Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کو ٹھیک کرنے کے لیے 1100 ارب کی نہیں، سنجیدگی کی ضرورت ہے

پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنی حکومتوں کا آغاز طویل اور تفصیلی منشور کے ساتھ کرتی ہیں، مگر جب ان کا دور ختم ہوتا ہے تو محض چند میگا پروجیکٹس ہی مکمل ہوپاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی جب پہلی مرتبہ حکومت میں آئی تو اس نے پالیسی دی کہ وہ 6 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کرے گی۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بات کریں تو اس کی ساری توجہ موٹر ویز اور میٹرو بس پر مرکوز رہی، جبکہ تیسرے دور میں انہوں نے اورنج ٹرین کے قیام اور بجلی کی کمی کو پورا کرنے پر بھی توجہ دی۔ جب 2018ء میں عمران خان انتخابی مہم چلا رہے تھے تو ان کا سارا زور اس بات پر تھا کہ قوموں کی ترقی سڑکوں کا جال بچھا کر نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار انسانی ترقی پر ہوتا ہے، اور اسی لیے وہ موٹرویز اور میٹروز جیسے پروجیکٹس پر کیے جانے والے خرچ پر شدید تنقید کیا کرتے تھے۔

لیکن اگر ان کے ابتدائی 2 سالہ دورِ حکومت پر نظر ڈالی جائے تو ان کی ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی ہے اور ان کا سارا زور میگا پروجیکٹس پر رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ عمران خان نے بڑے فخر سے راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کو لاہور میں لانچ کرنے کا اعلان کیا، یہی نہیں بلکہ کراچی کے ساحل سے دُور جزیروں پر ایک نئے شہر کی تعمیر کا بھی اعلان خود انہوں نے ہی کیا۔ اب اگر ہم قومی ترجیحات کو ایک طرف رکھ بھی دیں تو لاہور پروجیکٹ کا انحصار دریا راوی کے ساتھ جھیل کی تشکیل پر ہے جس کے لیے پانی کی ضرورت ہے، لیکن ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ انڈس واٹر معاہدے کے بعد سے دریا راوی خشک ہوگیا ہے۔ حکومت کے مطابق اس میں پانی کا ایک بڑا حصہ لاہور کے نکاسی آب سے آئے گا جس کا بہاؤ اس وقت براہِ راست دریا یا کھلے مقامات پر جارہا ہے۔ لیکن اس کام کو کرنے کے لیے شہر میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کے ساتھ ساتھ ایسے راستے بنانے کی ضرورت ہے جہاں سے گزرتے ہوئے یہ پانی راوی جھیل تک پہنچ سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ لاہور شہر میں جو بلدیاتی نظام ہے اس کی صلاحیتوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے، اور یہ کام صرف وقت طلب ہی نہیں بلکہ اس کے لیے پختہ سیاسی ارادوں کی بھی ضرورت ہے۔ جب حالیہ بارشوں کے بعد کراچی تباہی کے دہانے پر پہنچا تو حکومت نے بلدیاتی نظام کو ٹھیک کرنے اور شہر کی مختلف انتظامیہ کو ایک چھتری تلے لانے کی کوشش کرنے کے بجائے  1100 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کر کے یہ سمجھ لیا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ لیکن چونکہ یہ ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے بھی پختہ سیاسی ارادوں کی ضرورت ہے، اس لیے اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ لیکن اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شہرِ قائم کی موجودہ صورتحال میں اگر 1100 کی بجائے 2200 ارب روپے بھی لگا دیے جائیں تو یہ اگلی موسمی تباہی سے اس شہر کو نہیں بچا سکتے۔

بدقسمتی سے کراچی کے مسائل حل کرنے کے بجائے حکومت اس سے بھاگنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے اور اس نے بس یہ اعلان کرنے پر اکتفا کیا کہ ایک ’نیا کراچی ‘ بنایا جائے گا۔ یعنی صرف بولنے کی حد تک ہمیشہ کی طرح تعلیم، صحت، بلدیاتی نظام، پبلک ٹرانسپورٹ سروسز میں بہتری لانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ اگر خواندگی کی کم ترین سطح کو بھی مدِنظر رکھتے ہوئے بات کریں تو ملک میں شرح خواندگی محض 60 فیصد ہے۔ یعنی جوہری طاقت رکھنے والی قوم تعلیمی شعبے میں دنیا کے 190 ممالک کے مقابلے میں نچلی سطح پر موجود ہے۔ اس صورتحال میں کیا ہم اپنے پڑوسیوں سے بھی مقابلہ کرنے کی امید کر سکتے ہیں؟ بنگلہ دیش میں شرح خواندگی 73 فیصد، نیپال میں 68 اور بھارت میں 78 فیصد ہے۔ اس پوری صورتحال میں جب ہمارے ملک کی 53 فیصد خواتین تعلیم سے محروم ہوں تو کیا ہم آبادی کو کنٹرول کرنے کی امید کر سکتے ہیں؟

اس لیے ہم یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ عمران خان کی حکومت محض چند ایسے پروجیکٹس کی تکمیل کی خاطر ضائع ہو جائے، جس کا کوئی بڑا فائدہ نہ ہو۔ ان کے چاہنے والے چاہتے ہیں کہ عمران خان اپنی ساری توجہ تعلیم، صحت اور مقامی حکومتوں پر مرکوز رکھتے ہوئے انسانی ترقی کے لیے کام کریں۔ تاہم تعلیم کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جامعات بنا دی جائیں یا زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈیز سامنے آنا شروع ہو جائیں، بلکہ ہمیں اپنی بنیاد کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، یعنی پرائمری اور سیکنڈری کی سطح پر کام کرنا ہو گا۔ اگرچہ کچھ نجی اسکول یا فلاحی تنظیمیں اچھا کام کر رہی ہیں لیکن قوم کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا۔ اس شعبے میں بہتری صرف اسی صورت ممکن ہے جب سرکاری تعلیمی اداروں میں بہتری آئے گی۔

لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سرکاری اساتذہ کی بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور وہ بس اسی وقت کام کرتے ہیں جب ان کا دل کرتا ہے. سچ تو یہ ہے کہ مخلص اور لگن سے کام کرنے والے اساتذہ تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں اس یونین کی طاقت کو ختم کرنا پڑے گا اور سرکاری اساتذہ جو دیہی علاقوں میں بطور سرکاری ملازم سال کے 7 ماہ یا کچھ زیادہ کام کرنے کے عوض بہترین تنخواہ لیتے ہیں ان کو جگانے اور یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے کاندھوں پر قوم کی ترقی کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اور عمران خان اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ یہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے جہاں ایک طرف یہ واضح نظر آرہا ہے کہ ان کے 5 سال پکے ہیں، ایسی صورت میں انہیں سیاسی فائدے کے حصول کی خاطر بڑے بڑے میگا پروجیکٹس کے بجائے اس طرح کے کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنے اس کام کو شروع کرنے کے لیے وزیرِاعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ دیہی علاقوں میں موجود سرکاری اسکولوں کے اچانک دورے کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ سرکاری ہیلی کاپٹر اور جہازوں کا استعمال بھی کر سکتے ہیں تاکہ واضح ہو کہ ان کی ترجیحات اس وقت کیا ہیں۔ پھر جو اساتذہ اپنے کام سے مخلص ہوں انہیں انعامات سے نوازا جانا چاہیے جبکہ جو اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برت رہے ہوں انہیں ضرور سزا ملنی چاہیے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنی تقریروں میں کرپشن کی کہانیوں کے بجائے تعلیم کی بہتری سے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں محض میڈیکل بورڈ اور انشورنس کے معاملات کو ٹھیک کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ دیہی علاقوں میں جو صحت کے مراکز اور ڈسپنسریاں ہیں وہاں انتظامی معاملات اور صحت سے متعلق سہولیات میں بہتری اپنی ترجیحات میں شامل کرنی ہوں گی۔ پھر جب وہاں موجود عملے کو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ اس کی کارکردگی پر کوئی نظر رکھنے والا ہے تو یقینی طور پر ان کی کارکردگی میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ بس اسی لیے عمران خان کے خیر خواہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی 5 سالہ مدت کو پورا کرنے پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اصل مقصد کی طرف جاتے ہوئے انسانی ترقی کے معاملات کو ترجیح دینا شروع کریں تاکہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہوسکے۔

تسنیم نورانی  

یہ مضمون 11 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز


Post a Comment

0 Comments