’’کراچی کی کہانی، تاریخ کی زبانی‘‘ پہلی فرصت میں بغور مطالعہ کیا۔ جو عہد قدیم تا1965 تک کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے کہ ان ادوار میں کراچی کی تاریخ، معاشرت، معیشت، تعلیم، فن و ثقافت، سیاست اور دیگر معاملات کیسے تھے۔ بلاشبہ اس کتاب کے مصنف کھتری عبدالغفور کانڈاکریا نے شبانہ روز عرق ریزی کی ہے اور اس میں شامل قدیمی تصاویر کتاب کو جلابخشتی ہیں۔ کتاب کا انداز بیان میں تسلسل ہے جو قاری کی دلچسپی میں اضافہ کرتا ہے۔ 622 صفحات پر مشتمل یہ کتاب نئی نسل کے لیے ریفرنس ہے ۔
کھتری عبدالغفورکانڈاکریا کراچی کے علاقے لی مارکیٹ (لیاری) میں 17 جولائی 1949 کو پیدا ہوئے، 1975 میں گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ ینگ کھتری اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بانیوں میں سے ہیں جس کے تحت پندرہ روزہ اخبار ’’نوائے کھتری‘‘ کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ بجلی کے سامان کے کاروبار سے وابستہ رہے لیکن ساتھ ہی ساتھ علمی، ادبی اور سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہے ہیں۔ مسلم کچھی کھتری جماعت کراچی کے مختلف عہدوں پر فائز رہے، کچھی کھتری ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئرمین اور فنانس سیکریٹری کے علاوہ مصالحتی کمیٹی میں بھی شامل رہے ہیں۔
مذکورہ کتاب کی اشاعت سے قبل کراچی کی تاریخ پر مبنی ان کے تحقیقی مضامین وقتاً فوقتاً ایک موقر اخبار میں شایع ہوتے رہے ہیں۔کتاب کے 21 ابواب ہیں ہر باب تاریخی اہمیت کا حامل ہے خاص طور پر کراچی کے قدیمی علاقوں کا ذکر معلومات کا خزانہ ہے۔یہاں ہم ان علاقوں کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔
لیاری: لیاری نے اپنے سینے میں چھپے قدیم آثار کی ایک جھلک دکھلا کر اپنی ندامت کا تعین تو پہلے ہی کردیا ہے۔ یہاں آثار قدیمہ کی تلاش کے دوران ایک ایسی تہذیب کے آثار ملے ہیں جو ساڑھے چار ہزار سال قبل مسیح میں لیاری سے اورنگی، منگھوپیر اور حب ندی تک پھیلی ہوئی تھی۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ انھوں نے دریائے لیاری یا لیاری ندی اس کی معاون ندیوں اور حب ندی کے برساتی پانی کو قریب واقع سمندر میں گرنے سے قبل بھرپور طور پر اسے زراعت کے لیے استعمال کیا۔
پانی کی کمی نے زراعت کے پیشے کو متاثر کیا تو یہاں جینے والوں نے زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے دوسرے ہنر سیکھ لیے۔ اب یہاں لہلہاتے کھیتوں کی جگہ چھوٹی موٹی صنعتیں نظر آنے لگیں۔ یہاں چمڑا رنگنے کے کارخانے، چمڑے اورکپڑے کے رنگ تیار کرنے کے کارخانے اور بیجوں سے تیل نکالنے کی چکیاں قائم ہونے لگیں۔ گڈاپ سے شروع ہونے والی اس ندی کے اطراف میں بڑی تعداد میں ننھے لیس دار اور لذیذ میوے کے درخت تھے، جنھیں سندھی زبان میں لیار اور بلوچی زبان میں لیوار کہا جاتا ہے۔
اس مقام کو لیار یا لیوار والا علاقہ کہا جاتا تھا جو بعد میں لیاری کہا جانے لگا۔ محنت کشوں اور ہنرمندوں کی اس بستی ’’لیاری‘‘ نے کراچی کو مایہ ناز کھلاڑی، نام ور سیاستداں، ممتاز مذہبی علما، تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے والے رہنما، اعلیٰ پایے کے ادیب، خوش گلو گائیک اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے کئی جوہر دیے۔
لسبیلہ چوک، ناظم آباد: لارنس روڈ پر پاکستان کوارٹرز کے چوک سے آگے لسبیلہ چوک ہے۔ یہاں بائیں ہاتھ پر ندی کے اس پار کھیت اور باغات کا علاقہ تھا۔ مگر ان دنوں یہ علاقہ خالی میدانوں پر مشتمل ہے، یا کہیں کچے اور کہیں سیمنٹ کی دیواروں اور ٹین کی چھتوں کے پکے گھر نظر آرہے ہیں۔ 1965 کے دوران اس گزرگاہ پر آگے کی طرف حکومت سندھ نے وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کے نام سے ایک بستی ’’ناظم آباد‘‘ کے قیام کا اعلان کیا ہے (سابقہ نام ’’لالو کھیت‘‘ جو ایک بلوچ لال محمد کے نام سے منسوب تھا) پرانے شہر میں اپنی مرضی کا ایک منزلہ مکان یا بنگلہ بنانے کے لیے زمین دستیاب نہیں ہے اور اگر سولجر بازار، جمشید روڈ وغیرہ کے پوش علاقوں میں موجود ہے تو وہاں زمین کی قیمت زیادہ ہے۔
لہٰذا پرانے شہر کے متوسط طبقے کے وہ لوگ جنھوں نے کچھ رقم پس انداز کی ہوئی ہے، وہ یہاں کا رخ کر رہے ہیں۔ لسبیلہ سے ناظم آباد پہنچنے کے لیے ندی پر بنے کچے پل کی جگہ 1950 میں نیا پختہ پل تعمیر کیا گیا۔ اس نئی بستی کا رخ کرنے والے لوگوں کا مطمع نظر یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے خاندان کے افراد کو مستقبل میں پیش آنے والی رہائش کی مشکلات کا حل بھی یہاں نکل آئے گا، اور شہر کے ہنگاموں اور ٹریفک کے شور و دھوئیں سے مبرا ایک پرفضا مقام بھی میسر آجائے گا۔ اس وقت ناظم آباد میں تعمیری کام جاری ہے، حسب استطاعت سادہ مکان اور بنگلے زیر تعمیر ہیں۔
٭پٹیل پاڑہ، گرومندر، جمشید روڈ، سولجربازار: گارڈن سے لسبیلہ چوک پہنچ کر اگر داہنے ہاتھ پر رخ کیا جائے تو یہ سڑک پٹیل پاڑہ سے ہوتی ہوئی ’’گرومندر‘‘ کے علاقے کی طرف جا رہی ہے۔ گروپنج مکھی ہنومان مندر کی یہاں موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ گرومندر کے نام سے پہچانا جانے لگا۔ گرومندر اور جمشید روڈ کا علاقہ کلفٹن کے بعد دوسرا پوش رہائشی ایریا کہلاتا ہے۔ یہاں کاروباری سرگرمیاں نہیں ہیں۔ مین روڈ اور گلیوں میں رہائش بنگلوں کی صورت میں ہیں۔ جمشید روڈ پر قیام پاکستان سے قبل کے خوب صورت طرز تعمیرکے حامل بنگلے موجود ہیں۔ ’’جمشید نسروانجی مہتا‘‘ جن کے نام سے جمشید روڈ موجود ہے۔ وہ 1922 سے 1933 تک کراچی میونسپلٹی کے منتخب صدر اور کراچی کے پہلے میئر رہے ہیں۔
انھی کے دور میں بندر روڈ پر کراچی میونسپل کارپوریشن کی موجودہ عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔ اس عمارت میں منتقل ہونے سے قبل بلدیہ کے تمام امور میکلوڈ روڈ پر کرائے کی عمارت میں سرانجام دیے جاتے تھے۔ گرومندر چوک سے ایک چوڑی اور طویل سڑک سولجر بازار کی طرف جا رہی ہے یہ علاقہ صدر کے ساتھ ہی آباد ہوا۔ انگریزوں نے کراچی آمد کے بعد بندر روڈ کے پچھلے حصے (موجودہ ہولی فیملی اسپتال) کے آس پاس فوجی ڈپو اور فوجیوں کے لیے بیرکس تعمیر کیے۔
کچھ عرصہ گزرنے پر یہاں فوجیوں کے لیے سنگل اسٹوری کوارٹر تعمیر ہوئے تو ان فوجیوں کی روزمرہ ضروریات زندگی کی اشیا کی خرید کے لیے قریب ہی ایک بازار تعمیر کیا گیا۔ بعدازاں سولجروں (فوجیوں) کا یہ بازار اور علاقہ ’’سولجر بازار‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔یہاں 1885 سے 1935 تک پتھروں سے بنی عمارتیں اور 1940 کے بعد سیمنٹ سے بنی دو منزلہ عمارتیں اور بنگلے بھی تعمیر ہوئے۔ اس طرح یہ علاقہ ملے جلے طرز تعمیر کا حامل رہا۔ جمشید روڈ کی طرح سولجر بازار کے بنگلوں اور اس کے آس پاس کھلے اور خوب صورت ایریا میں رہائش قابل فخر سمجھی جاتی ہے۔
تین ہٹی، لالو کھیت: لارنس روڈ پر لسبیلہ چوک سے آگے تین ہٹی کا چوک آجاتا ہے، ’’ہٹی‘‘ مقامی زبان میں چھوٹی کیبن نما دکان کو کہا جاتا ہے۔ ان دنوں جب ندی پار باغات تھے اور ان باغات کے کاشت کار اور کارکنوں پر مشتمل بلوچوں کا ایک گوٹھ ندی کے اس طرف (جہانگیر روڈ) آباد ہوا تو ان خاندانوں کی ضروریات زندگی کی چھوٹی موٹی چیزوں کی فروخت کے لیے یہاں تین چھوٹی کیبن نما دکانیں وجود میں آگئیں۔ گوٹھ سے تھوڑے فاصلے پر سنسان علاقے میں یہ تین کیبن، بلکہ تین ہٹیاں مرکز نگاہ بن گئیں، یوں یہ علاقہ تین ہٹی کے نام سے معروف ہوگیا، جو آج تک مروج ہے۔
اس وقت تین ہٹی سے ندی کی دوسری طرف جانے کے لیے شاید کوئی کچا کاشتکاروں نے اپنی مدد آپکے تحت پتھروں اور لکڑی کے تختوں کی مدد سے بنالیا ہوگا۔ ندی کے اس پار بڑے رقبے پر باغات کے پھیلے ہوئے سلسلے میں آم اور املی کے درخت بکثرت تھے۔ باغوں کے اس سلسلے میں تین ہٹی پر ندی کے دوسری طرف کے باغات لال محمد عرف لالو کی ملکیت ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ ’’لالو کھیت‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ (جسے آج لیاقت آباد کہا جاتا ہے)۔‘‘
الغرض کراچی کی کہانی، تاریخ کی زبانی۔ نئی نسل کے لیے ایک حوالہ جاتی کتاب ہے اور ساتھ ہی بزرگ شہریوں کو ماضی کی یادوں میں لے جاتی ہے۔ جہاں ہر سو سکھ و چین تھا، بھائی چارگی کی وجہ سے لوگوں کو غربت کا احساس نہیں ہوتا تھا جب کہ آج لوگ خوشحال ہونے کے باوجود روحانی طور پر بے سکون دکھائی دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مادیت پرستی، بھائی چارگی پر غالب ہے۔ ہماری دعا ہے کراچی کا حسن پھر سے لوٹ آئے جہاں راتیں جاگتی تھیں، جان و مال کا تحفظ ہوتا تھا، ہمارا تمہارا کس کا کراچی کے زہریلے نعرے نہیں تھے، کراچی، سب کا کراچی تھا۔ اے کاش! پھر وہی دور لوٹ آئے!
شبیر احمد ارمان
کچھ عرصہ گزرنے پر یہاں فوجیوں کے لیے سنگل اسٹوری کوارٹر تعمیر ہوئے تو ان فوجیوں کی روزمرہ ضروریات زندگی کی اشیا کی خرید کے لیے قریب ہی ایک بازار تعمیر کیا گیا۔ بعدازاں سولجروں (فوجیوں) کا یہ بازار اور علاقہ ’’سولجر بازار‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔یہاں 1885 سے 1935 تک پتھروں سے بنی عمارتیں اور 1940 کے بعد سیمنٹ سے بنی دو منزلہ عمارتیں اور بنگلے بھی تعمیر ہوئے۔ اس طرح یہ علاقہ ملے جلے طرز تعمیر کا حامل رہا۔ جمشید روڈ کی طرح سولجر بازار کے بنگلوں اور اس کے آس پاس کھلے اور خوب صورت ایریا میں رہائش قابل فخر سمجھی جاتی ہے۔
الغرض کراچی کی کہانی، تاریخ کی زبانی۔ نئی نسل کے لیے ایک حوالہ جاتی کتاب ہے اور ساتھ ہی بزرگ شہریوں کو ماضی کی یادوں میں لے جاتی ہے۔ جہاں ہر سو سکھ و چین تھا، بھائی چارگی کی وجہ سے لوگوں کو غربت کا احساس نہیں ہوتا تھا جب کہ آج لوگ خوشحال ہونے کے باوجود روحانی طور پر بے سکون دکھائی دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مادیت پرستی، بھائی چارگی پر غالب ہے۔ ہماری دعا ہے کراچی کا حسن پھر سے لوٹ آئے جہاں راتیں جاگتی تھیں، جان و مال کا تحفظ ہوتا تھا، ہمارا تمہارا کس کا کراچی کے زہریلے نعرے نہیں تھے، کراچی، سب کا کراچی تھا۔ اے کاش! پھر وہی دور لوٹ آئے!
0 Comments