Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں تیزی سے پھیلتا کورونا وائرس

کورونا وائرس کی وبا سے عالمی معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ میں اِس موضوع پر مسلسل کالم تحریر کررہا ہوں کیونکہ موجودہ حالات میں کوشش کے باوجود کسی نئے موضوع پر لکھنے کیلئے دل و دماغ آمادہ نہیں۔
ملک اور ملک سے باہر میرے قارئین، بزنس مین اور معیشت دان ہر روز کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے نئے حالات، مستقبل میں اُن کے اثرات اور کراچی میں تیزی سے پھیلتے کورونا وائرس پر مجھ سے معلومات شیئر کر رہے ہیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ اِس معلومات کو اپنے کالم کا حصہ بنائوں۔ کل میری ایک دوست شہزادی نواز دھانجی جو پاکستان میں سینئر بینکر تھیں اور اب اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو گئی ہیں، نے امریکی اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مالی حالات پر مبنی ایک رپورٹ بھیجی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں امریکہ میں چیپٹر 11 فائل کرنے والی کمپنیوں کا سونامی شروع ہونے والا ہے۔

امریکی قوانین کے مطابق بینک کرپسی سے پہلے کمپنیوں کو چیپٹر 11 فائل کرنا پڑتا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق گزشتہ ہفتے ریسٹورنٹ، ڈپارٹمنٹل اسٹورز، ایپرل ٹریڈرز (79فیصد)، آٹوموبائلز (70 فیصد)، الیکٹرونکس اپلائنسز(61 فیصد) اور آئل اینڈ گیس سیکٹر (28 فیصد) کو اپنے لینڈ لارڈز سے 3 ماہ فری رینٹل کے نوٹسز ملے ہیں جبکہ کچھ مالز میں کرایہ داروں کو ڈیفالٹرز نوٹسز بھی جاری کئے گئے ہیں جس میں عدم ادائیگی کی صورت میں لیز منسوخ کر کے اسٹورز کو بند کرنا شامل تھا۔ ایک تخمینے کے مطابق صرف اپریل کے مہینے میں رینٹ کی عدم ادائیگی 7.4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو مجموعی رینٹ کا 45 فیصد بنتا ہے لہٰذا لینڈ لارڈ اُن کرایہ داروں جنہوں نے اپنے اسٹورز عارضی طور پر بند کیے ہوئے ہیں، کو بینک کرپسی سے بچانے کیلئے رینٹ کی چھوٹ دینے پر مجبور ہیں لیکن کورونا وائرس کے دوران دنیا میں آن لائن بزنس کی ڈیمانڈ میں 10 فیصد اضافہ ہورہا ہے جو مستقبل میں آن لائن بزنس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی حالیہ رپورٹ ’’ایشین ڈویلپمنٹ آئوٹ لک‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو 5.8 کھرب ڈالر سے 8.8 کھرب ڈالر کے نقصانات متوقع ہیں جو عالمی جی ڈی پی کا 6.4 فیصد سے 9.7 فیصد ہے جبکہ اسی رپورٹ میں 158 ملین سے 242 ملین افراد کے بیروزگار ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یہ نقصانات اور بیروزگاری کے اعداد و شمار ایشین ڈویلپمنٹ کی گزشتہ ماہ کی رپورٹ سے تقریباً دگنا ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کورونا وائرس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو سفری بندش اور لاک ڈائون سے ایئر لائنز، ہوٹلز، ٹورازم اور مالی اداروں کا دیوالیہ ہونا اور عالمی مالیاتی بحران دور نہیں۔

اکثر سوال پوچھا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کی اس عالمی وبا میں جاپان کیوں نارمل ہے؟ حالانکہ دنیا میں سب سے زیادہ ضعیف افراد جاپان میں پائے جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں جاپان میں دفاتر، فیکٹریاں، ریسٹورنٹس، مالز، بلٹ اور میٹرو ٹرینز اور انٹرنیشنل بارڈرز کھلے ہیں جبکہ اسکول اور پبلک مقامات بند ہیں۔ جاپانیوں کی طرز زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ جاپان میں بچپن ہی سے بچوں کو کوڈومو ماسک پہننے کو دیا جاتا ہے جو بڑے ہوکر اُن کی عادت بن جاتی ہے۔ جاپانی کلچر میں ملاقات کے وقت ہاتھ ملانا شامل نہیں بلکہ وہ جھک کر استقبال کرتے ہیں۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہیں اور اپنی اِن عادتوں کی وجہ سے آج وہ کورونا وائرس کی وبا سے کافی حد تک محفوظ ہیں۔ ہمیں اور ہمارے بچوں کو بھی مستقبل میں جاپانیوں کی طرح اچھی عادتیں اپنانا ہوں گی جو کورونا کے بعد طرز زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔

گزشتہ ہفتے میں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، سینئر وزراء ناصر حسین شاہ، سعید غنی، مکیش چائولہ اور اکرام دھاریجو سے چیف منسٹر ہائوس میں ملاقات میں پوچھا کہ ’’کیا یہ صحیح ہے کہ کراچی میں آغا خان اور دیگر اسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے اب کوئی بستر دستیاب نہیں؟‘‘ وزیراعلیٰ سندھ کا جواب ’’ہاں‘‘ میں تھا۔ یہ صورتحال مجھ سمیت کراچی چیمبر کے صدر آغا شہاب، سراج قاسم تیلی اور وفد میں شامل دیگر بزنس لیڈرز کیلئے باعث تشویش تھی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کورونا وائرس سب سے تیزی سے کراچی میں پھیل رہا ہے۔ 

مجھے خدشہ ہے کہ مستقبل میں کراچی میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے اُنہیں طبی سہولتیں ملنا مشکل ہو گا۔ کراچی پاکستان کا صنعتی و معاشی حب ہے اور پاکستان کا 70 فیصد ریونیو اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ غریب پرور شہر پورے پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ کراچی کا باسی ہونے کے ناطے میں وزیراعظم عمران خان، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تمام ذرائع اور وسائل استعمال کر کے کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے کراچی کے اسپتالوں میں اضافی بستر، آکسیجن اور وینٹی لیٹرز ہنگامی بنیادوں پر فراہم کریں جس کی دستیابی ٹی وی چینلز پر نشر کی جائے تاکہ مریض دھکے کھانے سے بچ سکیں نہیں تو کراچی کا نقصان ملک کیلئے ناقابل برداشت تباہی ثابت ہو گی۔ میری پالیسی سازوں کو تجویز ہے کہ وہ آنے والے بجٹ میں غیرترقیاتی اخراجات کم کر کے صحت کے شعبے کیلئے زیادہ سے زیادہ رقم مختص کریں جو حالات کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments