ایک ہفتہ کی سوچ بچار کے بعد اپنے آپ سے طے پایا ہے کہ گم گشتہ اصلی شہر کراچی کے تہس نہس ہو جانے کے بارے میں کڑوی کسیلی مگر حقائق پر مبنی تاریخ کے حوالے سے باتیں کی جائیں۔ برصغیر کی تاریخ میں کراچی جیسے یا کراچی سے ملتے کسی ایک شہر کی ایک مثال نہیں ملتی ہے جو تقسیم ہند کے دوران خالی خالی ہو گیا ہو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں سے کھچا کھچ بھرنے لگا ہو۔ یوں بھی نہیں تھا کہ شہر کراچی پاکستان بننے کے بعد عالم وجود میں آیا تھا۔ ہندوستان پر حکومت کرتے ہوئے انگریز نے پڑوسی ملک سندھ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لی تھیں۔ اکثر لوگ سندھ کو ہندوستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ سندھ انگریزوں کے قبضہ میں آنے سے پہلے کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ سندھ ایک خود مختار ملک تھا۔
جس طرح دور دراز علاقوں کی جنگجو قومیں آئے دن ہندوستان پر حملہ آور ہوتی رہتی تھیں ،عین اسی طرح سندھ بھی وسط ایشیائی، افغانی اور یونانی حملہ آوروں کی زد پر تھا، اٹھارہ سو ترتالیس 1843ء میں سندھ فتح کرنے سے بہت پہلے انگریز نے ساحل سمندر کے قریب مچھیروں کے چھوٹے سے گائوں کولاچی کا جائزہ لے لیا تھا۔ خاص طور پر کیماڑی کا قصبہ انگریز کو بہت اچھا لگا تھا۔ لہٰذا سندھ فتح کرنے کے فوراً بعد انگریز نے کیماڑی کو بمبئی، سورت اور کلکتہ کی بندر گاہوں کی طرز پر بنانا شروع کر دیا۔ کیماڑی کے بننے کیساتھ ساتھ شہر کراچی بننے لگا۔ انگریز نے چھیانوے برس تک کراچی کو ممبئی اور لندن جیسا شہر بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ انیس سو سینتالیس 1947 میں جب پاکستان بنا تھا تب کراچی چھوٹا سا بمبئی اور چھوٹا سا لندن تھا کراچی کی کل آبادی تین لاکھ سے کم تھی، تقسیم ہند کے نتیجے میں آدھا شہر خالی ہو گیا تھا۔
ہندو اور سکھوں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر پارسی، عیسائی ،یہودی ،جین اور بدھ مت کے پیروکار، ایرانی، ہندوستان سے آ کر کراچی کو بسانے والے کراچی چھوڑ کر چلے گئے، تقسیم ہند کے نتیجے میں برصغیر کے کسی ایک شہر کی مثال نہیں ملتی جو کراچی کی طرح خالی خالی ہو گیا ہو۔ خونریز فسادات کے نتیجے میں ہندوستان سے نقل مکانی کر کے راجستھان سے سندھ میں داخل ہونے والوں نے کراچی کا رخ کیا وہ لوگ اسقدر تیزی سے کراچی میں آنے لگے کہ کراچی کے اسکول اور کالج بند کر کے ان میں مہاجر کیمپ قائم کئے گئے۔ دسمبر انیس سو سینتالیس 1947 تک کراچی کے چپے چپے پر مہاجر نظر آنے لگے۔ جن کو مہاجر کیمپوں میں سر چھپانے کی جگہ نہ ملی۔ انہوں نے فٹ پاتھوں، پارکوں، باغ، باغیچوں ،مندروں اور گوردواروں میں ڈیرے ڈال دیئے۔ ہندوستان سے آنے والوں کی کراچی میں آمد اس قدر تیزی سے بڑھنے لگی کہ شہر کا انتظام حکومت کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس وقت کراچی دو حکومتوں کا Capital تھا۔ ایک سندھ صوبہ کی حکومت اور دوسرے حکومت پاکستان یعنی مرکز کی حکومت کا ۔
ہندوستان سے آنے والوں میں متروکہ املاک ،جائیداد اور فلیٹوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ پوری کرپشن کے ساتھ جاری تھا۔ دوسری طرف آنے والو ں نے شہر بھر میں ہندو اور سکھوں کے خالی پڑے ہوئے فلیٹوں اور مکانوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ ہمارے ہاں اعداد و شمار ناقص ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایک سال کے اندر کراچی کی آبادی تین گنا یا چار گنا ہو گئی تھی۔ کراچی کی آبادی اس قدر تیزی سے بڑھنے لگی تھی کہ دو دو حکومتوں سے ایک شہر سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ انگریز کی حکومت کے دوران برصغیر کے دیگر شہروں ،بمبئی ،دلی ،کلکتہ ،حیدر آباد دکن، سورت ،احمد آباد، لکھنو اور مدراس کی طرح کراچی ہندوستان کے نقشہ پر موجود تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے تاریخ میں ایک مثال نہیں ملتی۔ جس میں ایک ریاست یا صوبے یا دو چار صوبوں کے لوگوں نے کسی ایک شہر کا رخ کیا ہو جس سے اس شہر کی تہذیبی ،تمدنی ،ثقافتی پہچان کا حلیہ بگڑ گیا ہو اور وہ اپنی شناخت کھو بیٹھا ہو۔
تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے لوگوں نے کسی ایک شہر کی طرف نقل مکانی اس غضب سے نہیں کی تھی جس طرح پاکستان کے مختلف صوبوں سے لوگوں نے کراچی کا رخ کیا تھا ،اور اب تک کیا ہوا ہے۔ یہ بات کسی رکھ رکھائو کے بغیر میں نے اس لئے بیان کی ہے کیونکہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے آبادی میں بے تحاشا اضافہ جو لگا تار بغیر کسی وقفہ کے جاری ہے۔ دنیا بھر کے ماہر اقتصادیات کہتے ہیں کہ کراچی Population Explosion آبادی میں دھماکہ دار اضافہ جیسی صورتحال کا شکار ہو گیا ہے۔ ہمارے اپنے ماہر اقصادیات ڈاکٹر عشرت حسین، وزیر اعظم عمران خان کے آس پاس ہوتے ہیں۔ ان سے پوچھئے ان سے مشورہ کر لیجئے۔ گول مول باتوں سے کراچی کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ آپ کو کڑوے گھونٹ پینا پڑیں گے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کراچی میں عالمی ریکارڈ توڑ آبادی کیسے بے قابو ہو کر بڑھی ہے ؟ ڈھائی لاکھ کی آبادی والا شہر اب ڈھائی کروڑ کی آبادی تلے ڈانواں ڈول ہو رہا ہے۔
پیشہ ورانہ سیاست دانوں نے اپنے ایک نعرے سے کراچی کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ پیشہ ورانہ سیاست دانوں سے میری مراد ہے ایسے لوگ جو پروفیسر نہیں بن سکتے ،ڈاکٹر نہیں بن سکتے، انجینئر نہیں بن سکتے ، سائنس دان نہیں بن سکتے ،ادیب نہیں بن سکتے، شاعر نہیں بن سکتے، کسی اخبار کے ایڈیٹر نہیں بن سکتے، صحافی نہیں بن سکتے، حتی کہ اینکر اور ایکٹر بھی نہیں بن سکتے۔ ایسے لوگ سیاست دان بن جاتے ہیں بلکہ پیشہ ورانہ سیاست دان بن جاتے ہیں، ان کے مخصوص نعرے کا ذکر میں کروں گا، جس نعرے نے پاکستان بھر کی آبادی کا رخ کراچی کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس نعرے نے پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
0 Comments