Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کیوں اس حال کو پہنچا ؟

کراچی میں گزشتہ روز بھی بارش ہوئی اور وہی کچھ ہوا جو ہر بارش میں اہل کراچی کئی برسوں سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر کراچی شہر کی پانی کا تالاب بنی شاہراہوں کے مناظر چلتے رہے۔ ادھر کراچی کی موجودہ حالت پر ہر سیاسی جماعت کے لیڈر بیان بازی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں‘ اگر کسی کا تعلق تحریک انصاف سے ہے تو وہ پیپلز پارٹی کی درگت بنانے میں اپنی ساری توانائی خرچ کر دے گا۔ اگر کوئی ایم کیو ایم پاکستان کا عہدیدار ہے تو اس کے بیانوں میں بھی کراچی کے تمام تر مسائل کی ذمے داری پیپلز پارٹی پر ڈالی جائے گی ۔ پیپلز پارٹی کے وزراء یا مرکزی قیادت بولے گی تو وہ تحریک انصاف یا ایم کیو ایم کی طرف انگلی اٹھائے گی حالانکہ مسئلہ کراچی کے انفرااسٹرکچر کے زمین بوس ہو جانے کا ہے۔

کراچی میں بارشوں نے جو نقصان کیا ‘ اس پر انھی صفحات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے‘اب کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کراچی سیوریج سسٹم مفلوج ہو چکا ہے‘ گندے نالے کوڑا کرکٹ کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں اور ان میں پانی کا فلو سست رفتار ہو گیا ہے کیونکہ ان کی تواتر کے ساتھ صفائی نہیں کی جاتی ‘ یہی حال گٹر لائنوں کا ہے۔ کراچی میں یہ پہلی بارش نہیں ہے اور نہ ہی یہ آخری ہے۔ آنے والے ہر مون سون میں یہ بارشیں برستی رہیں گی اور قدرت کا یہ سسٹم اپنے قواعدو ضوابط کے مطابق مسلسل جاری و ساری ہے۔ جس ملک یا صوبے میں کوئی شہر آباد ہوتا ہے‘ اگر تو وہاں ذہین اور پروفیشنلز پر مشتمل بیوروکریسی ہو گی‘ دور اندیش ‘زیرک اور سمجھدار عوامی نمایندے ہوں گے تو ان کی سب سے پہلی ترجیح شہر کی منصوبہ بندی کرنا ہو گی جسے عرف عام میں ٹاؤن پلاننگ کہتے ہیں۔

ٹاؤن پلاننگ کیا ہوتی ہے ‘اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم کراچی شہر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو ہمیں انگریز کے دور اقتدار میں اس وقت کی ماڈرن ٹاؤن پلاننگ نظر آئے گی اوراس کے ساتھ ساتھ شہری اداروں کی بیوروکریسی اور دیگر اہلکار انتہائی منظم انداز میں متحرک نظر آئیں گے۔ بعض پڑھے لکھے دانشور تو یہاں تک کہتے ہیں کہ برصغیر کی تاریخ میں کراچی جیسے یا کراچی سے ملتے جلتے کسی ایک شہر کی بھی مثال نہیں ملتی۔ انگریز حکمرانی کے دور میں کراچی کی جو ٹاؤن پلاننگ کی گئی ‘وہ کافی حد تک برطانوی شہروں سے ملتی جلتی تھی ‘ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی شہر کی پلاننگ لندن اور ممبئی جیسی تھی ۔ اس میں حقیقت بھی نظر آتی ہے کیونکہ اگر انگریز کے زمانے میں لاہور کو دیکھا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کوئی یورپین شہر ہے۔

مغل عہد سے لے کر سکھ عہد تک جو لاہور تھا ‘اس کی پلاننگ برصغیر کے روایتی شہروں جیسی تھی ‘ تنگ گلیاں اور جو بڑی سڑکیں کہلاتی تھیں ‘ ان کی بھی چوڑائی بہت زیادہ نہیں ہوتی تھی اور وہ بھی سیدھی نہیں بلکہ بل کھاتی سڑکیں ہوتی تھیں‘ لیکن انگریز نے جب پنجاب پر حکمرانی قائم کی اور پرانے لاہور کے ساتھ جدید شہر کو آباد کرنا شروع کیا تو پھر پنجاب کے ساہوکاروں اور جاگیرداروں کو پتہ چلا کہ شہر کیا ہوتا ہے۔ کرشن چندر اور احمد عباس کے افسانوں سے جس لاہور کا ذکر ملتا ہے وہ انگریز کا بنایا ہوا لاہور تھا۔ بہرحال بات کراچی کی ہو رہی ہے تو کراچی بھی اپنے وقت کا ایک جدید ترین اور ماڈرن شہر تھا جہاں مسلمان‘ ہندو ‘سکھ ‘پارسی ‘اینگلوانڈینز اور یہاں تک کہ یہودی بھی رہتے تھے۔ اس وقت اس شہرکو جدید بنانے ‘اس کے سیوریج کے نظام کو فعال رکھنے ‘ فراہمی آب کا تسلسل قائم رکھنا ‘ سڑکوں ‘ گرین بیلٹس ‘پارکوں اور گلیوں کی صفائی کو یقینی بنانے کے لیے مستعد عملہ رکھنا اور اس کی نگرانی کا نظام قائم کرنا ‘ کراچی میں میونسپیلٹی کا کام تھا ۔ 

سچ یہ ہے کہ کراچی کو کراچی بنانے میں شہری اداروں کا کردار سب سے اہم تھا ۔ ان شہری اداروں کی کارکردگی نے ہی کراچی کو لندن اور ممبئی کے مقابلے کا شہر بنا دیا۔ اس شہر میں بہترین ٹرانسپورٹ کا نظام تھا ‘ گندے نالوں اور برساتی نالوں کی صفائی ایک باقاعدہ نظام کے تحت ہوتی تھی ‘ اس کے لیے کسی سیاستدان کے بیانات کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بلکہ شہری اداروں کے سرکاری افسر اور اہلکار خود بخود اپنے فرائض کی انجام دہی کرتے تھے۔ لاہور میں بھی ایسا ہی سسٹم تھا ‘دہلی میں بھی یہی کچھ تھا ‘ممبئی ‘ کلکتہ اور مدراس میں بھی شہری اداروں کی بیوروکریسی قانون کے مطابق اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے شہر کی صفائی ستھرائی کا انتظام کرتی تھی لیکن پھر جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو کراچی شہر کی آبادی میں غیرمعمولی طور پر اضافہ ہونا شروع ہوا‘ کراچی کا شہری نظام ویسے کا ویسا ہی رہا لیکن آبادی میں ہوشربا اضافہ ہوتا گیا ‘ اس بڑھتی ہوئی آبادی میں کسی قسم کی پلاننگ یا سسٹم کو فالو کرنے کے بجائے (Survival of The Fittest) کے اصول کے تحت جہاں جگہ ملی وہاں گھر بنا لیے‘ یوں کراچی میں بے ترتیب قسم کی کچی آبادیاں خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھنے لگیں۔

ان خود رو کچی بستیوں میں کسی قسم کا انفرااسٹرکچر نہیں تھا ‘ لوگوں نے اپنی مرضی سے خود ہی گلیاں بنا لیں اور بغیر نقشوں کے گھر بنا لیے ‘اس طرح کراچی کا پرانا شہری انفرا اسٹرکچر زوال پذیر ہونے لگا ‘ وقت گزرتا گیا ‘ پہلے ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہجرت کرنے والے کراچی میں بس گئے اور پھر پاکستان کے مختلف حصوں سے انسانوں کی سیلاب کی طرح کراچی کی جانب ہجرت کا عمل اسٹارٹ ہو گیا۔ خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقے ہوں یا فاٹا ‘وہاں سے محنت مزدوری کرنے کے لیے غریبوں کی نہ ختم ہونے والی ہجرت شروع ہوئی ‘ آزاد کشمیر سے بھی لوگ روز گار کے لیے کراچی پہنچنا شروع ہو گئے۔
پنجاب کے مختلف شہروں سے روز گار کی تلاش میں بھاری تعداد میں لوگوں کی کراچی کی جانب ہجرت ہوئی ‘ بلوچستان سے بھی لوگ کراچی میں آ کر بسنے لگے اور آخر میں کراچی پر افغان مہاجرین کی یلغار ہو گئی۔ اب کراچی کی آبادی کروڑوں میں پہنچ گئی لیکن کراچی کا انفرااسٹرکچر اس حساب سے ترقی نہیں کر سکا ‘ اب تو یوں سمجھ لیں کہ کراچی میں شہری انفرااسٹرکچر موجود ہی نہیں ہے۔

پاکستان کے اس سب سے زیادہ جدید اور کاروباری شہرکی بربادی کی ذمے داری کس پر ڈالی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک تو سیدھا سا جواب ہے ‘ کراچی میں جو بھی آیا‘ اس کا پہلا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسے کہیں سر چھپانے کی جگہ مل جائے ۔ ادھر قیام پاکستان کے بعد کراچی کے نئے حکمران اس ذہانت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تھے ‘ جو اچھی حکمرانی یا جسے ہم گڈ گورننس کہتے ہیں ‘ کو قائم کر سکیں۔ انھوں نے اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کو اولیت دی ‘ سرکاری زمینوں کی بے دریغ الاٹمنٹ کی گئی ‘ بے ترتیب بستیاں بسانے کی اجازت دی گئی ‘ شہری اداروں میں میرٹ کو پس پشت ڈال کر اپنے بندے بھرتی کرنے کا آغاز ہوا ‘ یوں وہ شہری ادارے جو کبھی اپنی کارکردگی کی وجہ سے پورے برصغیر کے مثالی اداروں میں شامل ہوتے تھے‘ ان میں نااہل اور خوشامدی افراد کو افسری ملنا شروع ہوئی۔ سیاسی بنیادوں پر چھوٹے عملوں کی بھرتی شروع ہوئی ۔ آج جن گھوسٹ ملازمین کا رونا رویا جا رہا ہے ‘ کراچی کی تباہی کا رونا رونے والے سیاستدانوں کو سب کچھ علم ہے۔

آج نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ بارش کوئی مسئلہ نہیں ہے ‘یہ قدرت کے نظام کا ایک حصہ ہے اور ہر سال مون سون کا موسم آتا ہے اور مستقبل میں بھی آتا رہے گا۔ کبھی اس موسم میں بارشیں زیادہ ہو جاتی ہیں اور کبھی کم۔ یہ کوئی ایسا راز نہیں ہے جس کا آج کے انسان کو پتہ نہ ہو۔ محکمہ موسمیات بتا دیتا ہے کہ رواں موسم مون سون میں کتنی بارش متوقع ہے۔ اب اگلا مرحلہ حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ ڈیٹا کو سامنے رکھتے ہوئے شہر کے انفرااسٹرکچر کو وسیع کرے اور جو پہلے سے انفرااسٹرکچر موجود ہے اس کی مون سون کے موسم سے پہلے ہی صفائی کر دی جائے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں کے بڑے شہروں میں کراچی کی نسبت بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پورا سسٹم مفلوج ہو جائے۔ اگر وقتی طور پر بارش بہت زیادہ ہو جائے تو سڑکوں پر پانی ضرور کھڑا ہو جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کا سسٹم بھی فعال رہتا ہے اور جیسے ہی بارش ہلکی ہو تو پانی سڑکوں سے غائب ہو جاتا ہے۔

کراچی دو کروڑ سے بھی زیادہ کا شہر ہے ۔ ہر شہر کی ایک (Capacity) ہوتی ہے۔ کراچی کے انفرااسٹرکچر میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ دو کروڑ آبادی کے شہر کو سنبھال سکے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو سیاسی حکمران کلاس ہے ‘ اس کا ویژن انتہائی محدود ہے‘ پاکستان کے نظام تعلیم نے ہمیں جو بیوروکریسی عطا کی ہے ‘ وہ بھی ذہنی طور پر انتہائی پسماندہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکیلے کراچی نہیں بلکہ ملک کے ہر شہر کا میونسپیلٹی کا نظام مفلوج ہے۔ پاکستان بھر کی میونسپیلٹیز کے افسروں اور ان کے اہلکاروں کی تنخواہوں اور مراعات کو جمع کیا جائے تو یہ رقم شاید کئی ارب تک پہنچ جائے لیکن عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے تنخواہیں وصول کرنے والے ان سرکاری ملازمین کی کارکردگی دیکھنی ہو تو آج کے کراچی کو دیکھ لیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

Post a Comment

0 Comments