Ticker

6/recent/ticker-posts

اے روشنیوں کے شہر بتا

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ دو تین دن کی بارشوں نے الم ناک تباہی مچائی، ایسا نہیں تھا کہ کوئی آفت آئی ہو موسلا دھار بارشوں کے تسلسل سے شہر جل تھل ہوا ہو اور لوگ بارش بند ہونے کی دعا مانگ رہے ہوں، بلکہ گھن گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش ہوئی جو برس ہا برس سے ہوتی آرہی ہیں، اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی مگر جو بنیادی اور چشم کشا سوال تھا وہ صوبائی اور مقامی حکومتوں کی غفلت، تساہل، نااہلی، اپنے فرائض سے چشم پوشی، انفرا اسٹرکچر کی ترقی، نگہداشت اور استحکام سے لاتعلقی تھی جس نے بارش کو رحمت سے زحمت اور عذاب بنا دیا، بارشوں نے ہمیشہ سندھ انتظامیہ اور مقامی و ضلعی حکومتوں کا بھانڈا پھوڑا ہے۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بے نقاب ہوا ہے، سندھ انتظامیہ اور بے نام سی مقامی حکومتیں نقش بر آب ثابت ہوئی ہیں، بلدیاتی ڈھانچہ، صوبائی سیٹ اپ، مقامی حکومت، میئر کراچی اور کے الیکٹرک سارے ادارے موجود ہیں۔ 

مگر جب بارش آتی ہے تو تمام ہنگامی انتظامات، رین ایمرجنسی اور اداروں کے سربراہ عملی کاموں کی نگرانی کرتے ہوئے کہیں دکھائی نہیں دیتے، ان دو تین دنوں میں صوبائی حکومت اور اس کے ساتھ منسلک ڈھیر سارے ادارے اپنی کارکردگی کے کچرے اور ملبے سمیت سیلابی پانی کے ریلے میں بہہ گئے، یہ صورتحال دل فگاران کراچی کا ایک شہر آشوب ہے، اس پر وزیر اعلیٰ سندھ، مقامی حکومت کے ذمے داران اور بابائے شہر وسیم اختر کو سوچنا چاہیے، سب کو بلا کر پوچھنا چاہیے کہ شہر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ایسی غفلت کیونکر ہوئی ؟ یہ شہر خوش جمال برباد کیوں ہوا؟ کراچی کل شہروں کی دلہن کہلاتی تھی، آج اس کے مکین رو رہے ہیں، لوگ مہنگائی، بیروزگاری اور کورونا کی مصیبت میں الجھے ہوئے ہیں اور اوپر سے بارش کے باعث پریشانی، لوگ کمر کمر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اورنگی ٹاؤن میں مدرسے کی بچیوں اور بچوں کو رضاکاروں نے خود اپنی مدد آپ کے تحت پانی میں ڈوبنے سے بچایا، بعض کی اموات مین ہول میں گرنے سے ہوئی۔

نشیبی علاقوں میں گھر زیر آب ہیں، کھانے کو کچھ نہیں، پینے کا پانی دستیاب نہیں، بلکل ارنسٹ ہیمنگوے کے ناول ’’اولڈ مین اینڈ دا سی‘‘ کا منظر ہے کہ ہر طرف پانی ہی پانی، مگر پینے کو ایک قطرہ نہیں شہریوں کی املاک، جمع پونجی، بستر، فرنیچر، کچن، کمرے سب تباہ ہو چکے ہیں، عوام کی بے بسی، مجبوری اور اذیت پر صرف معذرت سے کام نہیں چلے گا، ان پر شہر قائد کے سابقہ میئر حضرات کے احسانات اور خدمات کا کچھ تو اثر ہونا چاہیے، وہ بے بس ہیں، ان کے بقول وہ لاچار میئر ہیں، ان کے پاس اختیارات نہیں تو وہ مستعفی ہوں، کراچی کے انسان دوست میئرز کی روحوں کو شرمندہ نہ کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ چینلز پر شہر کی جو حالت زار دنیا میں ہم وطنوں اور غیر ملکیوں کو نظر آئی ہے اسے سب نے اشکبار آنکھوں سے دیکھا ہو گا۔ ملک کی ڈھائی کروڑ آبادی کے سامنے ایک شکستہ، زمین بوس اور ناقابل یقین اربن تباہی کا منظر نامہ پھیلا ہوا ہے، جس پر ایک شہر آشوب بھی لکھا جاسکتا ہے۔

اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ مون سون کی بارشیں تو سال بہ سال آتی رہتی ہیں، حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ دانشمندانہ طرز عمل، سیاسی حکمت عملی، بہتر انتظامی صلاحیت اور بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بناتے، جب محکمہ موسمیات کی جانب سے تسلسل کے ساتھ موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی ہو رہی تھی تو وہی صائب وقت عمل کا تھا لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ واٹربورڈ، صوبائی حکومت اور وزیر بلدیات کی ٹیم اور وفاقی وزرا اس وقت دیگر ترجیحات کے زیر اثر تھے، ارباب اختیار تین جے آئی ٹیز کے میڈیا میں دفاع اور مخالفت کی نورا کشتیوں میں مصروف تھے، عوام کی مشکلات کی کس کو کیا پرواہ تھی۔ مختلف علاقوں میں بجلی کی طویل بندش رہی جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

 آدھے شہر میں موسلا دھار بارش سے بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ بارش ہوتے ہی متاثرہ علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی جو کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی بحال نہ ہو سکی۔ بارش کے بعد اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، سعید آباد، لیاقت آباد، کیماڑی، لیاری، ملیر، کورنگی، اولڈ سٹی ایریا سمیت دیگر علاقے شدید متاثر ہوئے۔ سب سے زیادہ ضلع وسطی اور غربی کے علاقے متاثر ہوئے۔ دونوں اضلاع کے 70 فیصد علاقے بجلی سے محروم ہوئے جن میں کچھ علاقوں میں بجلی بحال کر دی گئی تھی لیکن بعض علاقوں میں بحالی کا کام ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ ترجمان کے الیکٹرک کا کہنا تھا بارش کے بعد کچھ علاقوں میں احتیاطی طور پر بجلی بند کی گئی، شہری ٹوٹے تار اور پولز سے دور رہیں اور جانوروں کو بھی بجلی کے پولز کے ساتھ نہ باندھیں۔

 کراچی کی بارشوں پر عوام اور ماہرین کی طرف سے افسوس اور سینہ کوبی کو زمانہ ہو چکا ہے، اب ضرورت اس کولیٹرل ڈیمیج کے ازالے کی ہے، سندھ اور اربن کراچی سے متعلقہ سویلین اداروں اور محکموں کے سربراہوں کو ذمے دار قرار دے کر ان کا احتساب ہونا چاہیے، کم از کم اس بات کا فیصلہ تو ہو کہ 72 برسوں میں کراچی میں فراہمی آب اور نکاسی آب کے شفاف اور مستحکم منصوبے کیوں پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے۔ اربن رین ایمرجنسی اگر یہی ہے کہ شہر ڈوب جائے اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے، تو اس شہر کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ بارشوں سے ہونے والی بربادی صوبائی اور مقامی حکومتوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہے، کوئی ادارہ کام کر نے پر تیار نہیں، سب کے انتظامی سینگ ایک دوسرے میں اٹکے ہوئے ہیں، جب ایسی افراتفری اور جوابدہی کا کوئی بنیادی میکنزم موجود نہ ہو، سب ہی بے لگام ہوں تو کراچی کے دکھ کیسے کم ہوںگے۔ چاک گریبان شہر کے آنسو کون پونچھے گا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments