین ناکام رہے ہیں تو اس کی وجہ انتظامی نااہلی کے ساتھ ساتھ سیاسی رسہ کشی بھی رہی ہے ۔ بہرحال اس وقت یہ اتھارٹی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نام سے صوبہ بھر میں تعمیرات کی مجاز ہے اور صوبائی حکومت کے ماتحت ہے ۔ لیکن کراچی کے یہ حقیقی مسائل حل ہو کے نہیں دے رہے ۔

کراچی کے ان مسائل پر یوں تو مقامی آبادی آواز اٹھاتی رہی ہے اور آج بھی انڈیجینیس رائٹس الاینس اس اداراتی و بلڈر مافیا اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے جاری لینڈ گریبنگ کے خلاف محوئے جستجو ہے ۔ لیکن ان کی آواز نہ پہلے سنی گئی اور نہ اب سنی جارہی ہے ۔ عدالتوں میں بلڈر مافیا کے خلاف مقدمات ہیں لیکن انھیں ڈھیل دی جا رہی ہے ۔ جس سے بلڈر مافیا کے ساتھ ساتھ سرکاری عملداروں کے سینے بھی چوڑے ہو گئے اور ملک میں بدعنوانی سے بچنے کے لیے بدعنوانی سے کمایا گیا پیسہ کام میں لایا گیا ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے کراچی کو 40 سال قبل والی پوزیشن میں بحال کرنے کا فیصلہ دیا ہے ۔ جس کے تحت 900 کے قریب بڑی عمارتیں غیر قانونی قرار دیکر انھیں مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور غیر قانونی تجاوزات کو بھی شہر بھر سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔

ابتدائی طور پر سندھ حکومت نے رہائشی عمارتیں منہدم نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور سپریم کورٹ کو نظر ثانی کی درخواست کی لیکن سپریم کورٹ رعایت دینے کو تیار نہیں۔ اور یوں شہر میں آپریشن کا آغاز ہوا ۔ لینڈ گریبنگ میں ملوث مافیا کس قدر طاقتور ہے یہ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے بیرونی اطراف تو صاف کروائے گئے لیکن صدر میں فٹ پاتھیں اور سڑکیں آج بھی ریڑھوں اور اسٹالوں سے بند رہتی ہیں اور انتظامیہ کچھ نہیں کر پاتی ۔ لیکن گذشتہ ہفتہ گولی مار نمبر 2 میں رضویہ سوسائٹی میں 40 گز کے پلاٹ پر تعمیر شدہ ایک 6 منزلہ عمارت گرنے کا واقعہ پیش آیا جس میں 27 افراد ہلاک ہو گئے ۔  واقعے کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی پرانی روایت دوہرائی گئی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر نے مقامی افسران کو ذمے دار قرار دیا تو صوبائی وزیر بلدیات نے متعلقہ اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کو ذمے دار ٹھہرایا ۔ بہرحال اُس کے بعد کراچی بھر میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن میں تیزی آگئی ہے ۔ 

دہلی کالونی میں 160 گز پر تعمیر شدہ 12 منزلہ عمارت کو سی بی سی کی جانب سے توڑنے کا عمل جاری ہے ۔ لیکن اعتراض تو یہ بھی حق بجانب ہے کہ اونچی عمارتیں گرانے میں بھی دوغلی پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔ یہی دوہرا معیار کراچی کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے میں رکاوٹ ہے ۔ جیسے قائد آباد میں بھی ایک کثیر المنزلہ عمارت کو مسمار کیا جارہا ہے لیکن ملیر بھر میں موجود غیر قانونی قبضوں کو محض اس لیے ہاتھ نہیں لگایا جارہا کہ اُن قبضوں میں بڑے بڑے بااثر لوگ اور ادارے ملوث ہیں۔ ایک طرف 50 لاکھ کے قریب غیر قانونی آبادی کو ڈی پورٹ کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جارہا اور اُن کی غیر قانونی بستیوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جارہا تو دوسری طرف صدیوں سے قائم مقامی قدیم گوٹھوں کو بلڈر مافیا سے ملی بھگت کے تحت بلڈوز کیا جارہا ہے۔ کراچی کے قدیم گوٹھوں سے متعلق پاکستان کے قیام سے 73 سالوں میں بھی حکومت کوئی واضح پالیسی نہیں بناسکی ہے ۔ 

شہر میں 1985 کے بعد دیگر صوبوں کے آئے ہوئے لوگوں کے قائم کردہ جعلی گوٹھوں اور کالونیوں کو تو کچھ نہیں کہا جارہا ۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ سندھ حکومت نے غیر قانونی قبضے کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کے اختیارات ایس ایچ اوز کو دیے ہیں اور انھیں تنبیہہ کی ہے کہ کسی بھی غیرقانونی قبضے کی صورت میں اُس کا مقدمہ متعلقہ ایس ایچ او پر قائم کیا جائے گا اور ساتھ ہی اسسٹنٹ کمشنر ، مختیار کار اور ایس بی سی اے کے افسران کو بھی ہٹا دیا جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ سندھ حکومت اس مرتبہ مزید سخت اقدامات کرتے نظر بھی آرہی ہے ۔ ایس بی سی اے کے تین عملداروں ڈپٹی ڈائریکٹر ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور بلڈنگ انسپیکٹر کو گرفتار کیا گیا ہے ، جب کہ 28 افسران کو معطل اور کئی کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ لیکن جو بنیادی سوال ہے وہ اپنی جگہ قائم ہے کہ بلڈر مافیا اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے تعمیر ہونے والی غیر قانونی عمارتوں کو مسمار تو کیا جارہا ہے لیکن اُن عملداروں اور بلڈرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ۔

تعمیر کے وقت ایس بی سی اے کے ساتھ ساتھ کے الیکٹرک ، سوئی گیس کمپنی ، کے ایم سی ، پولیس ، سی بی سی کے عملدار رشوت لیتے رہے اور سیاسی جماعتوں کے مقامی شکرے دونوں ہاتھوں سے فوائد سمیٹتے رہے اور تعمیر کو مکمل ہونے دیا۔ اس لیے کارروائی تو اُن کے خلاف ہونی چاہیے، جنھوں نے بدعنوانی سے اپنی جیبیں بھری اور ککھ پتی سے لکھ پتی بلکہ کروڑ ، ارب پتی بن گئے لیکن یہاں کارروائی اُن غریبوں کے خلاف ہو رہی ہے جو آلو چھولے بیچ کر ، مزدوری کر کے یا پھر اوور ٹائم کر کے پیسہ پیسہ جوڑ کر جن غریبوں نے یہ گھر خریدے، اپنی جمع پونجی لگا کر بھی وہ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ہیں ۔ اُن کو اپنے ہی گھروں سے بے گھر کیا جارہا ہے ۔ پھر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اُن متاثرین کے معاوضے یا دوسری جگہ آباد کرنے سے متعلق اب تک نہ تو عدالت نے کوئی واضح حکم دیا ہے اور نہ ہی حکومت کوئی پالیسی بناسکی ہے ۔ وہ بے یار و مددگار صرف اپنی قسمت کو کوستے اور روتے پیٹتے رہ گئے ہیں ۔

جب کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سننے میں آرہا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کے لیے رینجرز کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ طے ہونا چاہیے کہ اداروں کا کردار کیا ہے ؟ کس ادارے نے کیا کام کرنا ہے؟ بعض اہم ادارے کیوں ریئل اسٹیٹ اور بلڈر بن گئے ہیں ؟ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رضویہ سوسائٹی جیسی ہزاروں پرانی بلڈنگز شہر میں موجود ہیں جو کبھی بھی کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہیں مگر اس سے متعلق شہری ، صوبائی اور وفاقی حکومت کوئی بھی پلان تیار نہیں کر پائی ہیں ۔ یوں تو تینوں بلکہ چاروں حکومتوں کے پاس پلاننگ اینڈ ڈولپمنٹ ڈپارٹمنٹ ہیں لیکن شہر بلکہ ملک کی حالت دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ وہ ڈپارٹمنٹ کوئی کام بھی کرتے ہیں۔

اگر کوئی کام کرنے پر آئے تو سابقہ میئر کراچی نعمت اللہ خان کی طرح اکیلے سر بھی آگے بڑھا جاسکتا ہے اور حقیقی طور پر ترقیاتی معیاری اسکیمیں بھی بنائی جاسکتی ہیں اور انھیں عمل میں بھی لایا جاسکتا ہے ۔ لیکن اگر کام نہ کرنے کا ارادہ کیا جائے تو پھر موجودہ میئر کراچی ، صوبائی حکومت ، وفاقی حکومت اور دیگر کئی اداروں کی بھرمار کے باوجود بھی کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہو پاتا۔ گولیمار رضویہ سوسائٹی کے حادثے کے بعد کیے جانے والے اقدامات اگر پہلے کیے جاتے تو یہ 27 لوگ جاں بحق نہ ہوتے ۔ بہرحال ’’دیر آید درست آید‘‘ کی بنا ء پر اس فیصلے کو بھی صوبہ باالخصوص کراچی کے عوام سر آنکھوں پر رکھتے ہیں اوراب یہ مشورہ دیتے ہیں کہ جلد سے جلد تفتیش کر کے ایسے دیگر راشی افسران و بلڈر مافیا کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور ساتھ ہی ہنگامی بنیادوں پر شہر میں سروے کروا کر غیر قانونی و زبون حال عمارتوں کو خالی کروایا جائے اور محفوظ طریقے سے مسمار کر کے اُن میں بسنے والے لوگوں کو متبادل رہائش فراہم کی جائے ۔ 

جب کہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ اور اربنائیزیشن کے تحت شہر بھر کو یک شہری نظام کے تحت جدید خطوط اور سہولیات پر استوار ماحول دوست شہر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔ جس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ کس طرح ان زبوں حال و مدہ خارج عمارتوں سمیت شہر بھر میں غیر قانونی عمارتوں کا تدارک کیا جائے اور اُن میں بسنے والے لوگوں کے محفوظ و معیاری اور قانونی رہائش کا بندوبست کیا جائے۔ نئی سوسائٹیز و میگا رہائشی اسکیموں پر پابندی عائد کر کے شہر میں موجود مقامی لوگوں کو بہتر رہائشی متبادل دیکر شہر کی ’’عروس البلاد‘‘ والی شناخت کو بحال کیا جائے۔ شہرکی رونقیں بحال کرنے پر توجہ دینی چاہیے اور کشادہ و ہوادار اور صاف ستھرا کراچی کی جانب پیش قدمی کی جائے ، جس کے لیے چائنہ کے شہر شین زاہن کی طرز پر کام کیا جائے جو 40 سال قبل کراچی کی طرح ہی مچھیروں کی ایک چھوٹی بستی تھا لیکن اب وہ 2 کروڑ سے زیادہ آبادی کے باوجود دنیا کا سب سے جدید آئی ٹی سٹی بن گیا ہے ۔ اور ہو سکے تو سپریم کورٹ اس پر کمیشن قائم کرے ۔ جس کے لیے واٹر کمیشن کی طرز پر ایک ترقیاتی کمیشن قائم کرنا چاہیے جو کہ شہر میں یکساں نظام ِ انتظام کے تحت ہو جو کہ شہری حکومت کے اختیار میں اور صوبائی حکومت کے ماتحت ہو اور وفاقی حکومت اُس کی مانیٹرنگ کے فرائض بجا طور پر سرانجام دے ۔

عبدالرحمان منگریو 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments