چیف جسٹس جناب گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بینچ نے کراچی میں بارشوں سے ہونے والی تباہی پر طرز حکمرانی کا دلگداز حال بیان کیا ہے اور اپنے اہم ریمارکس میں جن دردانگیز مشاہدات اور دل سوز معروضات کا اظہار کیا ہے وہ کسی بھی باشعور شہری کی روح کو تڑپانے کے لیے کافی ہیں، عروس البلاد کے المیے شاید کسی چونکا دینے والی بارش کے انتظار کو ترس رہے تھے ، یوں موسلا دھار بارشیں کیا آئیں ، شہرقائد تباہ ہو گیا۔ پاکستان کے بالائی علاقوں اور شہروں میں سیلاب نے تباہی مچائی، اموات 200 سے تجاوز کر گئیں، گھر اور پل بہہ گئے، فصلیں تباہ ہو گئیں، انفراسٹرکچر کا نام و نشان مٹ گیا، برسوں کی سیاسی اور بلدیاتی آبلہ پائی کراچی شہر اور اس کے کرتا دھرتاؤں کو انجام کار دنیا کی غیر مرئی عدالت کے سامنے لے آئی ہے، ابھی تک بارش کا پانی کراچی کے پوش علاقوں اور نشیبی بستیوں کی سڑکوں اورگلیوں میں کھڑا ہے ، کیچڑ ، تعفن اورکچرے کے انبار لگے ہیں، ہمارے حکمراں سقوط کراچی کی میڈیا رپورٹس دیکھ کر اس کھلی حقیقت پر خجل سے ہو رہے ہونگے کہ شاید ہی عہد حاضر کے کسی شہر نے اس درجہ بے بسی کا شہر آشوب خود اپنے آنسوؤں سے لکھا ہو ۔
عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی رٹ پر جو سوال اٹھایا ہے وہ پاکستان کی 73 سالہ سیاسی، بلدیاتی اور جمہوری تاریخ کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے، اگر دیکھا جائے تو ہر حکومت نے اپنا بیانیہ ہی دہرایا اور وقت گزرا تو قوم اسی دوراہے پرکھڑی نظر آئی جہاں آج پاکستان کھڑا آنسو بہا رہا ہے۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا کریدتے ہو کیوں اب راکھ جستجو کیا ہے
چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے کے الیکٹرک اور پاور ڈویژن پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومت کے پاس اہلیت ہی نہیں، حکومت کے الیکٹرک کی منشی اور کلرک بنی ہوئی ہے، چیف جسٹس نے کہا 2015 سے کے الیکٹرک نے حکومت کو ایک روپیہ نہیں دیا، کے الیکٹرک عوام کو ’’بجلی‘‘ اور حکومت کو ’’پیسے‘‘ نہیں دیتی، خواہ مخوا کہا جاتا ہے کراچی معیشت کا 70 فیصد دیتا ہے، کراچی کے پاس دینے کیلیے اب کچھ نہیں، کراچی میں اربوں روپے جاری ہوتے مگر خرچ کچھ نہیں ہوا، عدلیہ نے ریمارک دیا کہ وفاقی حکومت کی آخر رٹ کہاں ہے؟ 4 سال میئر رہنے والے نے ایک نالی تک نہیں بنائی، وفاقی حکومت کیا کر رہی ہے؟ کیا وہ ایسے پاکستان چلائے گی؟ عدلیہ نے کہا کہ اداروں کی آپس میں کوئی ہم آہنگی نہیں، اس بار بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، وفاقی حکومت کے الیکٹرک کو سبسڈی دے رہی ہے،آج بھی آدھا کراچی پانی اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔
لوکل گورنمنٹ والوں کو جتنے بھی پیسے ملے وہ تنخواہوں پر خرچ کیے گئے ، کراچی میں کے ایم سی اورکنٹونمنٹ بورڈ کے ملازم کہیں نظر نہیں آرہے، لگتا ہے سارے گھوسٹ ملازمین بھرتی ہوئے ہیں، شہر کی دیکھ بھال کا ذمہ حکومت کا ہے، ہمیں علم ہے کراچی کے کرتا دھرتا کچھ نہیں کرینگے، شہریوں کے منہ سے نوالا بھی چھین لیا جاتا ہے، اٹارنی جنرل صاحب کراچی میں حکومت بے بس نظر آرہی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کراچی کے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں، شہری کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال ہیں ، ادارے مل بیٹھ کر کوئی حل نکالیں، چیف جسٹس نے کہا ہم نے جس دن سے نوٹس لیا شہرکی حالت مزید خراب ہو گئی ہے، اس وقت عوام کے فائدے کے لیے حکومت کے پاس کچھ نہیں، شہر کا ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں شہری سکون سے رہ سکیں، ملک میں پٹرول کا بڑا سکینڈل آیا، معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی، دس روز تک ملک مکمل بند رہا، حکومتی معاملات سمجھ سے باہر ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سانپ نکل گیا ہے اور آپ لکیر پیٹ رہے ہیں۔
سوال یہ کہ جب ملک کے سب سے بڑے تجارتی انجن اور اقتصادی شہ رگ کے عوام ایک مون سون کے موسمی بارشوں سے اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہوں تو عوام کیسے اس بات کا یقین کر لیں کہ ملک میں حکمرانی عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے گزری اور ریاست و حکومت ، بیوروکریسی، اشرافیہ اور معاشرے کے طاقتور اور بااثر لوگوں نے ملک کی تقدیر بنانے کے لیے اپنے حصہ کا کام جوش و خروش اور نیک نیتی سے انجام دیا، یہ سخاوت اور دریا دلی جمہوری قدروں کی آبیاری کے ساتھ ساتھ چلتی تو ملک کی حالت بدل جاتی، مگر کراچی کی بربادی در حقیقت سیاسی سفرکی بے سمتی اور بالادست سیاسی طبقات کی خود غرضی اور نااہلیت کا دردناک افسانہ ہے۔ حکومتیں عوام کو آسودگی اور خوشحالی دینے کے صرف دلفریب وعدے اور نعروں سے بہلاتی رہیں۔ ایک ملک گیر انفراسٹرکچر کی تعمیر کا خواب تک پورا نہ ہو سکا۔ مسئلہ کولیٹرل ڈیمیج کا ہے تاہم سیاستدان پوائنٹ اسکورنگ کے دائرہ میں قید ہیں جسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، ول ڈیورینٹ کا سدا بہار قول ہے کہ جب حکمراں چند احمقوں کو قابو نہیں کر سکتے تو سب کو احمق بنا دیتے ہیں، سیاست دانوں کو باہم دست و گریباں کرنے کا کھیل آج بھی پورے زور وشور سے جاری ہے، کورونا کی اذیت عوام جھیل چکے، بیروزگاری اور مہنگائی کا زہر بھی پی چکے ۔
لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے، اقتصادی بحالی کا عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے مگر قرضوں کے ہوشربا اعداد وشمار نے معیشت کا گھیراؤ کر لیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2019-20 میں پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں مزید 4340 ارب کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد جون 2020 کے اختتام پر مجموعی قرضوں اور اخراجات کی مجموعی مالیت 44 ہزار 563 ارب کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے، اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال یومیہ 11 ارب 89 کروڑ روپے کے قرضے لیے، حکومت سادگی اور بچت کے دعوؤں کے برعکس شاہ خرچیوں اور افسر شاہی اور وزرا کے اللے تللوں کی روک تھام میں کوئی خاطر خواہ کمیابی حاصل نہ کر سکی۔ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور حواریوں کے کانوائے اور پروٹوکول میں کوئی معنی خیز تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایک سیاسی مبصر کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے غضبناک بھینسوں کے سینگ اٹکے ہوئے ہیں، یہ جنگ ختم ہو تو تب بات بنے گی، کراچی کے تاجر و صنعت کاروں نے بتایا ہے کہ ان کے اربوں روپے مالیت کا سامان اور پروڈکٹس بارش کی نذر ہو گئے، حکومت ادراک کرے کہ معیشت اور سرمایہ کاری پرامن ماحول کی متقاضی ہے، مگر ایک رومن اسٹیڈیم کا منظرکھلا ہوا ہے جس میں ملک کے بھانت بھانت کے سیاسی گلیڈی ایٹرز ایک دوسرے پر لفظوں کی تلواروں سے مسلسل ضربیں لگا رہے ہیں۔
کراچی کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کراچی سالہا سال سے مسائل کا شکار ہے، کچرے، نکاسیٔ آب اور ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کریں گے، جمعہ کے روز کراچی جا کر خود حالات کا جائزہ لیں گے۔ وزیرِ اعظم نے کابینہ ارکان کو ’’کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کراچی کے انتظامی امورکا بھی ذکر کیا اور کہا ان مسائل کوحل کرنے کی بھی کوششیں کی جاری ہیں۔’’کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ میں تمام بڑے مسائل کے پائیدار حل پر توجہ دی جا رہی ہے۔ پلان کے حوالے سے ٹائم لائنز اور ذمے داریوں کا تعین کیا جا چکا ہے اور اس کو حتمی شکل دینے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جا رہی ہے تاکہ اسی ہفتے اس پلان کو حتمی شکل دے کر باقاعدہ عمل درآمد کا آغاز کیا جا سکے۔ دانا کہتے ہیں کہ ٹرانسفارمیشن کل کا وعدہ نہیں، آج کی کمٹمنٹ سے مشروط ہے۔ کراچی کو تبدیل ہونا ہے تو پہلے سیاستدان خود کو اندر سے تبدیل کریں۔
دریں اثنا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ 2 روزہ دورے پر کراچی پہنچ گئے، چیف آف آرمی اسٹاف کو کراچی کی حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ اور خصوصا کراچی بھر میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان کا کوئی بھی شہر اس پیمانے کی قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتا، ہمارا مسئلہ وسائل کی عدم دستیابی کا نہیں ہے بلکہ ترجیحات کا صحیح تعین کرنا ہے۔ بلاشبہ اسٹیک ہولڈرز کے سامنے عدالتی انتباہ اور سرزنش میں معانی اور زود پشیمانی کا ایک جہاں کھلا ہے، حکومت اب بھی جمہوری رویے کا مظاہرہ کر سکتی ہے، حکمراں احساس کریں کہ ملک موسمی تبدیلیوں کے حصار میں ہے، سیاسی موسم بھی تبدیل ہونے لگا ہے، رواداری، دوراندیشی اور سیاسی بصیرت نہ رہی تو پھر انارکی کا راستہ کھل جائے گا۔ سیاست کے تیور بدل رہے ہیں، سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ ندی نالے بپھر گئے ، مون سون نے سب کچھ برباد کر دیا، اب سیاست دانوں کی باری ہے کہ وہ صبروتحمل سے کام لیں ، انھیں کراچی کی از سر نو تعمیر کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔
0 Comments