گھر سے کورٹ کی طرف آتے ہوئے راستے بند پائے تو پتہ چلا کہ ایک پوش ایریامیں بہت تیزی سے راستوں کی مرمت ہو رہی ہے اور وہ تمام کام بھی جو پچھلے دس سال میں ادھورے چھوڑ پڑے تھے۔ سائنس ریسرچ کے اسکالر ڈیزر اور امرتا سین کی یہ تھیوری صحیح ثابت ہوئی کہ جب لوگ احتجاج کرتے ہیں تو حکمرانوں کے کانوں تک بھی آواز پہنچتی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کراچی کے پوش ایریاز کے رہائشیوں نے احتجاج کیا اور پھر پرچہ بھی انھیں کے خلاف کاٹا گیا۔ جن کے گھر ڈوبے، گھر کے انٹیرئرز تباہ ہوئے، گھر کی تمام اشیاء ڈوب گئیں، اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ اب رہ گیا وہ کراچی جو ایم سی اور ڈی ایم سی کی حدود میں آتا ہے وہاں کام بہت ہی سست رفتاری سے چل رہا ہے۔ کراچی کے یہ لوگ سندھ حکومت کے خلاف احتجاج نہ کر پائے اور میڈیا نے بھی سندھ حکومت کی نااہلی کو بہت اچھالا۔ بات جا کر پہنچی سندھ کی تقسیم تک۔
ایک تو پیپلز پارٹی کی نمایندگی وفاق میں نہیں، پھر سونے پے سہاگہ یہ ہے کہ وہ کل جماعتی اتحاد کا حصہ بھی ہیں، جنھوں نے وفاقی حکومت کے خلاف اب تحریک بھی چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ چند دن پہلے محترمہ فاطمہ بھٹو کا کالم نیویارک ٹائمز کے نمایاں صفحے پر چھپا، یہ آرٹیکل انھوں نے پاکستان کے تیزی سے بدلتی ماحولیات کہ کس طرح پاکستان اس بھنور میں دھنس رہا ہے، اس حوالے سے لکھا تھا۔ بالخصوص فاطمہ بھٹو نے کراچی کی حالیہ بارشوں سے آئی تباہی کے پس منظر میں کالم لکھا کہ کس طرح یہ شہر آیندہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے طوفانی اور غیر موسمی بارشوں سے دوچار ہو گا اور ان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اس شہرکی کوئی تیاری بھی نہیں۔ اس شہرکے پاس ڈرینج سسٹم ہی نہیں۔ نالوں پر قبضے ہیں، یہ قبضے ان غریب لوگوں کے ہیں جن کو متبادل گھر نہ دینا بھی ایک بہت بڑے بحران کو جنم دیگا۔
آیندہ تیس سال میں یہ گرمی چار ڈگری مزید بڑھنے والی ہے۔ پاکستان کا شمار اس وقت ان پانچ بدترین ملکوں میں ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کی زد میں آنیوالی تباہی کے شکار ہونگے۔ ہم کراچی والوں کے ساتھ تو بہت ہی برا ہوا۔ جب محترمہ فاطمہ جناح تھیں تو ہم جمہوریت کے ساتھ تھے۔ پھر ایک بیانیہ بنا کر ہم آمریتوں کے بارے میں حساس نہ رہ سکے اور ہوتے ہوتے ایسا بھی ہوا کہ ہماری محرومیوں کو یرغمال بنا کر ہمیں ، ہمارے ہی خلاف بھی استعمال کیا گیا۔ شہر میں دہشتگردی کو ہوا دی گئی، لسانی فسادات کرائے گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کراچی میں اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی بنیادی جڑیں نہیں رکھتی۔ وہ چاہے متحدہ ہو ، پی ٹی آئی ہو یا پیپلزپارٹی۔ پی ٹی آئی کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ متحدہ کا بیانیہ اپنالے اور اس طرح وہ پیپلزپارٹی کا مقابلہ کر سکتی ہے مگر جس طرح سے انھوں نے فردوس شمیم نقوی کو سندھ اسمبلی سے حزبِ اختلاف کے قائد کی حیثیت سے برخاست کیا، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کراچی کے بیانیہ کی محافظ نہیں بن سکتی۔
خان صاحب نے کراچی کے لیے بڑے بڑے دعوے بھی کیے۔ 165 ارب دینے کا وعدہ بھی کیا مگر عملی طور پر اب تک کوئی وعدہ وفا نہ ہوا۔ حال ہی میں وزیراعظم صاحب نے 11 سو 50 ارب کا بجٹ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اس ملاقات میں سندھ حکومت نے بھی حصہ لیا مگر خان صاحب کے جانے کے بعد یہ گیارہ سو ارب روپے بھی تکراری بن گئے کہ ان پیسوں میں سندھ حکومت نے کتنے ڈالے اور وفاق نے کتنے؟ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا یہ شہر ہے مگر اس شہرکا انفرااسٹرکچر جس طرح تباہ کیا گیا، اس کی کوئی مثال نہیں۔ بنیادی طور پر بڑے شہر وسیع ہوتے ہیں یعنی ہوری زینٹل بڑھتے ہیں مگر یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اس شہرکے پاس ماس ٹرانسپورٹ کا بہت پائیدار اور انفرااسٹرکچر ہو جو شہری کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک تیز رفتاری سے سفر کرا سکے، اگر ایسا نہیں تو یہ شہر وسیع نہیں بلکہ اونچا یعنی ورٹیکل انداز میں بڑھے گا۔
شہروں کی ٹائون پلاننگ ایک بہت بڑی سائنسی ٹیکنک ہے جو اس شہر پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اس شہرکا اب یہ حال ہے کہ جو نظامِِ ٹرانسپورٹ ماضی میں تھا وہ بھی نہیں رہا جب کہ یہ سسٹم لاہور، اسلام آباد و پنڈی میں قدرے بہتر ہے۔ اس شہر کا کوئی ماسٹر پلان نہیں، جو چاہے جہاں چاہے تعمیرات کر سکتا ہے اور اس کی سب سے بڑی ذمے دار بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے۔ شہرکا آدھا حصہ کنٹونمنٹس میں آتا ہے، ان کے اپنے قانون ہیں، میونسپلٹی وہ ادارہ ہے جو متحدہ کے زمانوں میں بری طرح متاثر ہوا۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت بہت سے فطری اختیارات جو میونسپلٹی کے پاس ہونے چاہیے وہ نہیں ہیں۔ ایک ایسا شہر جس کی بازاروں میں ریٹیلر دکانیں صرف 450 روپیہ ایف بی آرکو ٹیکس جمع کراتے ہیں جو پاکستان کے دوسرے بڑے شہرمل کر بھی ادا نہیں کرتے مگر کراچی کے پاس اپنی ترقی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
وفاقی حکومت یا پی ٹی آئی یا پھر متحدہ کی کوشش ہے کہ اس شہر کو پھر لسانی رنگ میں رنگ دیا جائے مگر ایسا ہو نہیں پا رہا کہ کوئی بھی اس بھنور میں نہیں پھنسے گا۔ تاریخ کا ایک بہت بڑا سبق موجود ہے ۔ متحدہ کا انداز سیاست تو یہی ہے۔ یہ بات تو سمجھ آتی ہے، مگر پی ٹی آئی تو ملک گیر پارٹی ہے وہ کیوں پریشان ہے؟ ان کی پریشانی اس لیے ہے کہ کراچی کے لیے وہ کچھ بھی نہ کر سکے اور کر بھی نہیں سکتے! کیونکہ ان کے پاس اتنا بجٹ ہی نہیں اور نہ ہی آیندہ کے انتخابات میں کسی معجزے کے امکان ہیں جیسا کہ 2018ء کے الیکشن میں ہوئے۔ پی پی پی کا ماجرا کچھ اور ہے ان کے پاس اتنا ووٹ بینک ہے کہ وہ حکومت بنا لیتے ہیں اور ان کوکراچی کی فکر بھی نہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پیپلز پارٹی چونکہ اس میں سندھ کے وڈیرے زیادہ ہیں اور یہ وڈیرے کراچی کو بھی اسی طرح چلانا چاہتے ہیں جس طرح یہ گائوں چلاتے ہیں مگر یہ کہنا کہ یہ اندرون سندھ سے آتے ہیں اور کراچی پر حکومت کرتے ہیں۔
خان صاحب نے نامناسب بات کی ہے۔ اس طرح کی اصطلاح دنیا میں کہیں بھی استعمال نہیں ہوتی جس طرح یہ سندھ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ستر سال پہلے ہجرت کرنیوالے لوگ اب کوئی اور نہیں بلکہ سندھی ہیں اور یہ سندھ کے وارث ہیں ، ان کا جینا مرنا بھی اب یہیں ہے ۔ اب یہ سندھ کی تاریخ کے بھی وارث ہیں اور یہ سندھ کی بھرپور مڈل کلاس بھی ہے جو سندھیوں کی مخصوص معاشی قدروں کے حوالے سے وڈیروں کو نہیں جتواتے بلکہ مڈل کلاس لوگوں کو الیکشن میں جتواتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر اب تک سندھ کی جمہوری جدوجہد کو کچلنے کے لیے کراچی کے شہری ووٹ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سندھی ووٹ وڈیروں کو ہی جاتا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان کی جمہوری جدوجہدکا ہر اول دستہ سندھی رہے ہیں اوروہ کبھی بھی آمریت کے سامنے نہیں جھکے۔
کراچی کے اندر ماحولیاتی تبدیلی اورکراچی الیکٹرک کی بدترین کارکردگی اور پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑے بحران آنیوالے ہیں، اب تو گیس کی قلت کا بحران بھی آنیوالا ہے۔ اس پر متحدہ ، پی ٹی آئی سب خاموش ہیں، پیپلز پارٹی یا سندھ حکومت سپریم کورٹ یا سی سی آئی میں یہ معاملہ نہیں اٹھا رہے پھر بھی سپریم کورٹ کی ایسے تضادات میں Original Jurisdiction بنتی ہے۔ ہمیں یہ سوال ان اینکروں سے بھی کرنا چاہیے جو کراچی کی اس محرومی کو باقی ماندہ سندھ کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ہمیں بھی اسی طرح یکجا ہو کر کراچی کے حقوق کے لیے آگے آنا ہو گا جس طرح کراچی میں پوش ایریاز کے لوگ ا پنے حقوق کے لیے آگے آ ئے، بغیر کسی لسانی یا مذہبی پہچان کے، یہی ترقی کی سائنس کے بڑے اسکالر امرتا سین اور ڈیزر لکھتے ہیں۔
0 Comments