کراچی آرٹس کونسل کی آٹھویں سالانہ ادبی کانفرنس میں ہونا تھا جس کا وعدہ میں بہت پہلے سے برادرم احمد شاہ سے کر چکا تھا لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ 6 دسمبر کو اچانک میرے والد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہو گیا اور یوں آیندہ دو تین دن صبح و شام کا پتہ ہی نہیں چل سکا‘ خدا خدا کر کے 9 دسمبر کو ان کی طبیعت اس قابل ہوئی کہ جسے خطرے سے باہر قرار دیا جا سکتا تھا ۔
اگرچہ کمزوری اب بھی بلا کی تھی، ان کی اجازت اور بھائی احمد شا کے تقاضوں کے باعث یہ فیصلہ کیا گیا کہ میں بھاگ کر اور کچھ نہیں تو حاضری ہی لگوا آؤں۔ آرٹ کونسل کی متعلقہ افسر عزیزہ روزینہ نے بہت تگ و دو کے بعد کسی نہ کسی طرح نئی بکنگ بھی کروا دی۔ ایئرپورٹ پر برادرم عباس تابش اور کویت والے خالد سجا دمل گئے جو آخری سیشن یعنی مشاعرے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ سو دھیان ہٹانے میں آسانی ہوگئی۔
پانچ بجے انور مسعود کے ساتھ ایک خصوصی سیشن تھا جس کی میزبانی مجھے کرنا تھی سو طے پایا کہ ہوٹل میں سامان رکھ کر اور انور مسعود کو ساتھ لے کر فوری طور پر کانفرنس ہال کا رخ کیا جائے۔ معلوم ہوا کہ مندوبین اور حاضرین، ہر اعتبار سے یہ کانفرنس زیادہ کامیاب اور پر ہجوم ہے جس کا بہت سا کریڈٹ یقینا ان تمام اداروں کو بھی جاتا ہے
جنہوں نے کراچی شہر کا امن و امان بحال کرنے اور اس کی رونقیں لوٹانے میں مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن کراچی آرٹس کونسل کی ساری انتظامیہ اور منتخب نمایندے بالخصوص مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے نہ صرف بہت سے چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے اس کانفرنس کا انعقاد کیا بلکہ یہ کام ایسے معیاری اور منظم انداز میں کیا کہ بقول شخصے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔
یوں تو اطلاعات کے مطابق اس وقت تک کے تمام سیشن بہت کامیاب رہے تھے لیکن ان سب کا عمومی انداز سنجیدہ فکری اور علمی نوعیت کا تھا‘ اب آپ اسے انور مسعود کی غیر معمولی مقبولیت کہیے یا عمدہ اور معیاری تفریح کا کال یا پھر دونوں کہ اس سیشن میں حاضری کے اب تک کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کرسیوں کے ساتھ ساتھ سیڑھیاں بھی بھر گئیں جس کا خوشگوار اثر بعد کے تمام سیشنز پر بھی پڑا‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کانفرنس کا احوال بہت اچھے انداز میں کور کیا جا چکا ہے او ر یقینا علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے قارئین نے سے فالو بھی کیا ہوگا
اس لیے میں اس کی تفصیل میں جائے بغیر صرف ان قرار دادوں پر بات کروں گا جو افتتاحی اجلاس میں کونسل کے موجود ہ سیکریٹری اور سابق صدر احمد شاہ نے پڑھ کر سنائیں اور جن کو حاضرین نے پرجوش تالیوں کے ساتھ منظور بھی کیا البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس بار بھی حسب سابق اختتامی اجلاس میں مختلف حوالوں سے چنیدہ چند نمایندوں کو اسٹیج پر جگہ دی گئی تھی جنہوں نے مختصر الفاظ میں منتظمین کو اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ کچھ تجاویز بھی پیش کیں۔
اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے انجام دیے جن کے بارے میں احباب سے پتہ چلا کہ وہ آیندہ انتخابات میں کراچی آرٹس کونسل کے جنرل سیکریٹری کا انتخاب لڑ رہی ہیں اور یہ کہ احمد شاہ نے تقریباً دس برس تک صدر اور سیکریٹری کے کلیدی عہدوں پر شاندار کام کرنے کے بعد اب آیندہ الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کر دیا ہے اور اب وہ ایک تجربہ کار بزرگ کی طرح نئی انتظامیہ کو رہنمائی اور مشاورت مہیا کریں گے اس شیشن کی صدارت آرٹس کونسل کے نائب صدر اور سینئر ادیب سحر انصاری صاحب نے کی جب کہ اختتامی کلمات تشکر برادرم اعجاز فاروقی نے ادا کیے
جو بلاشبہ اب کئی حوالوں سے کراچی کی ثقافتی زندگی کے باقاعدہ نمایندہ اور ترجمان بن چکے ہیں۔ گفتگو کرنے والوں میں بھارت سے پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی‘ ڈاکٹر عبدالکلام قاسمی‘ عبید صدیقی اور انیس اشفاق برطانیہ سے ان کانفرنسوں کی مستقل رونق رضا علی عابدی اور میزبان ملک کی کی طرف سے میری یادداشت کے مطابق صاحب صدر کے علاوہ ڈاکٹر پیر زاد ہ قاسم‘ انور مسعود‘ افتخار عارف‘ فرہاد زیدی‘ کشور ناہید اور یہ خاکسار شامل تھے ان قراردادوں اور سفارشات کی جس خوبی نے مجھے بہت متاثر کیا وہ ان کی سنجیدگی‘ اہمیت‘ گہرائی اور بالخصوص وہ وسیع النظری تھی جس میں اردو کو صرف ان لوگوں تک محدود نہیں رکھا گیا تھا جن کی یہ مادری زبان ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کی لسانی‘ تعلیمی‘ سیاسی‘ عملی اور بین الاقوامی مسائل اور ان کے متعلقہ پہلوؤں پر بھی بھرپور توجہ دی گئی جو میرے نزدیک اس طرح کی کانفرنسوں کا اصل اور ماحصل ہونا چاہیے۔
مثال کے طور پر تعلیم کے حوالے سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ابتدائی تعلیم صرف مادری یا قومی زبان میں دی جائے اور ملک کے تمام صوبوں اور اسکولوں میں ایک ہی نصاب تعلیم پڑھایا جائے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ درسی کتابوں میں شامل اسباق میں تو حسب ضرورت فرق روا رکھا جا سکتا ہے مگر یہ تمام اسباق ایک ہی طے شدہ نصاب تعلیم کے مطابق ہونے چاہئیں تا کہ ہماری آیندہ نسلیں انگریزی میں جدید علوم پڑھنے سے قبل زبان و ادب تاریخ و تہذیب اور بنیادی علوم کے حوالے سے یکساں نوعیت کی معلومات سے بہر ہ مند ہوں اور زندگی کے بارے میں ان کے بنیادی تصورات واضح بھی ہوں اور مشترک بھی۔
اسی طرح لائبریریوں کے فروغ‘ میڈیا چینلز میں استعمال ہونے والی زبان کی صحت‘ کاغذ اور کتابوں کی مہنگائی‘ اردو رسم الخط سے نئی نسل کی دوری کے اسباب اور ان کے سدباب اور بک پوسٹ پر ڈاک کے انتہائی بھاری اخراجات کے ضمن میں بھی بہت عمدہ اور دور رس سفارشات سامنے آئیں۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے پاکستان اور ترقی یافتہ دنیا کے باہمی تعلقات اور سیاسی حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلسل کشیدگی‘ دونوں ملکوں کی ویزا پالیسیز اور باہمی تعاون کو بڑھانے کے لیے بھی تجاویز پیش کی گئیں۔ احمد شاہ نے اس بات کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا کہ جتنے بھی بھارتی مندوب اس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں سب کو دلی کے پاکستانی سفارت خانے نے ہر ممکن مدد فراہم کی ہے اور اسی رویے کی ہم پاکستان میں قائم بھارتی سفارت خانے سے بھی توقع رکھتے ہیں۔
مشاعرہ اس کانفرنس کی آخری تقریب تھا جس میں 30سے زیادہ شاعروں نے اپنا کلام سنایا نظامت سردار خان اور عزیزہ عنبرین حسیب نے کی جب کہ بھارت سے آئے ہوئے مہمان شاعروں میں عبید صدیقی انیس اشفاق ‘ فرحت احساس اشوک صاحب اور رنجیت چوہان شامل تھے صبح 3 بجے تک یہ محفل جاری رہی اور بیشتر سامعین نے اسے آخر تک سنا۔
امجد اسلام امجد
0 Comments