Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے مسائل کیا ہیں؟

 پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہونے کے ناتے کراچی اپنی تمام تر خوبیوں، رعنائیوں کے باوجود نہ صرف مسائل کا شکار رہا ہے بلکہ اس کی مشکلات میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ وجوہ تو کئی ہیں لیکن اصل وجہ اس کی بے سروسامانی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک پر سکون صنعت و حرفت، شفقت اور روزگار کا سب سے بڑے مرکز کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ یہاں کے باسی نہ صرف اپنی جان و مال کو غیر محفوظ سمجھنے لگے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں کہیں اور منتقل ہو گئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ آج بھی قتل و غارت، ڈاکہ زنی، جرائم کی آماجگاہ ہونے کے باوجود اپنے وجود کو نہ صرف قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ ترقی کی منازل طے کرنے پر تلا نظر آتا ہے۔ اس شہر پر کیا کچھ نہیں گزری اور اب نئے مصائب سے دو چار ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے گھر، دکانیں، چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے، جس میں ڈھابا، ٹھیلے لگانے والے 10 گھنٹوں کی مزدوری کے بعد چند پیسے کمانے والے غریب غرباء کو ان کی رہائش، روزگار کے مراکز سے اٹھا کر پھینکا گیا۔ 

نوجوانوں اور 40/35 کے عمر کے لوگ تو آسمان کی طرف دیکھتے ہیں کہ ان کے گھر کے اخراجات کیسے چلیں گے۔ دکانیں مسمار کر دی گئیں، گھر گرا دیئے گئے۔ جوان، بوڑھے، بچے اور خواتین سڑکوں پر بے آسرا مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی سننے والا نہیں۔ بہت شور مچا تو میئر کراچی وسیم اختر اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، لوکل گورنمنٹ کے وزیر سعید غنی کو تھوڑا بہت احساس ہوا کہ ان بدنصیب لوگوں کی داد رسائی ضروری ہے۔ میئر اور سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی جو سنی تو ضرور گئی لیکن اصل فیصلہ اپنی جگہ باقی رہا کہ رہائشی علاقوں اور پکی دکانوں کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ ایسے تمام مکانات اور دکانیں جو بغیر اجازت سڑکوں، فٹ پاتھوں پر تجاوزات کی شکل میں کئی سالوں سے راستے کی رکاوٹیں بن رہی ہیں۔ انہیں تو ہٹانے ہی پڑے گا۔ 

ویسے تو میئر اور وزیر اعلیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ جلد متاثرین کو متبادل جگہیں فراہم کر دی جائیں گی۔ پاکستان میں وعدے وعید تو کیے توجاتے ہیں۔ عمل درآمد ہونے تک لوگ بوڑھے ہو کر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ کہاں بسائے جائیں گے۔ کیا کوئی قطعہ اراضی ان کے لئے حاصل کر لیا گیا۔ رقم کا انتظام ہو گیا ہے، ایسے کسی سوال کا جواب دینے سے افسران قاصر ہیں۔ سپریم کورٹ کے اعلانیہ سے معلوم ہوا کہ میئر اور لوکل گورنمنٹ کے وزیر نے عدالت کے سامنے ایک روڈ میپ پیش کر دیا لیکن تفصیلات کا کچھ علم نہیں۔ آخر کب تک یہ متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پرمجبور ہوں گے۔ حکومت کو فوری طور پر پلان پیش کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے اور ٹرام کار کو جو کہ کراچی کا نایاب اثاثہ تھا دوبارہ بحال کرنے کےلئے کہا ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید شہر میں آدھمکے لیاقت آباد، غریب آباد اور دوسرے علاقوں سے جہاں کراچی سرکلر ریلوے گزرتی تھی تجاوزات کو ہٹانے کا کام شروع کر دیا گیا۔

رہائش دینے کا کام حکومت کا ہے۔ ریلوے اپنی زمین خالی کرانا چاہتی ہے۔ بے شک کراچی سرکلر بیش قیمت قومی اثاثہ ہونے کے علاوہ چین پاکستان راہداری کا حصہ بھی ہے اس منصوبے کو فوری طور پر بحال کرنے سے عوام کو ٹرانسپورٹ کی مشکلات سے کافی حد تک نجات مل جائے گی لیکن جو لوگ بھی بے گھر کئے جارہے ہیں ان کے گھر غیر قانونی ضرور تھے لیکن اب تو انہیں سر پر چھت چاہیے۔ اس کا بندوبست بھی ضروری ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کراچی جیسے گنجان شہر میں 80 ہزار نئے مکانات کی ہر سال ضرورت پیش آئے گی۔ آبادی جس تیزی سے بڑھتی جارہی ہے تو حل تو نکالنا ہی ہو گا۔ سپریم کورٹ کے احکامات اپنی جگہ صحیح۔ انسانی مسائل کو تو پیش نظر رکھنا بھی اہم ہے۔ پینے کا صاف پانی ابھی تک میسر نہیں، لوگ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ تو صادر فرما دیا لیکن نوکر شاہی کو اپنی پڑی رہتی ہے، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ لوگ گندہ پانی پی کر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ یہ ہے ہمارا اور آپ کا کراچی جو ملک کو 70 فیصد رقم فراہم کرتا ہے، تاکہ انتظامیہ مفلوج نہ ہو۔

صلاح الدین حیدر 

بشکریہ اردو نیوز

Post a Comment

0 Comments