Ticker

6/recent/ticker-posts

میرے فٹ پاتھ واپس کرو

گھر کے باہر ایک ہنگامہ ہے۔ گلی میں کاروں کا اژدھام ہے۔ گاڑی نکالنا مشکل ہے۔ میاں بیوی پیدل ہی دوائوں کی دکان تک جانے کی ہمت کرتے ہیں۔ دونوں طرف گاڑیاں آڑی ترچھی پارک ہیں۔ موٹر سائیکل سوار دونوں طرف سے اپنا راستہ بنانے کی فکر میں ہیں۔ فٹ پاتھ تو غائب کیا جا چکا ہے۔ دکانداروں نے اپنی حد سے باہر نکل کر اپنا سامان بچھایا ہوا ہے۔ اس کے بعد گاڑیاں، گاہکوں کی کاریں، رکشے بھی سورما بننے کی کوششوں میں سب ہم پیدل چلنے والوں کو غصّے سے گھور رہے ہیں۔ یہ زندہ لوگ ہمارا راستہ کیوں روک رہے ہیں۔ ٹریفک پولیس کہیں نہیں ہے۔ رہائشی علاقہ بازار بنتا جارہا ہے۔ ہر روز ایک مکان مسمار ہو کر کسی برانڈ کی شاخ بن رہا ہوتا ہے۔ یہ انہی صنعت کاروں اور تاجروں کی شاخیں ہیں جو شہر میں کوئی چورنگی اپنے نام کر کے نیکی کمارہے ہیں۔

یہ تو طے ہے کہ ملک میں اکثریت پیدل چلنے والوں کی ہے۔ اسی لئے ڈراموں میں محاورے سننے میں آتے ہیں کہ ’وہ فٹ پاتھ پر آگیا‘۔ یا کوئی شیخ، رانا یا خان یہ دعویٰ کررہا ہوتا ہے کہ ’میں تو اسے فٹ پاتھ پر لاکر چھوڑوں گا‘۔ ناداروں، غریبوں، بےگھروں کا ٹھکانہ فٹ پاتھ ہی ہیں۔

سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھاکر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

مہذب شہر اپنے فٹ پاتھ کے ڈیزائن اور وسعت سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ ڈبل کیبن گاڑیوں، کروڑوں کی کاروں، ٹیکسی رکشوں سے سفر کرنے والے اقلیت میں ہیں۔ اکثریت پیادوں کی ہے۔ کبھی کبھی متمول لوگ فٹ پاتھ پر صبح یا شام کی سیر کرتے دکھائی دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اب بھی مشورہ دیتے ہیں کہ پیدل چلا کریں۔ ہم واشنگٹن، نیو یارک، جدہ، لندن، ٹورانٹو جاتے ہیں تو وہاں فٹ پاتھ ہمیں خود دعوتِ پیادہ روی دے رہے ہوتے ہیں۔ پیدل چل کر ہی آپ کسی شہر کے حسن کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ہمارے کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد، سکھر، حیدر آباد میں فٹ پاتھ غائب ہوتے جارہے ہیں۔ 


پیدل چلنے والوں کو ہر شہر اور قصبے میں خطرات کا سامنا ہے۔ اکثریت کی ضرورت ہونے کے باوجود فٹ پاتھ حکمران طبقے کی توجہ سے محروم رہتے ہیں۔ گزشتہ بیس بچیس برس میں فٹ پاتھ بلوچستان کے نوجوانوں کی طرح لاپتا ہیں۔ پاکستان کا یہ حسن کہیں سیکورٹی، کہیں کاروبار، کہیں مذہب کے حوالے سے چھینا جاتا ہے۔ میڈیا میں اکثر پیدل ہیں یا موٹر سائیکل سوار، فٹ پاتھ سے ان کا جنم جنم کا ساتھ ہے مگر وہ بھی اسے خبر کے لائق نہیں سمجھتے۔ شہر قائد کے ایڈمنسٹریٹر افتخار شالانی کو اسٹریٹ لائبریری کھولنے کا قابلِ تحسین شوق ہے۔ اب تو وہ ماشاء اللہ اس سب سے بڑے صنعتی و تجارتی مرکز کے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند سال پہلے حکم دیا تھا کہ کراچی کے فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے صاف کئے جائیں۔ اُس وقت افتخار موصوف کمشنر کراچی تھے۔ اپنا بجٹ خرچ کرنے کے بجائے انہوں نے ’ایک فٹ پاتھ گود میں لو‘ کا نعرہ لگایا۔ 

انہی تاجروں، صنعت کاروں سے کارپوریٹ سوشل ریسورس کے تحت فٹ پاتھ لینے کے لئے کہا جن کی شاخیں (Outlet) شہر میں فٹ پاتھ خراب کر رہی ہیں۔ اس اسکیم کے تحت فٹ پاتھوں کو کوئی گود ملی یا اس بڑے شہر میں کسی بھی فٹ پاتھ کی گود بھرائی ہوئی یا نہیں، کہیں نظر نہیں آیا۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی 84 فیصد سڑکوں پر راہگیروں کے لئے بنیادی سہولتیں نہیں ہیں۔ بلا رکاوٹ فٹ پاتھ نہیں ہیں۔ سڑک عبور کرنے کے لئے نشانات نہیں ہیں۔ سائیکلوں اور موٹر سائیکل سواروں کے لئے الگ راستہ نہیں ہے۔ ایک شاعر شفا کجکانوی کا شعر یاد آرہا ہے:

جن کے فٹ پاتھ پہ گھر، پائوں میں چھالے ہوں گے
ان کے ذہنوں میں نہ مسجد نہ شوالے ہوں گے

فٹ پاتھ پہ گھر تو نہیں ہیں، خوانچے ہیں، ریڑھیاں ہیں، بجلی کے کھمبے ہیں، دکانیں آگے بڑھی ہوئی ہیں۔ زیادہ فٹ پاتھ نائن الیون کے بعد سیکورٹی کی زد میں آئے ہیں۔ ان حساس بلڈنگوں کی حدود سڑک سے پیچھے کر کے حفاظتی اقدامات کئے جا سکتے تھے مگر عوام کا حق چھینا گیا۔ بلڈنگ کی حدود بڑھا دی گئیں۔ آدھی سڑک پر حصار قائم کر دیے گئے۔ 

اسکولوں، مدرسوں، مسجدوں نے بھی یہی کیا ہے۔ یونیورسٹیاں یہ کر رہی ہیں۔ بازاروں میں دکاندار تجاوزات میں مصروف ہیں۔ تخت پر کھانے کے تمدن نے بھی فٹ پاتھ ہضم کر لئے ہیں۔ سب پیدل چلنے والوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں حالانکہ 1973 کے آئین کے کئی آرٹیکل ان حقوق کے تحفظ کا حکم دیتے ہیں۔ سڑکوں پر حادثات ان حقوق کی پاسداری نہ کرنے کے باعث ہی رُونما ہوتے ہیں۔ راہگیروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کوئی این جی او آواز نہیں بلند کرتی۔ فٹ پاتھ انسانی معاشرے کا ایک قدیم اور خوبصورت لازمی جزو ہیں۔ پہیے کی ایجاد سے پہلے انسان کے پائوں ہی یہ فرض انجام دیتے تھے۔ پگڈنڈیاں، جادہ، رہگزر، نقوش قدم، اسی عمل سے وابستہ ہیں۔ ترقی پسندوں نے اسے ناداروں کے حوالے سے یاد کیا۔ کیفی اعظمی کہتے ہیں:

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی

انگریزی میں Foot Path Poems کے نام سے الگ شعری مجموعے چھپتے ہیں۔ شیکسپئر کے گھر تک جانے کے لئے راستے کو ’شیکسپئر وے‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چین میں فٹ پاتھ پر تحقیق ہوتی رہتی ہے۔ فٹ پاتھ کی واپسی کے لئے وزیراعظم یا آرمی چیف سے ملاقات کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بنیادی طور پر بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے مگر وہ بھی تو لاپتا ہیں۔ اس لئے اب کمشنر، ڈپٹی کمشنر فٹ پاتھ واپس لاسکتے ہیں۔ یہ صرف بڑی سڑکوں کے ساتھ نہیں، ساری سڑکوں اور گلیوں میں ہونے چاہئیں۔ پیدل تو سب ہی چلتے ہیں۔ موٹر سائیکل کے لئے الگ جگہ بنائیں۔ سڑک مصروف ہو تو وہ فٹ پاتھ پر چڑھ جاتے ہیں۔ کئی سڑکوں پر گاڑیاں فٹ پاتھ پر پارک کردی جاتی ہیں۔ یہ سب ٹریفک پولیس کے تعاون سے ہوتا ہے۔ محفوظ فٹ پاتھ ملک میں بہت سی جانیں بچا سکتے ہیں۔ راہگیروں کے ذہنوں کا تنائو ختم کرسکتے ہیں۔

محمود شام 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments