حال ہی میں جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق کا بیان اخبارات کی زینت بنا کہ ہم کراچی شہر کو عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل شہر بنائیں گے، قیام پاکستان کے وقت لاکھوں لوگوں نے لبرل نہیں اسلامی پاکستان کے لیے قربانیاں دی تھیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسلامی جمیعت کے طلبا نے ملکی بقا و سلامتی کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
بلاشبہ اس ملک کی اکثریت دین اسلام کو ماننے والی ہے اور بلاتفریق تمام ہی اکثریت کا قرآن پاک پر ایمان ہے اور یہ قرآن ان کی زندگیوں کے تمام فیصلے کرنے میں رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے، اسی طرح سود کا معاملہ ہے جس پر مسلمانوں کے تمام مسالک کا بھی متفقہ فیصلہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں سود کی لین دین کرنا اللہ تعالیٰ سے کھلی جنگ ہے۔
ایسے ہی اور بھی کافی سارے معاملات ہیں کہ جن پر قرآن و سنت سے ہمیں بڑی واضح ہدایت و رہنمائی ملتی ہے اور ان میں مسلکی اختلاف رائے بھی نہیں ہے مگر چونکہ ہماری اکثریت قرآن ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھ رہی اور دوسری جانب جمہوری نظام کے تحفے کے باعث ’’عوام کے معاشی مسائل اور خواہشات‘‘ کو ہماری مذہبی جماعتیں بھی ترجیح دینے لگی ہیں لہٰذا اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، نہ ہی فی الحال دور تک اس کا اشارہ ملتا دکھائی دیتا ہے۔
چنانچہ ایسے میں امیر جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی شہر کو عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل شہر بنانے کا عزم دل کو تو خوش کرتا ہے مگر بہت مشکل تر ہے، راقم کی ناقص رائے میں اس سلسلے میں راستے دو طرف منقسم ہیں اور ان دونوں راستوں پر جدوجہد کی ضرورت ہے، ایک راستہ اوپر کی طرف جاتا ہے یعنی حکمرانوں اور پارلیمنٹ کی طرف اور دوسرا راستہ عوام کی طرف جاتا ہے۔ دونوں راستے انتہائی مشکل ہیں مثلاً عوام کی طرف جو راستہ جاتا ہے اس میں عوام کو قرآن کی تعلیمات سے آگاہی فراہم کرنا ہو گی، کیونکہ عوام کی بھاری اکثریت قرآن کو عموماً بیٹی کو رخصت کرتے وقت استعمال کرتی ہے یا قسم اٹھانے کے لیے یا پھر ایصال ثواب کے لیے صرف عربی زبان میں پڑھتی ہے۔
یوں اکثریت کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ قرآن ہم سے کیا تقاضا کر رہا ہے۔ یوں کراچی شہر کو اسلامی ماڈل بنانا ہو تو پھر پہلے شہریوں کو قرآن کے مطالعے کی طرف راغب کرنا ہو گا، دوسرے اسلامی تنظیموں سے وابستہ افراد کو اپنا ہر عمل اور اخلاق اس قدر مثالی بنانا ہو گا کہ لوگ خود ان کو ماڈل سمجھیں۔ (مثلاً جامعہ کراچی میں اس تنظیم سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے اساتذہ جب کلاسوں میں لیکچر دینے جائیں تو لازمی گاؤن پہنیں، اسی طرح طلبا خاص کر طالبات بھی گاؤن پہن کر جامعہ آئیں، یوں نہ صرف تعلیمی نظم و ضبط قائم ہو گا بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے طالبات میں بے پردگی کا بھی خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔)
دوسری جانب پارلیمنٹ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے غیر اسلامی قانون سازی کو روکنے کی کوشش کی جائے، یہاں بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ صوبہ سندھ اور پنجاب اسمبلیوں سے شادی کی عمر سے متعلق قطعی غیر اسلامی قانون کی منظوری بھی ہوئے ایک عرصہ ہو چکا مگر افسوس نہ تو کسی مذہبی جماعت کے رکن اسمبلی سے اس پر احتجاج ہوا، نہ ہی انفرادی طور پر کسی کی جانب سے اعتراض ہوا۔ یوں اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کرنے پر سزا کا قانون اسمبلیوں سے پاس ہو کر نافذ بھی ہو گیا، حالانکہ یہ نوجوانوں کے بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی تھی مگر کسی این جی او نے بھی اس پر آواز بلند نہ کی۔ ایسے میں ایک شہر کس طرح اسلامی طور پر ماڈل بن سکتا ہے؟ کہ جب اس نے اپنے احتجاج کا حق بھی استعمال نا کیا جائے؟
اسی طرح سود کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے ایک جج کے بیان کو دیکھ لیجیے کہ جس کو سود نہیں لینا ہے وہ نہ لے اور جو سود لے رہا ہے اس سے خدا خود پوچھ لے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا تو غیر اسلامی ممالک میں بھی ہوتا ہے کہ جہاں مسلمان اپنا سود بینک میں ہی چھوڑ دیتے ہیں، پھر ہمیں آگ اور خون کا دریا عبور کر کے ایک الگ وطن حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح یہ بھی قابل غور بات ہے کہ کسی قتل کرنے والے کو بھی اس منطق پر چھوڑ دیا جائے کہ قتل کرنے والے کو خدا خود پوچھے گا!۔
سود کے خاتمے کے سلسلے میں کسی جج کی طرف سے اس قسم کے بیان پر جماعت اسلامی سمیت تمام تنظیموں کی جانب سے سخت احتجاج کی جو توقع تھی وہ پوری نہ ہو سکی، ایسے حالات میں کراچی شہر کو مثالی اسلامی شہر بنانے کے عزم سے کہیں زیادہ ضرورت سود کے خلاف ایک بڑی تحریک چلانے کی ہے کیونکہ یہ مسئلہ ایک طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے تقریباً دو سال بینکنگ نظام کا جائزہ لینے کے بعد 1966 میں سودی نظام کو خلاف اسلام قرار دیا تھا، 1969 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک بار پھر اپنی رپورٹوں کا اعادہ کیا۔ پھر 1973 کے آئین کے تحت حکومت کو جلد از جلد سودی نظام کے خاتمے کی ذمے داری دی گئی۔
صدر ضیاء الحق کے زمانے میں بھی کوششیں جاری رہیں، اس دور میں وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں آیا اور سپریم کورٹ میں شریعت اپیل بنچ بھی بنا لیکن وفاقی شرعی عدالت کو پابند کر دیا گیا کہ وہ دس سال تک مالی معاملات میں شریعت کے حوالے سے کوئی کیس نہیں چلائے گی۔ 1991 میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک فیصلے کے ذریعے جون 1992 سے بینک کے سودی کاروبار کو حرام قرار دے دیا۔
اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کر کے حکم امتناعی حاصل کر لیا، 1999 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے فل بنچ نے سود کے خلاف فیصلہ دے دیا مگر مشرف دور حکومت میں ایک پرائیویٹ بینک کے ذریعے نظرثانی کی درخواست دائر کر دی گئی، پھر گڑ بڑ کی گئی اور نتیجے میں ایک بنچ بنایا گیا جس نے سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ وفاقی شرعی عدالت میں یہ کیس پندرہ سال سے پڑا ہے اور نہ جانے کب تک پڑا رہے؟
یہاں یہ مختصر سی روداد بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ سود کے خاتمے سے متعلق اتنی مضبوط طاقتوں کے مفادات وابستہ ہیں کہ وہ ہر موقع پر کوئی نہ کوئی ہاتھ دکھا جاتی ہیں، لہٰذا ان سے نمٹنے کے لیے بھی تمام دینی قوتوں کو متحد ہو کر زور لگانا ہو گا، محض خواہشوں سے کچھ نہ ہوگا۔
کراچی شہر کو مثالی اسلامی شہر بنانے کو خواہش ضرور اچھی ہے مگر اس مثالی شہر کے صوبے میں اگر اٹھارہ سال سے کم عمر میں نکاح کرنے کی سزا مقرر ہو اور اس مثالی شہر کی ریاست میں سودی نظام جاری ہو تو یہ شہر کسی روشن خیال نظریات رکھنے والوں کے لیے تو مثالی ہوسکتا ہے مگر عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل شہر نہیں بن سکتا۔ آئیے غور کریں کہ کم از کم مذکورہ بالا دو معاملات میں ہمارا قرآن کیا کہتا ہے؟
ڈاکٹر نوید اقبال انصاری
0 Comments