Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا کراچی بے آسرا ہی رہے گا ؟

بد قسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی اور کراچی کے ستارے شروع ہی سے آپس میں نہیں ملے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے۔ سب سے پہلے بانی پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اردو اور سندھی زبانیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوئیں۔ اس طرح مشہور جملہ مرحوم رئیس امروہوی کا ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ پھر پاکستان کے واحد صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ ہوا اور کراچی کے نوجوانوں کی نوکریوں پر پہرا بٹھا دیا گیا۔ جو صرف 10 سال کے لئے تھا مگر آج تک جاری ہے اور نوکریوں پر مکمل طور پر دروازے بند ہو چکے ہیں۔ پھر اس کیخلاف MQM میدان میں آئی اور پوری مہاجر برادری نے اس کا بھر پور ساتھ دیا تو بظاہر مہاجر کاز وہ بھی درپردہ مہاجروں کے مفادات کا سودا کرتی گئی اور ایک ایک کر کے کراچی کے ادارے سندھ کے ہاتھوں فروخت ہوتے گئے، پہلے کراچی ڈیلویلپمنٹ اتھارٹی یعنی کے ڈی اے سندھ SBCA بنا ، کراچی روڈ اتھارٹی SRT بنا۔

تمام ٹیکس کراچی کو ملتے مگر وہ سندھ کے کھاتے میں جاتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ ہر ادارہ کراچی سے ہتھیا کر سندھ انتظامیہ کو دے دیا گیا۔ اس میں اگر سندھی اور مہاجروں کے مفادات کا خیال رکھا جاتا تب بھی کوئی بات نہیں تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ پی پی پی کی حکومت جب بھی آتی ترمیمیں کر کے کراچی میں ڈسٹرکٹ اپنی مرضی کے بناتی، جس علاقے کو جہاں سے چاہتی نکال دیتی اور جہاں وہ کمزور ہوتی اس علاقے سے جوڑ دیتی، اس کی آخری مثال کراچی کے ساتویں ڈسٹرکٹ کیماڑی کی ہے۔ ایم کیو ایم واحد مہاجروں کی اسٹیک ہولڈر تھی اور الطاف حسین اکیلے مہاجروں کے مفادات سے کھیلتے رہے، یہاں تک کہ اب فارغ لندن میں شاندار زندگی 30 سال سے گزار رہے ہیں ۔ کراچی والوں کی بے چینی بڑھتی گئی ، اب مہاجروں نے نئی ابھرتی ہوئی پاکستان تحریک انصاف پر بھروسہ کیا کہ بقول وزیر اعظم پاکستان عمران خان میں کراچی والوں کو تنہا نہیں چھوڑوں گا ، مگر 2 سال بعد اب تینوں اسٹیک ہولڈر اکٹھے بیٹھ کر کراچی کے مفادات کا مداوا کریں گے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ صوبائی حکومت کراچی کو پھلتا پھولتے دیکھے ، اس نے تو کراچی کو روشنیوں کے شہر سے بقول انور مقصود موہنجودڑو کے مانند کراچی جودڑو بنا دیا ہے۔ تما م کراچی اور شہری علاقوں کی نوکریاں ان سے چھین لی گئی ہیں ۔ حیدر آباد میں ایک یونیورسٹی بھی نہیں بنی ، کوئی ترقیاتی کام کراچی اور حیدر آباد میں نہیں کئے گئے ۔ تمام ٹیکس ہضم کر کے سڑکیں ،بجلی، گیس، سیوریج کے نظام تباہ کر دئیے گئے۔ نالوں پر آباد کاریاں اور نئی بندشیں کر کے پانی کی نکاسی جو مرحوم نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دور میں ہوئی تھی سب کی سب تباہ کر دی گئی۔ دکھانے کیلئے ایک، دو اردو بولنے والے مشیر اور وزیر کھلواڑ کیلئے رکھ لئے ہیں ،جو مرکز کو للکار رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ 3 سیاسی جماعتیں کیسے مل کر کراچی کی محرومیوں کا ازالہ کریں گی، ان کے تو اپنے اپنے مفادات ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔

متحدہ قومی موو منٹ پر سے مہاجروں کا اعتماد اٹھ چکا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی والوں کو کراچی والوں نے آج تک اپنا ووٹ نہیں دیا ،اب رہا معاملہ پی ٹی آئی کا، کیا وہ صوبے کی حکومت کے بغیر کچھ کر سکے گی اور کیا صوبائی حکومت اپنے ہاتوں سے کراچی جانے دے گی۔ ابھی مرکزی حکومت نے صرف اعلان ہی کیا ہے تو مشیران اور وزراء نے واویلا شروع کر دیا ہے اور خود بلاول بھٹو زرداری میدان میں آنے کیلئے تیار ہیں وہ کراچی کا تر نوالا چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم خود انتشار کا شکار ہے اکیلے جنگ نہیں لڑ سکے گی، ابھی مذاکرات شروع بھی نہیں ہوئے تھے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 7واں ڈسٹرکٹ بنا ڈالا، ایم کیو ایم نے 7ویں ڈسٹرکٹ پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم کورٹ میں جائیں گے مگر سوال یہ ہے میئر کراچی کا کیا ہو گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اپنے مفادات سے کیسے دستبردار ہو گی، وہ تو کراچی کی پوزیشن اور خراب کرے گی اور اس کی نظریں اب کراچی کی میئر شپ پر ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی نے خیر پور کو بھی 2 اضلاع میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی ہے، متحدہ قومی موومنٹ صرف نئے الیکشن کیلئے مہاجروں سے ہمددیاں دکھا کر اپنے بچے کھچے مفادات لیتی رہے گی۔ کراچی یتیم کا یتیم ہی رہے گا ،جب تک خود کراچی والے اپنے مفادات کیلئے میدان میں نہیں نکلتے ۔ اگر کراچی کے مفادات کی حفاظت نہیں کی گئی تو 70 فیصد معیشت فراہم کرنے والا شہر ڈوب جائے گا۔ ابھی توصرف ایک، دو بارشیں ہوئی ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے کہا ہے کہ سندھ کے عوام باہر نکلیں اور بھر پور احتجاج کریں ،پیپلز پارٹی کا یہ فیصلہ ان کی نیتوں کے کھوٹ کو ظاہر کر رہا ہے ۔ یہ فیصلہ کراچی کے اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے کیا جانا چاہئے تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی کے اضلا ع کے نام تبدیل کرنے کیلئے بورڈ آف ریونیو کو تجویز بھی دی ہے۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments