جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں ان کی ناقدری کرتی ہیں ایسی قوموں کا مستقبل روشن ہر گز نہیں ہو سکتا۔ قوموں کی زندگی میں خوش قسمتی سے ایسے ہیروز پیدا ہوتے ہیں جو ان میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے ہیرو گزرے ہیں جنھوں نے اپنے وطن کے دفاع اور ترقی کے لیے ہر وہ قربانی پیش کی جس کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا شمار بھی ایسے ہی ہیروز میں ہوتا ہے۔ وہ یورپ کی پُر آسائش زندگی کو خدا حافظ کہہ کر پاکستان آئے تاکہ ملک کے لیے ایٹمی طاقت بنانے کی جدوجہد میں مصروف سائنسدانوں کی ٹیم کا حصہ بن جائیں۔ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر جب ماضی کو یاد کرتے تھے تو ان کا لب و لہجہ دیدنی ہوتا تھا۔ وہ ماضی کی یادوں کو ایسے بیان کرتے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا کہ وہ کیسے کٹھن حالات تھے جن میں انھوں نے اور ان کے رفقاء کار نے ایٹم بم بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر ان کی زندگی میں وہ دن بھی آگیا کہ جب پاکستان ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ بتاتے تھے کہ یہ ان کی زندگی کا وہ تاریخی دن تھا جس کا وہ ایک مدت سے انتظار کر رہے تھے اور اس کامیابی کے لیے شبانہ روز محنت کی جارہی تھی۔ اس خوشی کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے، یہ ان کی ذات کی کامیابی تو تھی ہی لیکن اس کامیابی نے ان کے ملک اور امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ الف لیلوی داستان ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں نے جس مشن کو ناکام بنانے کی بھر پور کوشش کی وہ مشن نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ اس سے اگلے مشن کی بھی تیاری شروع کر دی گئی۔ دفاع وطن کے اس اہم ترین مشن میں ہر حکومت نے اپنے اپنے حصے کا کام کیا، ڈاکٹر قدیر اور ان کو ہر وہ مدد فراہم کی گئی جس کی ان کو ضرورت تھی۔ وہ اس بات کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ کسی بھی حکومت نے ایٹم بنانے کے عمل کے دوران کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا تھا بلکہ وہ خاص طور پر ذکر کرتے تھے کہ ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے مختلف ذرایع استعمال کیے گئے اور کہیں نہ کہیں سے اس کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا ضیاء الحق یا ان کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان سب نے اس میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو صاحب نے ایٹم بم بنانے کی بنیاد رکھی۔ بھٹو صاحب نے دفاع وطن کے لیے کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں بیرونی طاقتوں نے انھیں عبرت کی مثال بنا دیا۔ بعد ازاں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی ریاست بن جانے کا اعلان کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر امریکا اور اس کے حواریوں کی جانب سے شدید دباؤ تھا کہ وہ ہندوستان کے مقابلے میں جوابی دھماکے نہ کریں، اس کے بدلے ان کو کئی ارب ڈالر کی پیشکش بھی کی گئی لیکن میاں نواز شریف کی استقامت اور جرات کو داد دینی پڑے گی۔ جنھوں نے بے پناہ بیرونی دباؤ کے باوجود ایک محب وطن حکمران کے ذمے داری نبھائی اور جوابی ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور یوں پاکستان کو پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ بھی مل گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنھیں پاکستانی محسن پاکستان کے نام سے یاد کر تے ہیں لیکن مجھے انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ قوم کے اس محسن کی دوسری برسی بھی خاموشی سے گزر گئی، سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی اور نہ کسی اہم عہدیدار نے انھیں یاد کیا۔ پیپلز پارٹی جو ایٹم بم کی خالق جماعت ہونے اور مسلم لیگ نواز جو ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے سے کبھی نہیں چوکتی اور 28 مئی کو یوم تکبیر منایا جاتا ہے، ان دونوں جماعتوں نے بھی انھیں یاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ افسوس ہوتا ہے ان پاکستانی رہنماؤں پر جو دفاع وطن کے اس اہم ترین منصوبے پر سیاست تو کرتے ہیں لیکن اس کے خالق کو بھول گئے ہیں۔ محسن پاکستان اس دنیا میں پہنچ چکے ہیں جہاں انھیں دنیاوی چیزوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے رب کے ہاں اعلیٰ و ارفع درجہ پائیں گے لیکن افسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ہم نے اپنے محسن کو دو برس میں ہی بھلا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی ناقدری کا شدید احساس ہو گیا تھا، شاید اسی لیے وہ اس کو محسوس کر کے یہ لازوال شعر بھی کہہ گئے۔
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
محسن پاکستان کو عالم برزخ میں پاکستانی قوم یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس کے حکمران اپنی بشری کمزوریوں کے باعث انھیں یاد کریں یا نہ کریں مگر پاکستانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہمیشہ احسان مند رہیں گی اور انھیں یاد کرتے رہیں گے۔
0 Comments