پاکستان کے معاشی گڑھ اور قائد اعظم کے شہر کراچی میں بارشوں کی بربادی نے دل دہلا دینے والی تصویریں بنائی ہیں۔ ابھی تو خبریں صرف جاں اور مکاں کے ضیاں کی بن رہی ہیں یا وہ بپھرے ہوئے ریلے جو شہر کی گلیوں، گوٹھوں اور شاہراؤں پر طوفان برپا کیے ہوئے ہیں۔ جب اس تباہی کا اگلا مرحلہ شروع ہو گا تو سمجھ آئے گی کہ اس شہر کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ پانی زلزلے سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ آنے میں دیر لگاتا ہے لیکن اس کے جانے کی مدت طویل ہوتی ہے۔ جب تک کھڑا رہتا ہے تب تک ہر لمحے فصلوں، کاروبار اور نظام زندگی کو درہم برہم کرتا رہتا ہے۔ اپنے ساتھ لائی ہوئی گندگی سے بیماریاں پھیلاتا ہے اور جب نکاس نہیں ہو پاتا تو پھر مہینوں تک بھیانک یادیں مرتب کرتا رہتا ہے۔ اس مرتبہ تو ابر رحمت نے دہائیوں کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس طرح کی بارش کسی بھی ملک میں ہوتی تو بڑا نقصان کیے بغیر واپس نہ جاتی۔
ہمارے یہاں تو ویسے ہی آؤے کا آؤا بگڑا ہوا ہے۔ کراچی تو دو بوندیں ٹپکنے پر زندگی کی روانی کھو دیتا ہے۔ یہ تو آسمان سے گرتا ہوا سیلابی ریلا ہے۔ اس کے نقصانات اس شہر سے کہیں آگے معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔ بارش کے نرغے میں صرف کراچی ہی نہیں آیا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے خبریں جانی و مالی نقصان کے حوالے سے اتنی ہی پریشان کن ہیں۔ سڑکوں، رہائش گاہوں، ہوٹلوں کی تباہی، خاندانوں کے دریاؤں اور نالوں میں بہہ جانے کے واقعات، کہیں بجلی ٹوٹ رہی ہے اور کہیں تاریں جان لے رہی ہیں۔ مگر ان دونوں صوبوں سے مون سون کی تباہیوں کی داستاں کراچی کی طرح رقم نہیں کی جا رہی۔ یہ صوبے اور یہاں کے رہائشی اس وقت نہ تو معاشی طور پر مرکزیت رکھتے ہیں اور نہ ملکی سیاست ان کے گرد گھومتی ہے۔
کراچی اس لحاظ سے غیرمعمولی طور پر نمایاں اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ بارشوں نے عوام کا امتحان لیا ہے اور یہاں پر بننے والے حالات ملکی سیاست کی امتحان گاہ بنے ہوئے ہیں۔ جس جوش و خروش سے پاکستان کا میڈیا پلوں اور سڑکوں پر کھڑے ہو کر جنگجوانہ رپورٹنگ کراچی سے کر رہا ہے اس طرح ملک کے کسی حصے سے خبریں نہیں بنوائی جا رہی ہیں۔ میڈیا اور اس کے ساتھ منسلک سیاسی ایجنڈا کراچی کو سندھ حکومت کی بدترین ناکامی کے شاہکار کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یہ کسی حد تک جائز بھی ہے۔ محکمہ موسمیات نے 100 فیصد پیش گوئی درست نہ کی ہو لیکن اتنے واضح اشارے غیر معمولی بارشوں کے بارے میں موجود تھے کہ کسی بھی حکومت کو حفاظتی اقدامات اور لوگوں کو جاری کردہ وارننگ کی تشہیر کا خصوصی بندوبست کر دینا چاہیے تھا۔
گذشتہ سالوں کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں متاثر ہونے والے علاقوں کی نشاندہی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ پانی کو نکالنے سے لے کر شہر کو بارشوں کے دو تین دنوں میں کرونا (کورونا) وبا کی طرح کی بندش میں ڈالنا ان چند ایک انتظامی اقدامات میں سے تھے جو سندھ حکومت کر سکتی تھی۔ مراد علی شاہ کا اس وقت پانی میں گھوم کر تصویریں بنانا اگر مضحکہ خیز نہیں تو بےمقصد یقینا ہے۔ پانی کے بیچ کھڑے ہو کر اپنی اس پلاننگ میں کیا جادو داخل کر سکتے ہیں جو پانی سر پر سے گزرنے کے بعد کی جا رہی ہے؟ مگر چونکہ تصویر اور تشہیر پالیسی سازی پر حاوی ہے، لہذا بطور وزیر اعلی مراد علی شاہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ بڑی پلاننگ ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے ظاہر نہیں ہوتی۔ اس کی پرکھ ان حالات میں ہوتی ہے جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے اس کا اجرا بروقت کیا جاتا ہے۔ یہاں تک سندھ حکومت یقینا ناکام ہوئی ہے۔
لیکن پھر اسی معیار پر مرکز اور اس کے تمام ادارے بھی مورد الزام ٹہرائے جانے چاہیں۔ بارشوں کے بارے میں جو پش گوئیاں سندھ حکومت کے پاس تھیں مرکز کے ریڈار پر بھی ہونی چاہیے تھیں۔ کراچی میں انتظامی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جا سکتا تھا۔ نیوی سمیت پاکستان کے مختلف اداروں کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ ڈوبتے ہوئے شہر میں تباہی کو محدود کر دیا جائے۔ تمام زندگی کو متاثر ہونے سے بچایا نہیں جا سکتا۔ جب تمام ریکارڈ ٹوٹ رہے ہوں تو 100 فیصد کامیابی کہیں بھی نہیں ملتی۔ مگر یہ حیران کن امر ہے کہ کسی پلیٹ فارم پر طوفانی بارشوں سے نمٹنے کے لیے کسی قومی لائحہ عمل کا اجرا نہیں کیا گیا۔ اکٹھے بیٹھ کر سوچ بیچار کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔
غیرمعمولی بارشیں اور شہری اور دیہی علاقوں میں بحرانی کیفیت اور پھر اس کے ساتھ معاشی نقصان ایک قومی ایمرجنسی ہیں۔ ہمارے یہاں قومی سلامتی کی ایک کمیٹی موجود ہے جو ملکی و قومی چیلینجز سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازی کا سب سے اہم فورم ہے۔ 2018 میں حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے اور اس سے پہلے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس فورم کو متحرک رکھا اور درجنوں اجلاس کیے۔ مگر اگلے سال صرف ایک اجلاس ہو پایا۔ اب حال یہ ہے کہ بدترین حالات میں بھی اس کمیٹی کو زحمت نہیں دی جاتی۔ اس کے ممبران دور سے بیٹھ کے باہمی سلام دعا کرتے ہیں جس کو فیصلہ سازی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اجتماعی اقدامات جو مل بیٹھنے سے کیے جا سکتے ہیں ہماری ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔
سیلابی کیفیت کے پیش نظر قبل از وقت پلاننگ کا تمام تر دورانیہ مرکز نے سندھ حکومت پر سیاسی گولہ باری میں گزار دیا۔ اتنا وقت اور غصہ اگر نریندر مودی کے خلاف حکومتی وزرا اور اراکین نکالتے تو شاید وہ گھبرا جاتا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سندھ حکومت کو گھر بھجوائے بغیر پاکستان تحریک انصاف اپنا سیاسی نقشہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی۔ اب دوران بحران وزیر اعلی سندھ سے رابطہ کر کے وزیر اعظم عمران خان وہی کچھ کر رہے ہیں جو مراد علی شاہ بارشوں میں گھوم کر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یعنی بعد از واقعہ پھرتیاں۔ ایسے رابطے پہلے کیوں نہ کیے گئے؟ یہ اہتمام اور قومی سوچ کا اظہار ڈیڑھ ماہ پہلے کیوں شروع نہیں کیا گیا؟ مگر کراچی کی دیرینہ بدقسمتیوں کا ریکارڈ کچھ ایسا ہی ہے۔ مہرباں آتے آتے ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔
آج کل پانی میں ڈوبا ہوا یہ شہر چند سال پہلے روزانہ خون میں نہلایا جاتا تھا۔ بوری بند لاشیں سڑکوں پر پھینکنے والے یہاں پر دہشت گردی کا راج قائم کیے ہوئے تھے۔ سب کو پتہ تھا کیا ہو رہا ہے۔ کون کر رہا ہے۔ سب دم سادھے خون کی ہولی کو ہونے دے رہے تھے۔ ہزاروں شہریوں کی جانیں جانے کے بعد ریاست کو خیال آیا کہ اب یہاں پر کچھ کرنا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ گلیوں سے خون کے دھبے مٹانے کا آغاز ہوا۔ وہ دہائیوں پر مبنی دہشت گردی تھی یہ بارش تو سات دن برسی ہے۔ وہ ظلم انسانوں کا بنایا ہوا تھا، یہ تو ایک موسمی امتحان ہے۔ لیکن دونوں پر ریاست اور حکومتوں کا ردعمل ایک ہی جیسا تھا۔ اجڑنے کے بعد بسنے کا خیال آیا۔ جب جنتا ڈوب گئی تب ہاتھ بڑھایا۔
0 Comments