کراچی سٹیزن فورم (KCF) کی کنوینر نرگس رحمٰن اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے گزشتہ دنوں مجھے کراچی سٹیزن فورم کے اہم اجلاس میں مدعو کیا۔ میں جب اپنے دوست شمیم الرحمٰن علوی کے ساتھ پاکستان امریکن کلچر سینٹر (PACC) پہنچا تو دیکھا کہ ہال زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات، پروفیشنلز، دانشوروں، آرکیٹیکٹ، ٹائون پلانرز، ڈاکٹرز اور ٹی وی چینلز کے نمائندوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس موقع پر سابق گورنر سندھ کمال اظفر، حاجی ناظم، شہناز رمزی اور سول سوسائٹی کے بےشمار دوستوں کو مقررہ وقت پر کورونا کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی۔ اجلاس شروع ہونے پر فورم کی کنوینر نرگس رحمٰن نے دیگر اسپیکرز کے ساتھ مجھے بھی اسٹیج پر مدعو کیا۔
اسپیکرز میں کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انٹرپنیورشپ (KITE) کے آرکیٹیکچر ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ سمیتا احمد، اربن ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر زاہد فاروق، کامن ویلتھ کراچی تھنک ٹینک کے سید خاور مہدی اور لینڈ اسکیپ ڈیزائنر کومل پرویز شامل تھیں۔ نرگس رحمٰن نے بتایا کہ وزیراعظم کے 1.1 کھرب روپے کے ’’کراچی پیکیج‘‘ (KTP) کی اخبارات کی ہیڈ لائنز کے بعد موٹر وے خاتون سانحہ، مذہبی ریلیوں اور آل پارٹیز کانفرنس کی شہ سرخیوں نے کراچی پیکیج کی جگہ لے لی اور اس پر عملدرآمد کیلئے تشکیل دی گئی صوبائی کوآرڈی نیشن کمیٹی اب تک خاموش ہے، اُن کا کہنا تھا کہ کراچی کے مسائل کا حل صرف اور صرف مقامی حکومت کو وسائل کے ساتھ اختیارات کی منتقلی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کراچی پیکیج پر عملدرآمد کیلئے اسٹیک ہولڈرز کو صوبائی کوآرڈی نیشن کمیٹی میں شامل کیا جائے۔
ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ کراچی میں تباہ کن بارشوں کے بعد کمزور انفرا اسٹرکچر اور پینے کے گندے پانی کی وجہ سے شہریوں میں ڈائریا، ہپاٹائٹس، ڈینگی اور دیگر مہلک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں لیکن ان بیماریوں سے نمٹنے کیلئے حکومت کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ 1100 ارب روپے کے کراچی ٹرانسفارمیشن پیکیج میں 800 ارب روپے کے حکومت سندھ کے جاری منصوبے بھی شامل ہیں، اِس لحاظ سے پیکیج میں وفاقی حکومت کے 3 سال کیلئے صرف 100 ارب روپے سالانہ شامل ہیں جو کراچی کے عوام سے ایک مذاق ہے۔ ایف بی آر کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کی صرف 10 مارکیٹوں نے 94 ارب روپے کا مجموعی ٹیکس ادا کیا ہے جس میں صرف صدر کے تجارتی مرکز نے 77 ارب روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ کراچی 572 ارب روپے سالانہ ٹیکس ادا کر کے ملک کا سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا شہر قرار دیا گیا۔
میں نے اجلاس میں بتایا کہ حکومت کراچی ٹرانفارمیشن پیکیج پر ایک ٹاسک فورس بنارہی ہے جس میں مختلف شعبہ زندگی سے پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندوں کو شامل کیا جارہا ہے، میری حکومت سے درخواست ہے کہ کراچی سٹیزن فورم کے نمائندے کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ میں نے وضاحت کی کہ کراچی ٹرانفارمیشن پیکیج (KTP) میں کراچی کے زیادہ تر پرانے منصوبوں کو شامل کیا گیا ہے جس میں K-4 واٹر سپلائی منصوبہ اور کراچی سرکولر ریلوے کے منصوبے بھی شامل ہیں جن پر پیکیج کی آدھے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے لیکن ان منصوبوں پر تیکنیکی بنیادوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ آیا پرانے ڈیزائن کے یہ منصوبے کراچی کے مستقبل کے ماڈرن انفرااسٹرکچر کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر K-4 کے کئی سال پرانے منصوبے پر اربوں روپے خرچ کر کے اب روک کر کہا جارہا ہے کہ اس کا موجودہ روٹ قابلِ عمل نہیں، اس کیلئے نیا روٹ ڈیزائن کرنا ہو گا۔
کراچی کے عوام جو K-4 سے پانی کی سپلائی کا رات دن خواب دیکھ رہے تھے، کیلئے اتنے برسوں بعد یہ خبر نہایت مایوس کن ہے۔ میں نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ میں نے پوری زندگی پاکستان اور صرف پاکستان کی وکالت کی ہے لیکن اپنے قارئین کے جذبات اور احساسات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومتوں کی کچھ غلط پالیسیوں پر اختلاف کرنا میرا فرض ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے اخبارات میں مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ میں داخلے سے متعلق ایک اشتہار میں ’’سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والے کراچی کے علاوہ طلبہ داخلے کیلئے اپلائی کر سکتے ہیں‘‘ پڑھ کر افسوس ہوا۔ کوٹہ سسٹم جن حالات میں نافذ کیا گیا تھا، وہ حالات اب بدل گئے ہیں، حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ میرٹ پر داخلے اور ملازمتیں دی جائیں۔ کراچی کا ایک بڑا مسئلہ گزشتہ مردم شماری ہے جس میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ظاہر کی گئی ہے جبکہ دیگر ذرائع کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد بتاتے ہیں۔
آبادی کے اس فرق کی وجہ کراچی کے مضافاتی علاقوں کو کراچی کی آبادی میں شامل نہ کرنا ہے جبکہ پنجاب میں مضافاتی علاقے شامل کئے گئے ہیں۔ کراچی شہر کی آبادی کا جب تک صحیح ڈیٹا حاصل نہیں ہوتا، شہر کے انفرااسٹرکچر کیلئے موثر منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی جس کی بنیاد پر کراچی کا جدید ماسٹر پلان بنایا جائے تاکہ اس پر عمل کر کے قائد کے شہر کو وہ مقام دیا جا سکے جو اِس کا حق بھی ہے اور منصب بھی۔ گزشتہ بارشوں میں کراچی کی کئی شہری تنظیموں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کراچی کیلئے آواز اٹھانے کی درخواست کی کہ کراچی کو اب ایک پڑھی لکھی سلجھی ہوئی نئی قیادت کی ضرورت ہے جو کراچی کے حقیقی شہری ہوں اور انہیں ماضی میں آزمایا نہیں گیا ہو اور وہ بےداغ ریکارڈ رکھتے ہوں۔ اُن کا اور اُن کے بچوں کا مستقبل کراچی سے وابستہ اور خاندان کا جینا مرنا اِسی شہر کیلئے ہو۔ یہ قیادت شہر کی اونرشپ لینے میں مخلص ہو اور لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر شہر کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ قارئین! یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
0 Comments