رچرڈ ایف برٹن نومبر 1845ء میں کراچی سے حیدرآباد جانے کے لیے نکلا تھا۔ ساتھ میں کچھ اونٹ بھی تھے، جن پر اس کا سامان لدا ہوا تھا اور اس سفر سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ وہ مکلی اور ٹھٹہ سے ہوتا ہوا،جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں یہاں ’’کینجھر‘‘پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ مچھیروں کی ایک بستی ہے، یہاں میٹھے پانی کی جھیل ہے، جس کے کناروں پر سرکنڈے، پھوس، دوب اور دوسری جنگلی گھاس اُگی ہوئی ہے۔
یہاں سے سامنے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر سرخ پتھر کا مزار نظر آتا ہے۔ یہ جام تماچی کی گھر والی نوری کا مزار ہے۔ ابن ِبطوطہ 1333ء میں یہاں آیا تھا یا نہیں، اس کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ کینجھر کی قدامت کے متعلق سمہ دور حکومت (1519ء-1351ء) میں اس جھیل کا تذکرہ اور نوری جام تماچی کی داستان کا تفصیلی ذکر سننے کو ضرور ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سمہ خاندان کے ایک مشہور حاکم جام تماچی کے عہد میں کینجھر جھیل کے اردگرد بہت سے مچھیرے رہا کرتے۔
کہا جاتا ہے کہ نوری کو اس کی موت کے بعد کینجھر جھیل کے وسط میں دفن کیا گیا۔ ایک قبر بھی یہاں پر موجود ہے، مگر کچھ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی یہاں شاید جاڑوں کے موسم میں آئے ہوں گے۔ اپنی شاعری میں کینجھر کی خوبصورتی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کی ہے۔ ایک شعر کا لب لباب یہ ہے : ’’کینجھر میں پانی اور اوپر پانی میں جھولتی ہوئی گھاس ہے۔ کناروں پر درختوں کی قطاریں ہیں، ایسے میں جب جاڑوں کا موسم آتا ہے اور شمال کی ٹھنڈی ہوائیں لگتی ہیں ،تو کینجھر جھولنے جیسی ہوجاتی ہے‘‘۔ مگر میں جب مئی میں جھیل کے مغربی کنارے پر پہنچا ،تو مغربی جنوبی ہوائیں اپنے زوروں پر تھیں اور تیز دھوپ تھی، جس کی وجہ سے آنکھیں چندھیا سی جاتیں، اور دور دیکھنے کے لیے سر پر ہتھیلی جمانی پڑتی۔ میں پتھریلے راستے پر چلتا جاتا کہ جھیل کے کنارے کھڑے پیپل کے پیڑ کے پاس پہنچ سکوں۔
مٹیالے رنگ کے پتھر پاؤں کے نیچے آتے اور ایسی آواز آتی، جیسے ہم مصری کی ڈلی کو منہ میں رکھ کر توڑتے ہیں۔ میں جب پیپل کے پیڑ تک پہنچا تو پسینے سے تربتر تھا۔ ہوائیں شمال کی نہیں تھیں اس لیے جھیل بھی جھولنے جیسی نہیں تھی پر کنول کے پھول تھے، جو کنارے پر کھلتے تھے اور ساتھ میں پھوس بھی تھی ،جو کنول کے پھولوں کے ساتھ اُگی تھی۔صدیوں سے یہ جھیل یہیں پر ہے البتہ 60 کی دہائی میں اس کے شمال میں دوسری چھوٹی جھیل ’’سونہیری‘‘ کو اس سے ملا دیا گیا اور کینجھر کو وسعت دی گئی، تاکہ کراچی کو اسی جھیل سے پینے کا میٹھا پانی فراہم کیا جا سکے۔ 1976ء میں اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھائی گئی اور اب کوٹری بیراج جامشورو سے کلری بگھار فیڈرکے ذریعے جھیل کو پانی کی فراہمی ہوتی ہے اور جھیل سے کراچی کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
کینجھر کو اس وقت دو اعزاز حاصل ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ملک کی تازہ میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے ،جس کی لمبائی اندازاً 24 کلومیٹر اور چوڑائی 6 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ اندازاً 13,470 ہیکٹرز میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کی پانی کی گنجائش 0.53 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کو رامسرسائٹ ہونے کا اعزاز ملا ہوا ہے، جو اُن جھیلوں کو دیا جاتا ہے، جو ماحولیاتی حوالے سے بڑی شاندار اور مالدار ہوتی ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں سردیوں کے موسم میں انڈس فلائی وے زون کے راستے باہر سے آنے والے پرندوں کی تعداد 1 لاکھ تک ریکارڈ کی گئی ہے اور 1977ء سے اس جھیل کو وائلڈ لائف سینکچوئری قرار دیا گیا ہے۔
جھیل کے کنارے برگد کے گھنے پیڑ ہیں ،جن کی گھنی چھاؤں آپ کو ٹھنڈک اور سکون کی لوری دیتی ہے۔ درختوں سے لمبے لمبے گچھے لٹک رہے ہیں۔برگد کے پیڑ کی چھاؤں گھنی تھی۔بہرحال میں کینجھر جھیل کے اس حصے کی طرف چل پڑا، جہاں گرمیوں میں لوگوں کے میلے لگتے ہیں،لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے مجھے مچھیروں کی ان چھوٹی بستیوں سے گزرنا پڑا ،جہاں چھوٹے چھوٹے کچے گھروں کے آگے ان کے چھوٹے چھوٹے کچے آنگن بکھرے پڑے تھے۔ کچھ لوگ جھیل سے پھوس کاٹ رہے تھے۔ اس کام میں ان کے بچے بھی ان کی مدد کرتے اور ساتھ میں جھیل کے پانی میں ڈبکی بھی لگالیتے۔ صبح ہوتی، شام ہوتی، اور جھیل کے کناروں پر زندگی یوں ہی تمام ہوتی۔
میں کچھ گھروں میں بھی گیا۔ یہ درد کی ایک الگ داستان ہے ،جو پھر کبھی سہی۔۔۔! میں کینجھر کے اس کنارے پر آیا، جہاں گرمیوں میں لوگوں کا میلہ لگتا ہے اور وہاں میلہ ہی لگا ہوا تھا۔ لہریں کنارے کو چھو کر لوٹ جاتیں۔ بچے پانی میں نہاتے۔ بڑے بھی نہاتے۔ ہزاروں لوگوں سے بھرا ہوا کینجھر کا کنارہ۔ تب مجھے کسی نے بتایا کہ پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ یہاں کسی میٹنگ کے سلسلے میں آئے ہوئے ہیں۔
شاہ صاحب سے ملنے کا یہ موقع غنیمت تھا۔میں نے کینجھر کی بگڑتی ہوئی ماحولیاتی صورتحال کے حوالے سے سوال کیا۔ جواب میں شاہ صاحب نے کہاکہ مچھلی کے بیج کے اہم مسئلے کے علاوہ دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس جھیل کو ماحولیاتی گندگی کے ذریعہ برباد کیا جا رہا ہے۔ کوٹری اور نوری آباد کی انڈسٹریوں کا اخراج اس جھیل میں ہوتا ہے۔ کے بی فیڈر میں جو پانی آتا ہے، اس میں شہروں کی گندگی کا اخراج ہوتا ہے۔ اب ایسی حالتوں میں ہم امید کریں کہ یہ جھیل ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہو، تو یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ہے اور اس ماحولیاتی بربادی کا سب سے بڑا اثر مقامی ماہی گیروں پر پڑا ہے۔ صدیوں پرانی اس جھیل کے کناروں پر نہ جانے کتنے لوگ آئے اور گئے، ہنسی اور خوشی کے کتنے کنول ان کناروں پر کھلے۔
الوداع کے کتنے موسم آنسوؤں کی چادر اوڑھے روتی ہوئی کوئلوں کی طرح کب کے اُڑ چکے۔ پہلی نظر کی کتنی فاختائیں کب کی پھر ہو چکیں، مگر کینجھر وہیں پر ہے، اس نے اپنی دین میں کوئی کمی نہیں کی۔اس کی خوبصورتی اور دین ہزاروں برس چَلے، اس کے لیے ہم سب کو سوچنا پڑے گاکیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ان کناروں پر آئیں اور اس جھیل کی خوبصورتی کو اپنے دل میں آخری دم تک سنبھال رکھیں۔
ابوبکر شیخ
شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی یہاں شاید جاڑوں کے موسم میں آئے ہوں گے۔ اپنی شاعری میں کینجھر کی خوبصورتی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کی ہے۔ ایک شعر کا لب لباب یہ ہے : ’’کینجھر میں پانی اور اوپر پانی میں جھولتی ہوئی گھاس ہے۔ کناروں پر درختوں کی قطاریں ہیں، ایسے میں جب جاڑوں کا موسم آتا ہے اور شمال کی ٹھنڈی ہوائیں لگتی ہیں ،تو کینجھر جھولنے جیسی ہوجاتی ہے‘‘۔ مگر میں جب مئی میں جھیل کے مغربی کنارے پر پہنچا ،تو مغربی جنوبی ہوائیں اپنے زوروں پر تھیں اور تیز دھوپ تھی، جس کی وجہ سے آنکھیں چندھیا سی جاتیں، اور دور دیکھنے کے لیے سر پر ہتھیلی جمانی پڑتی۔ میں پتھریلے راستے پر چلتا جاتا کہ جھیل کے کنارے کھڑے پیپل کے پیڑ کے پاس پہنچ سکوں۔
ابوبکر شیخ
0 Comments