Ticker

6/recent/ticker-posts

پانی، بحران کے اسباب

ہلاکت خیز موسم گرما کے آغاز سے ہی شہر کراچی میں پانی کا بدترین بحران بدستور جاری ہے، واٹر بورڈ کی نااہل انتظامیہ پانی کے بحران پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ دوسری طرف مردم کش گرمی میں کے الیکٹرک کی جانب سے اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گرمی کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے 1300 سے زائد انسانی جانیں ضایع ہیں۔ یعنی ایک طرف شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں تو دوسری طرف شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ اللہ اپنے فضل سے کرم کرے اور ملک بھر میں باران رحمت برسائے۔ (آمین)

کراچی کی آبادی 2 کروڑ کے لگ بھگ ہیں ۔ پانی کی ضرورت 1100 ملین گیلن روزانہ ہے۔ واٹر بورڈ کے انفرا اسٹرکچر کے ذریعے دریائے سندھ سے 550 اور حب ڈیم سے 100 ملین گیلن پانی فراہم ہوتا ہے۔ اس طرح شہر کراچی کو صرف 650 ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جاسکتا ہے لیکن ان دنوں حب ڈیم خشک ہونے سے 100 ملین گیلن پانی کی فراہمی گزشتہ ایک سال سے بند ہے۔ اس طرح کراچی کو روزانہ 550 ملین گیلن پانی فراہم ہو رہا ہے۔ یعنی روزانہ کراچی کو 550ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ دریائے سندھ سے کراچی کو 550 ملین گیلن پانی فراہم ہو رہا ہے تاہم واٹر بورڈ کے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کے پمپس کی استعداد کم ہونے، پانی چوری، لائنوں کے رساؤ اور دیگر وجوہات کے باعث 150 ملین گیلن پانی کم فراہم ہو رہا ہے یعنی اس طرح کراچی کی ضرورت یومیہ 1100 ملین گیلن پانی کے بجائے روزانہ 400 ملین گیلن پانی فراہم ہو رہا ہے۔ اس طرح کراچی کو روزانہ 700 ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

کراچی میں سالانہ 4.5 فیصد آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں کراچی کے لیے 1200 کیوسک اضافی پانی کے منصوبے پر فوری طور پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 2006 میں کے تھری منصوبے کے ذریعے 100 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی شروع کی گئی اس وقت شہر کراچی میں فی کس پانی کی فراہمی 42 ملین گیلن یومیہ تھی، بعدازاں پانی کی ایک بوند اضافہ نہ ہونے اور سالانہ تقریباً 6 لاکھ 75 ہزار آبادی میں اضافے کے باعث یہ شرح 17.5 گیلن یومیہ فی کس ہوگئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے پانی کی مقدار میں اضافہ کیا جاتا جو بوجہ نہیں کیا گیا۔
جو ذمے دار تھے وہ آج خود سڑکوں پر پانی پر احتجاج کر رہے ہیں یا پھر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی اصولوں کے تحت اضافی زندگی کے لیے پانی کی ضرورت فی کس 54 گیلن یومیہ ہے۔ کے 4 منصوبے کا پہلا مرحلہ 260ملین گیلن کا ہے جسے جنوری 2019 میں مکمل کیا جانا ہے، اس صورت میں بھی شہر کراچی میں پانی کا بحران حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔فی الوقت شہری پانی کے بدترین بحران پر مشتعل ہوکر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور بحران مزید سنگین ہونے کی صورت میں ہنگامے پھوٹ پڑنے کے خدشات ہیں۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بجلی کی فراہمی معطل ہونے سے 5 سے 44 ملین گیلن پانی شہر کراچی کو مزید کم فراہم کیا جاتا ہے اس طرح 1100ملین گیلن روزانہ کی جگہ 356 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی کراچی میں تقسیم آب کے نظام کے لیے تعینات کیے گئے افسران بھی پانی کی تقسیم کو منصفانہ بنانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پانی کے بحران کے پیچھے واٹر بورڈ، کے ایم سی اور وزارت بلدیات کے افسران ہیں جو ٹینکرز مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے پانی چوری کرکے مہنگے داموں فروخت کرنے کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔

حکومت سندھ نے 16 کروڑ روپے مفت ٹینکرز سروس کے لیے مختص کیے جب کہ اس رقم سے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی پرانی موٹروں کی تبدیلی سے پورے شہر کو اضافی 60 ملین گیلن پانی کی فراہمی ممکن ہوسکتی تھی مگر یہاں بھی من پسند لوگوں کو نوازا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سائٹ کے علاقے میں رہائشی علاقوں کا تقریباً 80 لاکھ گیلن کا حصہ چوری کرکے انڈسٹریز کو فروخت کیا جاتا ہے اور تقریباً 20 کروڑ روپے کمائے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ واٹر بورڈ کے افسران کی ترجیح پانی کے بحران کا حل نہیں بلکہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جیب بھرنا اور اعلیٰ حکام کو بھی خوش رکھنا ہے جب کہ شہری بورنگ کا کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کے لیے فلٹریشن پلانٹ بھی نصب ہیں جن میں سے بہت سے ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
شہر میں پانی کی قلت سے سخت گرمی میں برف بھی نایاب ہوگئی ہے۔ برف کے کارخانوں میں مضر صحت اور آلودہ پانی برف بنانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے جس سے شہر میں موذی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واٹر بورڈ اور سندھ حکومت نے پانی کا بحران کھڑا کرکے برف تیار کرنے والے کارخانوں اور خوردہ فروشوں کے لیے من مانی قیمتوں پر فروخت کرنے کا بہترین موقع فراہم کردیا ہے۔

کے الیکٹرک کی جانب سے اگر دس منٹ بجلی چلی جاتی ہے تو واٹر بورڈ پریس ریلیز جاری کرکے تمام ذمے داری اس پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ کے الیکٹرک کا اپنا کہنا ہے کہ وہ پوری ایمانداری کے ساتھ واٹر بورڈ کی تنصیبات کو بجلی کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس وقت پورا شہر کراچی پانی، بجلی اور گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی کو بھی عوام کی تکلیف کا کوئی احساس نہیں ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ پانی، بجلی اور گیس کے مسائل کو بھی ایپکس کمیٹی کے ایجنڈے میں شامل کرکے حل کیے جائیں۔

شبیر احمد ارمان

Post a Comment

0 Comments