شہر قائد میں سبز بسیں بھی مسافروں کی خدمت کر رہی ہیں اور سرخ بسیں بھی۔ سرخ اور سبز رنگ دیکھ کر بہت سے پرانے زمانے یاد آرہے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے پُر جوش نوجوانوں کی آوازیں’ایشیا سبز ہے۔‘ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پُر عزم نوجوانوں کی صدائیں ’ایشیا سرخ ہے۔‘ پھر بسیں جل رہی ہیں۔ مارشل لائوں کے خلاف شدید احتجاج۔ بس جلانا بھی ایک فن ہے۔ 80 سالہ اشتیاق اظہر پربس کو آگ لگانے کا مقدمہ۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی کے ہر دلعزیز پروفیسر ادیب رضوی پر بھی زمانۂ طالب علمی میں بس جلانے کا الزام۔ بس اونرز ایسوسی ایشن کے ارشاد بخاری کی پریس کانفرنس۔ سرکاری بسیں۔ پرائیویٹ بسیں۔ آج جب کراچی بے شُمار مسائل سے دوچار ہے، جب شہر کسی با اثر قیادت کی تلاش میں ہے۔ مہنگائی نے تین کروڑ نفوس کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس وقت کراچی کے ایک دو راستوں پر نئی نویلی ایئر کنڈیشنڈ بسوں کی آغوش کا میسر آجانا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجا لانا تو بنتا ہے۔
اور اللہ کے ان بندوں کی بھی ممنونیت، جنہوں نے یہ اہتمام کیا ہے۔ شدت کی گرمی میں۔ پیٹرول جب 248 روپے لیٹر ہو گیا ہے۔ اس وقت سرخ یا سبز بس اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے میسر آجائے تو زبان پر بے ساختہ ’الحمد للہ‘ تو آئیگا۔ جی تو چاہ رہا ہے کہ اس سہولت سے فیض یاب ہوا جائے۔ ان شاء اللہ کسی دن اس آرزو کو بھی رخصتِ پرواز دیں گے۔ پھر اس سفر کی رُوداد بھی حاضر خدمت کریں گے۔ ان ملکوں کا بھی شکریہ، جنہوں نے یہ بسیں بنائیں۔ اور ان بسوں کو بھی شاباش۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی، صنعتی و اقتصادی مرکز اور سب سے زیادہ آبادی والے شہر کے لوگ ان بسوں سے کیا سلوک کرتے ہیں؟ ہم شہری کسی بھی حکومت کو جو ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے بدلے میں حکومت ہمیں ٹرانسپورٹ اور علاج گاہیں فراہم کرتی ہے۔
آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں سے ملنے، ان کے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ آج اس شہر کی باتیں کرنی ہیں جسے ہم شہر قائد کہتے ہیں۔ جو بر صغیر کے عظیم لیڈر۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا شہر پیدائش بھی ہے۔ اور مدفن بھی۔ جہاں وہ ابدی نیند سو رہے ہیں۔ اس شہر کے مدرسے میں انہوں نے پرائمری تعلیم حاصل کی۔ انہیں ہمیشہ اس شہر سے بے پناہ محبت رہی۔ وہ اس شہر کو دنیا کے حسین ترین شہروں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میرے دل میں اس کے لیے تو قدر ہے ہی کہ یہ میری جائے پیدائش ہے۔ لیکن اس لیے بھی کہ اب یہ ایک خود مختار اور آزاد مملکت پاکستان کی جائے پیدائش بن گیا ہے۔ 25 اگست 1947 کو کراچی کارپوریشن کی جانب سے پیش کردہ شہریوں کے سپاسنامے کے جواب میں تقریر میں ان کے دل سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں، ’’کراچی کوئی معمولی شہر نہیں قدرت نے اسے غیر معمولی نعمتیں عطا کی ہیں۔ جو خصوصاً جدید ضروریات اور حالات کے لیے موزوں ہیں۔
اب یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اس کا شُمار دنیا کے اوّل درجے کے شہروں میں ہونے لگے گا۔ نہ صرف اس کے ہوائی اڈّے ، بندرگاہیں اوراصل شہر بھی بہترین شہروں میں شامل ہوں گے۔‘‘ کراچی میں آپ کو پورا پاکستان اپنی صفات، عیوب، محاسن، مزاج اور جبلتوں کے ساتھ نظر آسکتا ہے۔ گلگت بلتستان والے یہاں شہر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آزاد کشمیر والے یہاں تجارت میں مصروف ہیں۔ بلوچستان کے بلوچ اور پشتون یہاں محنت کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے پٹھان یہاں شہر کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سرائیکی بولنے والوں کی بڑی تعداد اپنی ثقافت کے رنگوں کے ساتھ موجود ہے۔ مرکزی اور شمالی پنجاب کے ہم وطن اپنے زور بازو سے رزق حلال کما رہے ہیں۔ سندھ کے ماتھے کا تو کراچی جھومر ہے۔ سندھ کا قابل فخر حصّہ۔ سندھ کے ماہرین تعلیم، انجینئر، دانشور کراچی کو ان بلندیوں کی طرف لے جارہے ہیں جو قائد اعظم کی آرزو تھی۔
کراچی پاکستان کی آن ہے، شان ہے۔ یہ سب کو امان دیتا ہے۔ مگر اس پر ظلم بھی سب ہی کرتے ہیں۔ کراچی کی روح پر مقامی اسٹیبلشمنٹ کے گھائو بھی ہیں۔ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے بھی۔ کراچی میں فرقہ واریت نے بھی خون بہایا ہے۔ لسانی تنظیموں نے بھی لاشیں گرائی ہیں۔ ہر قسم کا تعصب یہاں آگ لگاتا رہا ہے۔ یہی کراچی ہے۔ جس نے ملک کو عبدالستار ایدھی دیا۔ ایدھی ایمبولینسیں دیں۔ ادیب رضوی بھی اسی کراچی کی پہچان ہیں۔ چھیپا بھی اس کراچی کی شناخت ہے۔ انڈس اسپتال والے ڈاکٹرعبدالباری بھی کراچی کے بیٹے ہیں۔ سٹیزن فائونڈیشن بھی کراچی والوں کا تحفہ ہے۔ رتھ فائو کو بھی کراچی نے آغوش دی تھی۔ کراچی پاکستان کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے۔ پاکستان بھر کی کئی ضروریات پوری کرتا ہے لیکن پاکستان کے اکثر لوگ اور ادارے کراچی کو اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ اسلئے 22 کروڑ میں سے 3 کروڑ کے حقوق ہمیشہ نظر انداز ہوتے ہیں۔
یہ 3 کروڑ پورے پاکستان سے آئے ہوئے ہیں۔ کراچی منی پاکستان ہے۔ آپ جب اس کی بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ اور امن و امان کی ضروریات پوری نہیں کرتے تو پورے پاکستان کو محروم کرتے ہیں۔ یہ پورے پاکستان کا دروازہ ہے۔ یہ شہر علم کا مرکز ہے۔ علاج معالجے کا سر چشمہ ہے۔ صنعت کا منبع ہے۔ تجارت کا دہانہ ہے۔ اس کی قیادت کا حق اس کے بیٹوں کے پاس ہونا چاہئے۔ اس کا قائد بھی ویسا ہی عظیم ہونا چاہئے جیسا عظیم یہ شہر ہے۔ اس قائد کا تدبر اور ادراک تین کروڑ کے شعور کا نچوڑ ہونا چاہئے۔ قائد کے اس شہر کا تحفظ، ترقی، مسائل کے حل کی فکر صرف کراچی والوں کو نہیں۔ پورے پاکستان والوں کو ہونی چاہئے کیوں کہ ان سب کے پیارے یہاں تلاش رزق میں موجود ہیں۔
0 Comments