ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ عوام مہنگائی کے ہمالیہ پہاڑکے نیچے سسک رہے ہیں۔ ہر مہینہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی مزید ایک روپیہ 25 پیسے مہنگی ہونے کے اعلان ہو رہے ہیں، ادھر یہ حقائق عوام کو ریاست سے دور کیے جا رہے ہیں، ملک کو ڈالرکی قلت کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ایسے ریٹائرڈ افسروں کو جوغیر ممالک میں اپنی مرضی سے مقیم ہیں انھیں ڈالر اور یورو میں پنشن ادا کی جارہی ہے۔ وزارت خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ایسے پنشنرز کی تعداد 164 کے قریب ہے جنھیں غیر ملکی کرنسی میں ہر ماہ پنشن ادا کی جاتی ہے، جس کی مالیت 200 ملین روپے کے قریب ہے۔ یہ حقائق کبھی سامنے نہیں آتے مگر آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کی شق 19-A کے تحت عوام کو یہ حقائق جاننے کا موقع مل گیا۔ سول سوسائٹی کے متحرک اراکین کی کوششوں سے وفاق اور چاروں صوبوں میں اطلاعات کے حصول کے جامع قوانین نافذ ہیں اور وفاق میں عوام کے اس حق کی تسکین کے لیے کمیشن قائم ہے۔ سول سوسائٹی کے کارکن نعیم صادق نے درخواست کی تھی کہ ان ریٹائرڈ افسروں کے نام افشا کیے جائیں جو بیرون ممالک مقیم ہیں اور ان کو ان کی پسند کی غیر ملکی کرنسی میں رقم ادا کی جاتی ہے۔ انھیں یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
انھوں نے وزارت خارجہ سے رجوع کیا مگر وہاں بھی کچھ نہیں ہوا۔ کسی دانا شخص کے مشورہ پر انھوں نے اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کو عرضداشت بھیجی مگر یہاں سے بھی معلومات فراہم نہیں ملی۔ انفارمیشن کمیشن سے یہ معلومات نہ ملی۔ نعیم صادق نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے قانون پر عملدرآمد کے لیے درخواست کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس اہم مسئلہ پر فوری توجہ دی اور وزارت خارجہ نے آخرکار معلومات فراہم کرنی پڑی۔ وزارت خارجہ کی تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق ریٹائرڈ سول اور فوجی افسروں میں جو اپنی مرضی سے بیرونِ ممالک میں مقیم ہیں ان کو 200 ملین روپے کی خطیر رقم فراہم کی جاتی ہے۔ نعیم صادق کا مدعا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کا زیاں آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25 ریاست کو تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کا پابند کرتا ہے۔ گزشتہ مالیاتی سال سے تمام وفاقی وزارتیں اور صوبائی حکومتیں شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں ۔ گزشتہ ایک سال سے شایع ہونے والی خبروں کے مطابق وزارت خارجہ غیر ممالک میں تعینات سفارتی عملہ کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہیں ادا نہیں کر پا رہی ہے۔
کئی ممالک میں تعینات عملہ کوکئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ سفارت خانوں میں دیگر اخراجات کے لیے بجٹ دستیاب نہیں ہے، صرف وزارت خارجہ ہی نہیں دیگر وفاقی وزارتوں میں بھی صورتحال خراب ہے۔ اسلام آباد کے 5 سرکاری اسپتالوں اور لاہور کے شیخ زید اسپتال کو متحرک رکھنے کے لیے 11 بلین روپے کی گرانٹ دینے کے لیے رقم دستیاب نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دیگر عملہ کو تنخواہوں کی ادائیگی تو کئی ماہ سے نہیں ہو سکی مگر اب ان اسپتالوں کی لیب، ایکسرے اور دیگر شعبے بھی عملاً بند ہیں۔ اسلام آباد کے سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کے لیے یہی وفاق کے پانچ اسپتال علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ وفاقی وزارت تعلیم کی نگرانی میں کام کرنے والے اسکولوں اور کالجوں میں بھی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے۔ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC گرانٹ کم کر دی۔ایچ ای سی نے پبلک سیکٹر یونیورسٹی کی گرانٹ میں مزید کمی کر دی، یوں صرف وفاق کے زیرِ انتظام یونیورسٹیاں نہیں بلکہ صوبائی یونیورسٹیوں کی گرانٹ کی کمی ہے۔
عمارتوں کی مرمت، عمارت کی تعمیر اور ریسرچ کے لیے رقوم موجود نہیں ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی تنخواہوں کی ادائیگی اور ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور گریجویٹی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ تنخواہوں کے لیے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہیں۔ یہی صورتحال بلوچستان اور سندھ کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کا مالیاتی بحران اتنا بڑھ گیا ہے کہ حکومت تنخواہوں اور پنشنوں میں کٹوتی پر غور کر رہی ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی کی بناء پر برآمدات اور درآمدات سست روی کا شکار ہوتی ہیں۔ زرمبادلہ کا بحران ہی ادویات کی قلت کا باعث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مارکیٹ میں جان بچانے والی ادویات موجود ہی نہیں اور جو ادویات موجود ہیں ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک کیمسٹ کا کہنا ہے کہ جب کراچی میں ہی انسولین دستیاب نہیں ہے تو باقی شہروں میں کیا صورتحال ہو گی۔ خون ٹیسٹ کرنے والی لیباریٹریوں کے افسران کہتے ہیں کہ پیچیدہ ٹیسٹوں میں استعمال ہونے والی کٹ اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ ہر ٹیسٹ کے شرح بڑھ گئے ہیں۔ یہی صورتحال ڈائیلاسز میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی ہے۔ یہ بدحالی تو ایک طرف سے دوسری طرف امداد دینے والے مالیاتی ادارہ کے رویے میں سختی کی ایک وجہ ریاستی و سرکاری اداروں کے افسران اوراہلکاروں کی عیاشیاں ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے افسران کا خاصے عرصہ سے یہ بیانیہ ہے کہ ریاستی انفرا اسٹرکچر کم کیا جائے۔ ریاستی ٹیکس امیروں اور بالادست طبقات پر لگائے جائیں۔ غریبوں کو ہر ممکن رعایت دی جائے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال اتنی خراب ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے دوست ممالک سے امداد لینے کے لیے گارنٹی طلب کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے آئی ایم ایف کے اس رویے کو ریاست کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے۔ رضا ربانی کا یہ بیانیہ ہے کہ آئی ایم ایف کے اسٹاف کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود مختار ریاستوں کے درمیان وعدوں کی جانچ پڑتال کرے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا مگر بقول ایک معاشیات کے ماہر کے آئی ایم ایف کے رویے کی مذمت کرنے سے زیادہ ریاستی پالیسیوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اس طرح کے حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں کی بنیادی ترجیح معاشی بحران کا خاتمہ نہیں ہے۔ ان ناجائز مراعات کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جس کو غیر ملکی زرمبادلہ کے لیے اپنے اداروں کا وقار داؤ پر لگانا پڑ رہا ہے اور ریاست کی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ وہاں اشرافیہ کو خصوصی ادائیگی تمام دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔
0 Comments