سندھ امن کی دھرتی ہے، سندھ کے عوام کی پرورش صدیوں سے صوفیوں نے کی ہے، اس وجہ سے سندھ کو صوفیوں کی دھرتی کہا جاتا رہا ہے۔ ساتھ ہی میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لاتا چلوں کہ جو عناصر خود کو ’’کراچی کے ترجمان‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں ان کا تعلق جس کمیونٹی سے ہے اس کی واضح اکثریت انتہائی پُرامن‘ ایماندار اور سندھ دوست ہے مگر شاید کچھ اندرونی یا بیرونی عناصر نہیں چاہتے کہ امن کی دھرتی میں امن رہے۔ میں اس مرحلے پر سندھ کے ممتاز قومی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ایک شعر کی کچھ سطور یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ہوچونئی‘ توں مہ چئہ واتئوں ورائے‘‘’’ اگ اگر ائی جو کرے خطا سو کھائے‘‘ (یہ سطور سندھی میں ہیں) ان کے معنی کچھ اس طرح ہیں کہ ’’وہ اگر آپ کے خلاف بولے تو تم اسی انداز میں اسے جواب نہ دو‘‘ ’’اس انداز سے جو ابتدا کرے گا آخر نقصان بھی اسی کو ہو گا‘‘۔
کوئی آٹھ سال قبل مجھے امریکہ کے شہر واشنگٹن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں مدعو کیا گیا، اس میں پاکستان اور سندھ سے دیگر لوگوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا، اس کانفرنس کی صدارت امریکہ کے ایک بڑے دانشور کر رہے تھے۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھنا تھا، یہ مقالہ انگریزی میں تھا اور اس کا عنوان تھا۔ "Save Sindh- Save South Asia" اس مقالے کے آخر میں، میں نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا یہی شعر پڑھا اور تجویز دی کہ کاش اقوام متحدہ اس شعر کو ساری دنیا کیلئے Emblem of Peace (امن کی علامت) کے طور پر اپنے لوگو کا حصہ بنائے۔ بہرحال یہ بات تو بات کرتے ہوئے نکل آئی۔ آج کے کالم میں میرا اصل موضوع یہ ہے کہ جو ’’مہربان‘‘ خود کو کراچی کے ’’خلیفوں‘‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں ان کو شاید کراچی کو لاحق سنگین خطرات کا کوئی علم نہیں ورنہ یہ راگ گانے کے بجائے وہ ان خطرات کی طرف حکومت اور بین الاقوامی قوتوں کی توجہ مبذول کراتے۔
فی الحال میں سب سے پہلے کراچی کو لاحق اس سنگین خطرے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اگر سندھ کے سمندر میں دریائے سندھ کے پانی کو جانے سے روکا گیا تو آئندہ 50, 60 سال کے دوران کچھ دیگر سمندری علاقوں کے ساتھ کراچی کا شہربھی سمندر برد نہ ہو جائے۔ دراصل اس سلسلے میں سب سے پہلے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (این آئی او) کے اس وقت کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے ممبران کو فروری 2015 میں ایک پیغام کے ذریعے اس خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ اس پیغام کے ذریعے ڈاکٹر انعام نے خبردار کیا تھا کہ اگر انڈس ڈیلٹا اور سمندری حدود میں موجود Sea Intrusion (سمندر میں دخل اندازی) کو نہ روکا گیا تو اندیشہ ہے کہ بشمول ملک کے فنانشل کیپٹل کراچی‘ پاکستان کے سندھ صوبے کے تین سمندری شہر 2060 تک سمندر برد ہو جائیں گے۔
سینیٹ کی سب کمیٹی نے اس انتباہ کا انتہائی سنجیدگی سے نوٹس لیا اور سینیٹ کی سب کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر کریم خواجہ نے 28 مارچ 2016 کو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی کراچی میں ایک اجلاس کا اہتمام کیا جس میں وفاقی حکومت‘ حکومت سندھ اور حکومت بلوچستان کے کئی سینیٹرز‘ دیگر اسمبلی ممبران اور سول سوسائٹی کی دیگر اہم شخصیات کواس صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے مدعو کیا گیا۔ اس اجلاس میں میں نے بھی شرکت کی وہاں ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بھی موجود تھے۔ سینیٹ کی سب کمیٹی نے اس اجلاس کی تفصیلات شائع کی ہیں ۔اجلاس میں این آئی او کے سی ڈی آر سلمان نے عالمی ڈیلٹاس (World Deltas) پر تحقیق کرنےوالے ایک اہم ریسرچر ڈاکٹر جیمس سویشکی (Dr James Syvitisky) کی ایک اہم تحقیق کا حوالہ دیا کہ ’’19ویں صدی میں انڈس ڈیلٹا پر آبپاشی نظام کے تعمیر ہونے کے نتیجے میں دریائے سندھ سے سمندر میں پانی کے بہائو کو روکنا شروع کیا گیا
حالانکہ پرانے زمانےمیں Creeks 17 (کھاڑیوں ) کے بجائے 19ویں صدی میں دریا سے سمندر میں پانی فقط ایک Creek (کھاڑی) سے بہہ کر جارہا تھا‘ بقول ان کے اس کے نتیجے میں دریا سے سمندر میں پانی بہہ کر جانے والے قدرتی طریقے میں رکاوٹ پڑی جس کے نتیجے میں انڈس ڈیلٹا Degrade (بگڑنا) ہونا شروع ہوا‘ اس مرحلے پر سندھ یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر سرفراز سولنگی نے جیالوجیکل سروے آف پاکستان کی طرف سے تیار کیا جانے والا سندھ کا جیالوجیکل نقشہ (Map) پیش کیا جس کے ذریعے انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ کوٹری بیراج‘ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ سے تازہ پانی کے سمندر میں برائے نام بہائو کی وجہ سے سمندر میں Silt (ریت) کی مقدار بہت کم ہو گئی۔
اس مرحلے پر این آئی او کے ڈاکٹر آصف انعام نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ Sea Intrusion کا براہ راست تعلق انڈس ڈیلٹا کی Reduced Silt کے کم ہونیوالے سائز سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی وہ میڈیم ہے جس کے ذریعے Silt اور Sediments کے ذریعے ڈیلٹا کی آلودگی ہوتی ہے‘ اس سے پہلے ایک رپورٹ میں ڈاکٹر انعام نے یہ بھی کہا کہ ’’سندھ کے تین شہر یعنی کراچی‘ ٹھٹھہ اور بدین‘‘ ان وجوہات کی بنا پر بڑھتی ہوئی سمندر کی اس سطح سے براہ راست خطرے میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان وجوہات کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہونے کے نتیجے میں بدین اور ٹھٹھہ اضلاع کے کئی سمندری علاقے پہلے سے سمندر برد ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہاں رہائش پذیر لوگوں کو اس علاقے سے نکلنا پڑا۔
0 Comments