Ticker

6/recent/ticker-posts

اب سگریٹ نوشی چھوڑنا کیوں ضروری ہے؟

ویسے تو اب یہ نعرہ عام ہے کہ ہر دن ، تمباکو نوشی سے انکار کا دن ہے، تاہم 1987ء سے ہر سال 31 مئی کو منایا جانے والا ’’ ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے‘‘ آج بھی پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، اسکا مقصد عوام الناس کو تمباکو کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنا ہے۔ سال 2021ء میں ’ ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے ‘ کے موقع پر ان لوگوں کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا جو سگریٹ نوشی کے نقصانات جان کر اسے چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سگریٹ پینے والوں میں 60 فی صد افراد سگریٹ نوشی سے پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں تاہم ان میں سے محض 30 فیصد ہی کو ترک تمباکو نوشی کے مراحل میں ضروری سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں صرف 23 ممالک میں تمباکونوشی چھوڑنے کے خواہش مندوں کا ان کی حکومتیں ساتھ دیتی ہیں۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران میں مختلف تحقیقاتی رپورٹس سامنے آئیں جن میں کہا گیا کہ تمباکو پینا یا چبانا انسان کے مدافعتی نظام پر انتہائی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس تناظر میں کورونا وائرس آنے کے بعد تمباکو چھوڑنے کی خواہش کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ بات کوئی راز رہی نہیں کہ کورونا وائرس انسان کے پھیپھڑوں پر بار بار حملہ کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سگریٹ پینے والوں کے لئے کورونا وائرس 40 سے 50 فیصد زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اس وائرس کی ہلاکت خیزی سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس کی قوت مدافعت مضبوط ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کے نتیجے میں پھیپھڑوں کے نظام پر کافی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے بعد مختلف بیماریوں کو انسان پر ہلہ بولنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں مثلاً نزلہ و زکام ، انفلوئنزا ، ٹی بی ، نمونیا وغیرہ ۔

اب عالمی ادارہ صحت کی طرف سے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹوبیکو فری ماحول قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے لئے لوگوں کو شعور فراہم کریں، سگریٹ نوشی ترک کرنے کے خواہش مندوں کا ساتھ دیں، انھیں ایسے ہتھیار فراہم کریں کہ وہ اسے بہ آسانی ترک کر سکیں۔ فی زمانہ انسانیت بحیثیت مجموعی کئی طرح کی آزمائشوں سے دوچار ہے۔ مختلف معاشی و سماجی مسائل نے نفسیاتی دباؤ اور ٹینشن کو بہت بڑھا دیا ہے۔ سکون کی تلاش میں انسان سرگرداں و پریشان ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جنھیں قوم کا متوسط اور غریب طبقہ کہا جاتا ہے، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایسے لوگ دن بھر محنت مشقت کر کے بہ مشکل اپنے اہل خانہ کے لئے گزر بسر کا انتظام کرتے ہیں۔ ان تھکے ماندے ٹوٹتے جسموں کو کسی وقت سگریٹ میں مدہوشی ملتی ہے تو وہ تھوڑی دیر کے لئے اس خوفناک دنیا سے دھوئیں کی دنیا میں چلے جاتے ہیں لیکن یہ دھواں ان کے مسائل کو ختم نہیں کر سکتا مگر ان کے وجود کو دھیرے دھیرے ختم کر دیتا ہے۔ 

تمباکو ہو یا دوسری منشیات، ان کا استعمال انسانی صحت کے لئے زہر کا کام کرتا ہے۔ سگریٹ پینے والے افراد منہ، گلے اور پھیپھڑوں کی شدید بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنے اردگرد رہنے والے دوسرے انسانوں کے لئے بھی خطرہ ثابت ہوتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 80 لاکھ افراد تمباکو نوشی کے نتیجہ میں بیمار ہو کے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ ایک دوسرے اندازے کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ دنیا بھر میں چھ لاکھ افراد ایسے بھی ہیں جو سگریٹ کے دھوئیں سے بیمار ہوتے ہیں حالانکہ وہ خود تمباکو نوشی نہیں کرتے بلکہ ان کے قریب کوئی دوسرا فرد سگریٹ پیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ہلاک ہونے والے 70 لاکھ افراد تمباکو نوش ہوتے ہیں جبکہ دس لاکھ بیس ہزار افراد بلواسطہ طور پر تمباکونوشی سے متاثر ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ لاہور کے ڈاکٹر فہیم بٹ کا کہنا ہے کہ ’’ تمباکو اور اس کے دھوئیں میں تقریباً سات ہزار کیمیکل موجود ہوتے ہیں جن میں اڑھائی سو کے قریب انسانی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ پائے گئے ہیں اور پچاس سے زائد ایسے کیمیکل بھی موجود ہوتے ہیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ تمباکو کے دھوئیں سے خون کی نالیاں سخت ہو جاتی ہیں جس سے ہارٹ اٹیک اور اسٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘‘

ٹوبیکو فری ماحول کیسے قائم کیا جائے؟
آج سے دس پندرہ برس قبل بڑی عمر کے لوگ سگریٹ یا حقہ پیتے نظر آتے تھے لیکن اب تو نوجوان بچے، کالج یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس یہاں تک کہ ٹین ایجرز بھی سگریٹ اور شیشے کو فیشن سمجھ کے یا اپنی کوئی فرسٹریشن کم کرنے کے لئے اختیار کر رہے ہیں جو انسانیت کے مستقبل کے لئے انتہائی مہلک اور تباہ کن ہے۔ اگر معاشرے کے سنجیدہ اور باشعور طبقہ نے اس طرف توجہ نہ کی تو شاید کوئی گھر اس تباہی سے نہ بچ سکے۔ اس تناظر میں ضروری ہے کہ ڈاکٹرز ، پروفیسرز، ٹیچرز ، علماء سب کے سب عوامی شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کریں۔ تعلیمی اداروں میں مباحثے اور سیمینار منعقد کروائے جائیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی سگریٹ اور دیگر منشیات کے تباہ کن اثرات سے عوام کو آگاہ کرے ایسے نعرے اور سلوگن عام کئے جائیں کہ ’’ سگریٹ جلتا ہے تو کینسر پلتا ہے‘‘۔ نشہ کے عادی افراد سے نفرت کی بجائے ہمدردی کی جائے اور ان کا علاج کر کے انھیں زندگی کی طرف واپس لوٹایا جائے۔ ہمارا دین بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی ، اس نے ساری انسانیت کو بچا لیا !۔

نشے کے عادی افراد کے علاج معالجہ کو بھی آسان کیا جائے۔ بعض لوگوں نے اس علاج کو بھی بزنس بنا لیا ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے افراد کو اس میدان میں آگے بڑھنا چاہیے۔ بعض اوقات تعلیم یافتہ لوگ بھی سگریٹ ، شیشہ یا کوئی دوسرا نشہ چھوڑ نہیں پاتے، ان کو جاننا چاہیے کہ انسان اپنی مضبوط قوت ارادی کو بروئے کار لا کر اپنی اس بری عادت کو ہرا سکتا ہے۔ اسے اپنے لئے نہیں تو کم ازکم اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں کی خاطر یہ کرنا ہی ہو گا۔ اسے بقا کی یہ جنگ لڑنا ہی ہو گی۔ یہ صلاحیت انسان کو خدا نے ودیعت کی ہے کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کر کے اپنے رب سے مدد مانگتا ہے تو اسے توفیق مل ہی جاتی ہے۔ ایسے شخص کو اس بری عادت سے چھٹکارا پانے کے لئے پہلے اپنے اندر عزم کرنا ہو گا، پھر اسے چاہیے کہ وہ اندازہ لگائے کہ چوبیس گھنٹوں میں وہ کتنے سگریٹ لیتا ہے اور پھر بتدریج انھیں کم کرتا چلا جائے۔ ان کے متبادل کوئی پھل، اسنیکس ، چیونگ گم یا کچھ اور منہ میں ڈال لیا کرے اور جب وہ اپنی اس مشق میں کامیاب ہوجائے تو خود کو شاباش دیا کرے کہ وہ سگریٹ جیسے دشمن پر فتح حاصل کر رہا ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو کسی ڈاکٹر سے رجوع کر کے کچھ ادویات استعمال کی جا سکتی ہیں کیونکہ ’جان ہے تو جہان ہے! ‘

عصمت اسامہ  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments