Ticker

6/recent/ticker-posts

ڈوبتا شہر اور بے بس مکیں

کراچی کی حالیہ بارشوں کے دوران وہاں جس کا حال پوچھا اسے پریشان حال پایا۔ میرے ایک مہرباں دوست اختر بھائی تھے جو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اُن کی بیگم کی خیریت معلوم کرنا چاہی تو جواب ندارد۔ پریشانی بڑھی تو چار روز کے بعد گزشتہ شب اُن کا فون آیا۔ وہ کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کی مکین ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کے گھر میں پانی داخل ہو گیا تھا۔ اوپر سے شدید بارش‘ چار روز سے بجلی غائب‘ پینے کے پانی سے محرومی اور ستم بالائے ستم موبائل فون بند‘ کسی کی خبر لے سکتے تھے نہ اپنی خیریت کے بارے میں بتا سکتے تھے۔ ناچار وہ بیٹی کے سسرال ''پناہ گیر‘‘ کی حیثیت سے بادل ِنخواستہ چلی گئیں کہ ان کی اکلوتی بیٹی کا یہی اصرار تھا۔ اسد بھائی امریکہ سے آئے ہوئے تھے۔ ناظم آباد میں اُن کا آبائی گھر ہے‘ بہت مشکل سے رابطہ ہوا تو کہنے لگے : حسین بھائی! اپنے پیاروں سے مدتوں بعد مل کر خوشی ہوئی مگر گزشتہ تین روز سے گھر کے آس پاس گلیاں سمندر بن چکی ہیں اور ہم گھر کے جس تاریک جزیرے میں مقید ہیں اس میں بجلی ہے نہ پانی۔ 

کم و بیش کراچی کے گھر گھر کی یہی کہانی ہے‘ یہی پریشانی ہے۔ گزشتہ روز انتہائی متحرک اور جواں ہمت امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کو فون کیا تاکہ اُن سے شہر کی تباہی و بربادی کے بارے میں فرسٹ ہینڈ معلومات لے سکوں۔ اس وقت حافظ صاحب سرجانی ٹائون میں تھے انہوں نے کال بیک کرنے کا وعدہ کیا۔ رات گئے اُن کی کال آ گئی۔ انہوں نے جو کچھ بتایا اس سے تو میری نیند اُڑ گئی۔ اشارتاً حافظ صاحب سے عرض کیا:

سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اُڑ گئی تیرے فسانے میں

یہ ''فسانہ‘‘ نہیں سو فی صد حقیقت ہے۔ حافظ صاحب اللہ والے ہیں۔ وہ مبالغہ آرائی سے نہیں صدق بیانی سے کام لیتے ہیں۔ حافظ صاحب نے بتایا کہ انہوں نے آج سارا دن سرجانی ٹائون اور یوسف گوٹھ میں گزارا جہاں بارشوں کے رک جانے کے باوجود گلیوں اور گھروں میں کمر کمر تک پانی کھڑا ہے۔ حکومت‘ بلدیہ یا کسی اور سرکاری ادارے کی طرف سے یہاں کے بدقسمت مکینوں کو ابھی تک کسی قسم کی کوئی امداد نہیں پہنچائی گئی اور نہ ہی نکاسی ٔ آب کا کوئی ایمرجنسی بنیادوں پر کام ہوا ہے۔ 

یہاں کے آفت زدہ شہریوں کو خوراک‘ پینے کا پانی اور ضروری ادویات اور آمدورفت کی سہولتیں بھی الخدمت اور ایدھی ٹرسٹ جیسی ویلفیئر تنظیموں کی طرف سے پہنچائی جا رہی ہیں۔ کراچی کے بنیادی مسائل اور اُن کے حل کے بارے میں بھی حافظ صاحب سے تفصیلی بات ہوئی مگر پہلے ہم اپنے طور پر کراچی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی کا کوئی ایک نہیں کئی مسائل ہیں مگر کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے حکمران ہیں۔ کراچی کی صوبائی حکومت ہو یا شہری یا پھر وفاقی حکومت کوئی بھی شہر کے مسائل کو سنجیدگی اور دیانتداری سے حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ حالیہ بارشوں نے جہاں کلفٹن اور ڈیفنس جیسے پوش علاقوں کے ترقیاتی کاموں کی قلعی کھول دی ہے وہاں سرجانی ٹائون اور یوسف گوٹھ جیسے علاقوں کی کسمپرسی کا نقشہ بھی دنیا کو دکھا دیا ہے۔ کراچی میں برسوں سے کچرے کو اٹھانے کا کوئی بندوبست نہیں۔ شہر میں جگہ جگہ آپ کو گندگی کے پہاڑ نظر آئیں گے۔ 

قدرت نے سیلابی نالوں کی صورت میں نکاسیٔ آب کا انتظام کر رکھا تھا مگر حکمرانوں کی بے حسی کے سبب اُمڈتی اور بڑھتی ہوئی آبادی نے کچرے کو گجر نالے اور لیاری ندی جیسے دوسرے نکاسیٔ آب کے قدرتی ذرائع میں پھینک پھینک کر انہیں مسدود کر دیا ہے۔ لہٰذا پانی سمندر میں جانے کے بجائے ان نالوں سے اُمڈ اُمڈ کر باہر آتا ہے اور آبادیوں کو تاراج کرتا ہے۔ کراچی ڈیفنس جیسے کئی پوش علاقوں میں بھی پانی کی قدرتی گزرگاہوں کا خیال نہیں رکھا گیا اس کا نتیجہ وہی کچھ ہونا تھا جو حالیہ بارشوں میں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سیوریج کا نظام کہیں انتہائی ناقص اور کہیں ندارد ہے۔ بارشوں کے سبب سیوریج کی لائنیں بھر جاتی ہیں۔ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں حکمرانوں نے کبھی سنجیدگی سے سوچ بچار نہیں کی۔ پچاس ساٹھ برس سے بڑھتی ہوئی آبادی کو اس شہر میں موجود خدمات کہاں تک سہارا دے سکتی ہیں۔ 1961ء میں کراچی کی آبادی صرف 21 لاکھ تھی جبکہ 1968ء میں یہ تقریباً 30 لاکھ ہو گئی اور 2017ء میں آبادی سرکاری طور پر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تک جا چکی ہے۔ 

کراچی کے مسائل کا سہ نکاتی خلاصہ بددیانتی‘ حکمرانوں کی بے حسی اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ کراچی کو جب جب کوئی دیانتدار‘ مخلص اور بیدار مغز قیادت نصیب ہوئی تب تب اس شہر نے معجزوں کو رونما ہوتے دیکھا۔ 1979ء سے 1983ء اور پھر 1983ء سے 1987ء تک میئر عبدالستار افغانی تھے۔ انہوں نے دیانت و امانت کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے شہر کی بہت خدمت کی۔ صرف دو دہائیاں قبل نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ 2001ء سے 2005ء تک میئر کراچی رہے۔ انہوں نے کراچی میں پلوں‘ انڈرپاسز‘ سکولوں‘ کالجوں اور خدمت کے دوسرے اداروں کا ایک جال بچھا دیا اور پھر نکاسیٔ آب کے مستقل حل کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی مگر متعلقہ دیگر اداروں نے ''کمیشن‘‘ نہ ملنے کی بنا پر اُن کے ساتھ تعاون نہ کیا۔ ان کے دور میں نکاسیٔ آب کا جتنا کام کیا گیا تھا اسے بھی برباد کر دیا گیا اور اس پروجیکٹ کو آگے نہ بڑھنے دیا گیا۔

اب ذرا حافظ نعیم الرحمن صاحب کی دو چار اہم باتیں بھی سن لیں۔ حافظ صاحب نے اُن مسائل کے حقیقی اسباب کی نشاندہی کی جن مسائل کا ہم اوپر تذکرہ کر آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہری یا صوبائی حکومتوں نے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی پروگرام وضع نہ کیا اور اربوں کے فنڈ خوردبرد کر دیئے گئے۔ اسی طرح اپنے ادوار میں ایم کیو ایم نے جہاں چاہا وہاں دفاتر بنا لیے‘ شادی گھر بنا لیے‘ پلازے تعمیر کر لیے اور ذاتی عمارات کھڑی کر لیں۔ غریبوں سے بھاری قیمت وصول کر کے انہیں ندی نالوں کے کناروں اور بغیر منصوبہ بندی کی زمینوں پر بسا دیا اور راستوں‘ سیوریج اور نکاسیٔ آب کا کوئی انتظام نہ کیا۔ میں نے حافظ صاحب سے کہا‘ مصطفی کمال تو اپنی پارسائی کا بہت دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کا جواب امیر جماعت اسلامی کراچی نے یوں دیا: من خوب می شناسم پیرانِ پار سارا۔ انہوں نے بتایا کہ جتنی چائنا کٹنگ مصطفی کمال کے دور میں ہوئی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ 

چائنا کٹنگ سے مراد سرکاری و غیرسرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے ان کی فروخت ہے۔ چائنا کٹنگ والے زیادہ سے زیادہ مال سمیٹتے اور جیبوں کو بھرتے رہے۔ دنیا میں سیلابوں پر قابو پانے‘ کچرا ٹھکانے لگانے اور نکاسیٔ آب کا ایک سے بڑھ کر ایک ماڈل ہے۔ سین اینٹونیو امریکہ میں 1921ء میں شدید سیلاب آیا۔ سڑکیں اور گلیاں ندی نالے بن گئے۔ 51 ہلاکتیں ہوئیں۔ انہوں نے اس پر نہایت مہارت سے قابو پایا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارشوں اور سیلابی ریلوں کا مسئلہ حل کر دیا۔ ٹائون پلانرز اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ کچرے کو ری سائیکل کرنے میں جرمنی دنیا میں سب سے آگے ہے۔ اسی طرح سنگاپور نے کچرے کو جلانے اور اس سے بجلی پیدا کرنے اور پھر کچرے کی راکھ کو سمندر کی تہہ میں دبا دینے کا شاندار نظام قائم کیا ہے۔ اگر نیت درست ہو اور دیانت و امانت موجود ہو تو پھر کراچی کو بھی بہترین ماڈل بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ شہری‘ صوبائی اور وفاقی ساری حکومتیں الزام تراشیاں اور پگڑیاں اچھالنا بند کریں اور مکمل اتفاق اور سچے جوش جذبے کے ساتھ مل کر کام کریں۔ تاہم سردست تو ڈوبتے ہوئے شہر کی کہانی شاعر نے یوں بیان کی ہے؎

ہاں! ڈوبتے ہوئوں کی بڑھانے کو بے کسی
حدِ نظر پہ کوئی کنارا بھی چاہئے

حکمرانوں کے بے حسی کی صورت میں یہ کنارا موجود ہے۔

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

بشکریہ دنیا نیوز
 

Post a Comment

0 Comments